دشمنان ملت اور مغرب نے ماضی میں
امت مسلمہ کی پہلی ایٹمی قوت کو راندہ درگاہ بنانے کی جتنی سازشیں رچائیں
ان میں یہود و ہنود کے علاوہ بھارت اور اسرائیل پیش پیش رہے ۔را اور موساد
کئی مرتبہ جوائنٹ ریشہ دوانیوں کے بل پر پاکستان میں تخریب کارانہ
کاروائیاں کرچکی ہیں۔ اسرائیل امریکہ کا ناجائز بچہ جمہورا ہے جبکہ بھارت
بش دور میں واشنگٹن کا ایٹمی پارٹنر بن چکا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ
ہوگا کہ تینوں امریکہ اسرائیل و انڈیا ایک ہی تھالی کے بینگن اور چٹے بٹے
ہیں مگر اس مرتبہ معاملہ زرا مختلف ہے ۔ امریکہ کو اپنا مرغان دست اموز
سمجھنے والے انڈیا و اسرائیل میں کہرام برپا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ دہلی
میں مقامی یا عالمی سطح کی ہاہاکار مچے اور پاکستان کا اس سے کوئی لنک نہ
ہو۔ بھارت اور اسرائیل کے مہان شہہ دماغ اس وقت سیخ پا ہوگئے جب صدر اوبامہ
نے جان کیری کو وزیرخارجہ جبکہ چک ہیگل کو وزیردفاع بنایا۔ جان کیری کی
نامزدگی پر انڈین آہ و زاری کا یہ عالم ہے کہ عالمی سطح پر شہرہ افاق
دانشور لندن کے کنگز کالج میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر ہرش وی کانت نے
وال سٹریٹ جرنل میں جان کیری کے تقرر پر َ>اسلام اباد کا آدمی <کے عنوان سے
آرٹیکل لکھ کر اپنے من کی بھڑاس نکالی۔ کانت صاحب کی ہاہاکار میں جہادیوں
اورا فواج پاک پر خوب تنقید اور مخاصمانہ جذبات کا جوہری ارشاد شامل ہے۔ وہ
لکھتے ہیں کہ جان کیری پاکستان کے فوجی جہادی کیمپ کے لئے نرم گوشہ رکھتے
ہیں۔ جان کیری نے اسامہ کی ہلاکت پر وائٹ ہاوس کو ہدف تنقید بنایا تھا کہ
ایک طرف امریکہ نے نہ تو ایبٹ اباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر پاکستانی
فورسز اور حکومتی تعاون کو عزت کی نگاہوں سے دیکھا اور نہ ہی دوسری طرف
دنیا کے سب سے مطلوب دہشت گرد القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کو
کامیاب آپریشن کے بعد انجام تک پہنچانے میں پاکستانی کردار کو داد تحسین سے
نوازا۔ ہری کانت کے ارشادات میں کیری کے خلاف چارج شیٹ میں الزامات کا
پلندہ شامل ہے کہ وہ ماضی میں حکومت امریکہ پر دباو ڈالتے رہے کہ پاکستان
کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو مذید وسعت دی جائے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف
امریکی جنگ میں اسلام آباد کا کردار قابل تعریف اور امریکی فورسز کے کامیاب
انخلا کی خاطر پاک فورسز کا مستقبل میں تعاون ناگزیر ہے۔ اس امر میں کوئی
شک نہیں کہ جان کیری خود ویت نامی جنگ کے ہیرو ہیں وہ جنگوں کی ہلاکت
افرینی اور تباہ کاریوں کا تلخ تجربہ رکھتے ہیں۔ شائد اسی تناظر میں وہ
افغان جنگ کو لاحاصل سمجھ کر امریکی فورسز کے انخلا پر زور دیتے رہے ہیں۔
یاد رہے یہ جان کیری تھے جس نے پاکستان میں تین نوجوانوں کو قتل کرنے والے
ریمنڈ کو رہا کروایا تھا۔کیری نے وعدہ کیا تھا کہ ریمنڈ کے خلاف امریکہ میں
قتل کا مقدمہ چلایا جائیگا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسامہ
کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن میں کریش ہونے والے امریکی ہیلی کاپٹر کا ملبہ
جان کیری کی کوششوں سے امریکہ کے سپرد کیا گیا۔ انڈین لابیوں نے مغربی
زرائع ابلاغ کی چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کردیا ہے۔ کیری کا ایک جرم یہ
بھی ہے کہ اس نے لوگر بل کی حمایت کی تھی لوگر بل کے مطابق امریکہ نے
پاکستان کو7.5 ڈالر کا امدادی پیکج دیا تھا۔ بھارتی حکمت کاروں کی کیری کے
خلاف آہ و بکا میں اگر کوئی تھوڑی بہت کمی تھی تو وہ امریکہ میںپاکستانی
ایمبیسڈر شیریں رحمن کی دیدنی اور کیری کے حق میں خوشگوار بیانات کے بعد
پوری ہوگئی۔ شیریں نے جان کیری کی نامزدگی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے نہ
