وطن عزیز میں عدلیہ، میڈیا اور
رائج الوقت تمام سیاسی جماعتوں کی بیکار بحثوں اورسیاسی بیان بازیوں میں
معیشت کی تباہی کا سفر بدستور جاری ہے۔سرمایہ دارانہ معیشت دان اور ان کے
احکامات پر چلنے والے سیاسی قائد غیر ملکی سرمایہ کاری کو ملکی معیشت کی
بہتری کے لیے اکسیر مانتے ہیں گو کہ اس غیر ملکی سرمایہ کاری کے نتیجے میں
بیروزگاری اور غربت مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہے۔ لیکن غیر ملکی سرمایہ کاری سے
جہاں محنت کشوں کا استحصال بڑھتا ہے وہاں ان غیر ملکی سرمایہ داروں کے
منافعوں میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ حکمران اپنی
تمام تر کوششوں کے باوجود مروجہ انتہائی ظالمانہ سرمایہ دارانہ ہتھکنڈوں سے
بھی معیشت کو چلا نہیں پا رہے۔حالیہ رپورٹ کے مطابق موجودہ مالی سال کی
پہلی سہ ماہی میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 67فیصد کمی ہوئی ہے اور وہ
گزشتہ سال اسی دورانیے میں 26.3کروڑ ڈالر سے کم ہو کر اس سال 8کروڑ 70لاکھ
ڈالر رہ گئی ہے۔ دوسری جانب بہت سے شعبوں میں موجود غیر ملکی سرمایہ کاری
ملک سے باہر کی جانب گئی ہے اور اس رفتار میں تیزی آ رہی ہے۔انتہائی مقبول
ٹیلی کام کے شعبے سے بھی غیر ملکی سرمایہ کاری ملک سے باہر چلی گئی ہے اور
مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ملک سے باہر جانے والی غیر ملکی سرمایہ کاری
کا حجم 11کروڑ ڈالر کے قریب پہنچ گیا ہے۔اسی طرح غیر ملکی زر مبادلہ کے
ذخائر میں بھی کمی آ رہی ہے اور وہ 14.4ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔
وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک کے ٹوکیو میں آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی
جاری ہیں جہاں وہ اس ڈوبتی معیشت کو کچھ وقت کا سہارا دینے کے لیے گڑ گڑا
کر بھیک مانگ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت ابھی تک 14ارب ڈالر کے
قرضے لے چکی ہے۔یہ ملک اپنے جنم سے لے کر اب تک مسلسل قرضوں کی چکی میں
اتنا پس چکا ہے کہ حکمران قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے بھی قرضہ لیتے
ہیں۔ٹوکیومیں جاری حالیہ مذاکرات بھی اسی مقصد کے لیے ہیں۔اس مالی سال کے
دوران پاکستان کو 2.9ارب ڈالر آئی ایم ایف کو ادا کرنا ہے جس سے زر مبادلہ
کے ذخائر مزید تیزی سے کم ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے لیٹر آف
کمفورٹ کی بھی بھیک مانگی جا رہی ہے جس کے بعد ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ
بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
قرضے دینے کے لیے مالیاتی اداروں کی جانب سے جو کڑی شرائط عائد کی جا رہی
ہیں ان سے بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔جس کے بعد نہ صرف
مہنگائی کی شدت بہت زیادہ بڑھ جائے گی بلکہ بڑے پیمانے پر مزید صنعتیں بند
ہوں گی اور بیروزگاری کا سیلاب بڑھتا چلا جائے گا۔قرضوں کے لیے ملک کے اہم
ترین اثاثوں کو بھی عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھا جائے گا جنہیں
ضرورت پڑنے پر وہ ادارے بیچ کر اپنی ڈوبی ہوئی رقم کی وصولی کر سکیں گے۔اس
کے علاوہ واپڈا سمیت دیگر اہم اداروں کی بڑے پیمانے پر نجکاری کی منصوبہ
بندی بھی کی جا رہی ہے جس سے ہزاروں افراد بیروزگار ہوں گے۔اس دوران محنت
کی منڈی میں نئے بیروزگار نوجوانوں کے لیے موجود روزگار کے مواقع نہ ہونے
کے برابر ہوں گے۔
یہ ہے منظر نامہ ہمارے ملک کا جو کہ اپنے بہترین موسموں اور تمام تر قدرتی
وسائل کے باوجود آج ایک عالمی بھکاری کی صف میں کھڑادنیا کے 10 غریب ترین
ممالک میں شامل ہے۔ جبکہ دنیا کے 10 امیر ترین ممالک وہ ہیں جن کے پاس نا
تو اپنی (افرادی قوت)Manpower ہے اور نا ہی موسم اتنے موافق ہیں کہ پورے
سال کی فصل لے کر صرف اپنی خوراک ہی حاصل سکیں لیکن اس کے باوجود ہم ان سے
بھیک کے نا صرف متلاشی رہتے ہیں بلکہ اپنی پوری پوری زندگی انکے ملکوں میں
جانے کے خواب کے ساتھ گذار دیتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا اپنا نا تو کوئی مشن ہے
اور نا ہی کوئی منزل بس ہم صرف جانوروں کی طرح جی رہے ہیں۔ ہم مردہ پرست
لوگ ہیں جو مر جاتے ہیں وہ ہمارے حاکم بن جاتے ہیں اسی لیئے آج پاکستان میں
ہر شخص اپنے اپنے مردوں کے مشن کا پرچار کرتا نظر آتا ہے۔ اپنے ارد گرد
لوگوں کو دیکھو کتنے مردوں کے مشن آپ کو نظر آیئں گے جن میں قائد اعظم،
لیاقت علی خان، بھٹو، مودودی، اور اور نا جانے ہم کون کون سے مردوں کے مشن
سر پر اٹھا کر پوری دنیا فتح کرنے کی دھن میں لگے ہوئے ہیں۔ دنیا کی اور
قوموں کے پاس بھی مردے ہیں لیکن انکے مردے صرف ایک Symbol یا Memorial سے
زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ کسی بھی ملک کو چلانے کیلئے مختلف پالیسیوں
کی ضرورت ہوتی جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ ان پالیسیوں کا تعلق
سائینس، معاشیات، سیاسیات، سوشیالوجی اور دیگر علوم سے ہوتا ہے۔ اسی لئے
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی پالیسیاں یونیورسٹیز کے
متعلقہ(تحقےقاتی شعبے) Research Departments سے حاصل کرتے ہیں جبکہ ہمارے
ملک کی پالیسیاں بڑے بڑے زمیندار، سرمایہ دار اور صنعتکاروں کے ڈرائینگ
رومز میں بنتی ہیں۔ اور ہمارے سائنسدان اور دیگر علوم کے ماہرین کی حیثیت
محض ایک لائیبریری میں رکھی ھوئی کتاب سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اور کئی صدیوں
سے ہم دنیا کے سارے علوم چھوڑ کر صرف ایک ہی پٹاری سے ہر قسم کا سانپ
نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب ہمیں ہر قسم کی مذہبی اور سیاسی مردہ پرستی
چھوڑ کر اپنے موجودہ حالات کو صرف آج کے جدید علوم کی روشنی میں دیکھنا
ہوگا۔ اب ہمیں اپنے ارتقا کے ساتھ یورپ کی طرح 500 سال تک Dark age میں
چلنے کی ضرورت نہیں بلکہ ایک Jump کی ضرورت ہے ۔ |