صرف پاکستان کا مخلص دوست کہا بلکہ کیری کو داد تحسین دیتے ہوئے جنوبی
ایشیا کی نزاکتیں سمجھنے والا ماہر نسخہ گر اور ماہر سفارت کار کا درجہ دیا۔
شیریں رحمان کی قادر القلامی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ کیری ماضی میں
امریکی حکام کی توجہ بار بار اس امر کی طرف دلاتے رہے ہیں کہ کابل سے ناٹو
فورسز کا انخلا دنیا میں قیام امن اور امریکی مفادات کی خاطر نوشتہ دیوار
بن چکا ہے۔ بھارتی تھنک ٹینکس کو خدشہ ہے کہ جان کیری کی تعیناتی سے
افغانستان میں پاکستان کا کردار مذید دو چند ہوگا جبکہ نیودہلی کا اثر و
نفوز ختم ہوسکتا ہے۔ سلیم گیلانی کا نام بھارت کے لئے سوہان روح بن چکا ہے۔
سلیم گیلانی ریوڈیو پاکستان کے سرخیل تھے۔ بعد ازاں وہ امریکہ میں رچ بس
گئے۔ انکا نام اب رچرڈ ہیڈلے ہے جو بھارت کو مطلوب ہے۔ نھارت نے امریکہ سے
باقاعدہ درخواست کی تھی کہ ہیڈلے کو انکے سپرد کیا جائے مگر امریکہ نے یہ
مطالبہ رد کر دیا۔ بھارت سمجھتا ہے کہ امریکہ کا یہ فیصلہ پاکستان کی فیور
میں ہے۔ بمبئی دھماکوں کے بعد امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن بھارت نوازی
میں پاکستان پر برس پڑی اور حاکمانہ دندناہٹ کی گونج میں حکم جاری کیا کہ
پاکستان دہشت گردوں کو گرفتار کرے ۔ جان کیری کی آمد سے اسلام آباد ہیلری
برانڈ کے کس و ناکس دباو سے آزاد ہوجائیگا۔ سابق وزیردفاع لیون پینٹا نے
ماضی قریب میں کہا تھا کہ اب انکی پالیسی کا محور و مرکز بھارت ہوگا۔
اوبامہ نے مشرق بعید کانفرنس میں من موہن کو طفل تسلیاں دیں کہ اس نے دوسری
مدت میں بھارت کے لئے کئی شاندار منصوبے بنارکھے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ
جان کیری کے وزیرخارجہ بنتے ہی بھارتی نیتاوں کے سارے خواب سراب بنتے نظر
آتے ہیں۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت کابل سے پاکستان کو
نکال باہر کرنے کا پلان بنائے ہوئے تھا جو فی الوقت چور چور ہوگیا۔زرداری
حامد کرزئی اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے چند روز قبل ہاتھوں میں
ہاتھ ڈال کر افغانستان سے درانداز افواج کاہرہ کے انخلا اور قندھار سے
پشاور تک امن و امان کے گلستان کو پروان چڑھانے کا جومتفقہ عہد کیا وہ نیو
دہلی پر خود کش بمبار بنکر نازل ہوا۔ جان کیری کو امریکہ میں مرد بحران کہا
جاتا ہے۔ وہ پیچیدہ مسائل و مصائب کو حل کرنے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں۔
وہ سینٹ کے بیس سالوں سے ممبر ہیں۔ صہیونیت سے منسلک میگزین ہرٹز میگزین نے
کیری کو امریکہ کا بشارالاسد نام دے ڈالا۔ کیری ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں
کہ مڈل ایسٹ میں امریکی مفادات کے لئے بشارالاسد سے موزوں کوئی اور شخصیت
نہیں۔ ہوانا میں کیری کو کیوبا کا ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ فارن پالیسی میگزین
کے مطابق جان کیری کیوبا پر عائد اقتصادی پابندیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔
انکا موقف ہے کہ ان پابندیوں سے نہ تو امریکہ کو کوئی فائدہ مل سکا الٹا
لاطینی امریکہ میں وائٹ ہاوس کے خلاف نفرت کی شدت میں اضافہ ہورہا
ہے۔نیویارک ٹائمز نے دو سال پہلے جان کیری کو کابل میں >ہمارا آدمی < کے
عنوان سے ادارئیہ شائع کیا تھا کیونکہ جان کیری نے ویتنامی تجربے کی روشنی
میں افغان جنگ کو لاحاصل جنگ کا نام دیا تھا۔جان کیری کو فرانس میں> امریکہ
کا مرد <کے لقب سے مقبولیت حاصل ہے۔ صدر اوبامہ نے جان کیری کو عالمی سطح
پر امریکی شناخت کہا۔بھارت اگر جان کیری کی وزارت خارجہ پر آنسو بہارہا ہے
تو بھارتی و امریکی ہمنوا اسرائیل نے وزارت دفاع کے نئے مہاراج چک ہیگل کے
خلاف صف ماتم بچھا رکھا ہے۔ یہودی لابیوں نے چک ہیگل کی نامزدگی پر میڈیا
وار کو پیک پر پہنچادیا۔امریکی سینٹ میں یہود نواز ممبران نے مطالبہ کیا ہے
کہ وزیردفاع اپنے ایران حزب اللہ کے ساتھ دوستانہ روابط کی وضاحت
کریں۔ریپبلکن سینیٹر گراہم بیل نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر چک ہیگل
وزیردفاع بنے تو وہ امریکی ہسٹری میں پہلے اسرائیل مخالف منسٹر ہونگے۔چک
ہیگل ایران و فلسطین پر اسرائیلی پالیسی کے ناقد ہیں۔ العربیہ ٹی وی کی
رپورٹ کے مطابق وزیردفاع کے خلاف شر انگیز مہم شروع کررکھی ہے۔اس مہم کے
روح رواں وہ یہودی گروہ ہیں جو چک ہیگل کو ایرانی ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ٹی وی
کے مطابق چک ہیگل نے امریکی کانگرس میں ایرانی فورسز اور پاسداران انقلاب
کو دہشت گرد فورس ڈیکلیر کرنے اور اقتصادی پابندیوں سے متعلق قرارداد کی
مخالفت کی تھی۔ چک ہیگل تہران کے ساتھ ڈائیلاگ کے طرف دار ہیں۔ کیا امریکہ
اور ایران کے مذاکرات ممکن ہیں؟ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک خفیہ
دستاویزdiplomatic cabels گلوبل افیر میں شائع ہوئی ہے جو نیشنل ایرانین
کونسل کے تحقیقی شعبے کے سربراہ رضا مارشی کے ایک مضمونdealing wth iran
میں ایران امریکہ مذاکراتی عمل پر مبنی ہے۔ مارشی لکھتے ہیں امریکہ ایران
تناؤ بڑھ رہا ہے۔جنگی بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایک جانب اسرائیل ہاک اور وار
انڈسٹریز سے منافع کمانے والے ہیں جو جنگ چاہتے ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ
جنگیں ہوتی رہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ جنگی اسلحہ فروخت ہوتا رہے۔دوسری جانب
ہمارے جیسے ہیں جو امن پسند ہیں جنکی کوشش ڈائیلاگ کے ایجنڈے تک محدود
ہے۔مارشی لکھتے ہیں کہ اوبامہ کے رفقا مزاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے قائل
نہیں۔مارشی تین سوالات اٹھاتے ہیں جب امریکی مذاکرات کے حق میں نہیں تب
امریکی سفارت کار مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو کس
طرح بروئے کار لاسکتے ہیں؟امریکہ پھر کس طرح ایران سے یہ توقعات کرسکتا ہے
کہ وہ اہم اثاثوں سے دستبردار ہوجائے؟ امریکہ اب کس بنا پر ایران سے متوقع
ہے کہ ایرانی قیادت امریکہ کے مذاکراتی عمل میں غیر سنجیدہ روئیے کے بعد
سنجیدگی کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔ گو کہ مارشی نے اپنی دانست میں اہم نکات
اٹھائے ہیں۔ اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی تاریخ اور امریکی
دانش جنگ مخالف ہے۔کیا وہ ڈائیلاگ پر یقین رکھتے ہیں۔معروف صحافی فرید
زکریا نے 21جنوری کے ٹائم میگزین میں مارشی کے سوالات کو زیر بحث بناتے
ہوئے لکھا کہ دو مرتبہ ایسے مواقع پیدا ہوئے ہیں جب ایران امریکی حدود کے
تحت مذاکرات پر سنجیدہ تھا مگر عین وقت پر وائٹ ہاوس نے پینترا بدل لیا۔
کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جروس لکھتے ہیں کہ امریکہ نے پناما1989
عراق1990 افغانستان2001 عراق2003 میں ہر قسمی پابندیاں عائد کیں۔غیر آئینی
حربے آزمائے گئے دباو دھمکیاں دی گئیں مگر امریکہ کے ہاتھ کچھ نہیں
ایا۔شمالی کوریا کو دھمکیاں دی گئیں مگر نتیجہ لاحاصل رہا۔ جروس لکھتے ہیں
کہ امریکہ کو خون کا بازار گرم کرنے کی بجائے مذاکرات کی میز پر انا چاہیے۔
امریکی قیادت کو مارشی اور پروفیسر جروس کی دانشمندانہ نصیحت پر عمل کرنا
چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ وزیر دفاع چک ہیگل کی تعیناتی پروفیسر جروس کی دانش سے
لگا کھاتی ہو۔وائٹ ہاوس بھارت اور اسرائیل کے واویلے پر کس رد عمل کا اظہار
کرتا ہے تاہم جان کیری اور چک ہیگل کی تعیناتی دنیا بھر کے اربوں امن پسند
انسانوں کے لئے خوش ائند ہے۔ امید کی جاتی ہے دونوں جان کیری اور چک ہیگل
جنوبی ایشیا افغانستان اور مڈل ایسٹ میں قیام امن کی خاطر اپنا بھرپور
کردار ادا کریں گے۔ |