مستقبل کا ہراول دستہ

آنے والا کل کیسا ہوگا ؟ یہ تو ر ب تعالیٰ کو ہی پتہ ہے۔ہو سکتا ہے جو کل کے لئے حاکم کُل نے لکھ رکھا ہے۔اس میں کچھ تبدیلی کر دے یا پھر سب کچھ ہی بدل دے! کسی کو کچھ معلوم نہیں۔مادی خداؤں کے دعوے مٹی کے ڈھیر ہوتے ہیں اور خس و خاشا ک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔اچھا بھلا آدمی پل میں مردہ ہوجاتا ہے۔اور برسوں کا مریض اچھا ہوکر کاروبار زندگی میں مشغول ہوجاتاہے۔یہ کل کی بات ہے جو ستر کی دھائی کے عزت دار تھے وہ آج کل عزت کو بچانے کی تگ ودو میں ہیں۔اور کمی کمین اعلیٰ عہدوں اور مرتبوں پر براجمان شرفا کی پگڑیاں اچھالنے اور تکبر کا آسمان چھونیں پر اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔وہ لوگ جنہیں جیلوں میں ہونا چاہے تھا وہ حکو متوں کے ایوانوں میں بیٹھے قوم کی تقدیروں سے کھیل رہے ہیں۔اور ملکی خزانہ لوٹ کر بیرون ملک بینک بھر رہے ہیں۔پکوڑہ مچھلی، انڈے، مرغے اور کٹے و چھے بیچنے والے اور چوریاں کرنے والے خاندانوں کے چشم وچراغ سیاسی جماعتوں کے کارندے بن کر اور ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کر کے ارب اور کھرب پتی بن گئے ہیں۔اور ایک نئی اشرافیہ نے جنم لیاہے۔

جناب بلاول بھٹو زرداری نے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوھدری کو طعنہ دیا کہ بڑے قاضی کو سموسے پکوڑے والوں کی فکر ہیں۔جبکہ میری ماں کے قاتل دھند دناتے پھر رہے ہیں۔جناب بلاول زرداری نے صحیح اور سچ کہا ہے۔اگر جناب چیف جسٹس ان سموسے اور پکوڑے والوں پر گرفت نہیں کرینگے تو یہ پکوڑا فروش اشرافیہ اس ملک کو پکوڑوں کے بھاؤں بیچ دے گی۔جنا ب بلاول شاید اخبار پڑھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی خبریں سننے کا انھیں کوئی شوق ہے ۔جبکہ انکے ہر اول دستے میں ان ہی کی طرح کے شہزادے اور نواب زادے بھرتی ہوے ہیں۔ جن کا شوق گھوڑوں پر رقم لگانا، شکا ر کھیلنا ،مریدوں کو درشن دینا ، مریدنیوں سے دل بہلانا ، شہزادوں، نواب زادوں ، مخدوموں اور محبوبوں سے گپ شپ کرنا ہے۔یہ لوگ بڑی گاڈیوں میں سفر کرتے ہیں ۔بڑے بڑے ہو ٹلوں اور بڑی بڑی شاندا ر حویلیوں اور ر محلوں میں قیام کرتے ہیں۔اور بڑی بڑی محفلوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔اسلئے انھیں خبریں سننے کی فرصت نہیں ملتی۔ چونکہ ان لوگوں نے مستقبل میں اٹھارہ کروڑ زندہ انسانوں کے مقدر کا بوجھ بھی اٹھانا ہے اس لیے انھیں بُری خبروں سے دور رکھا جاتا ہے تا کہ ان کی نازک طبع پر دک نہ آئے۔

اگر بلاول زرداری واقعی با خبر ہوتے تو انھیں سب سے پہلے اپنی والدہ کے قاتلوں کا پتہ ہونا چاہیے تھا اور وہ چیف جسٹس کے سامنے جا کر ان قاتلوں کا نام لیکر بتاتے کہ یہ میری ماں کے یہ قاتل ہیں ۔ آپ انھیں سزا دیں۔ مگر وہ یہ نہ کر سکے چونکہ ان کے والد محترم اور وزیر داخلہ جناب رحمان ملک جھنیں ان قا تلوں کا پتہ ہیں نے آج تک جناب بلاول زرداری کو اسکی خبر ہی نہیں دی ۔ہو سکتا ہے کہ جناب آصف علی زرداری اور جناب رحمان ملک نے بھی اچھا ہی کیا ہو کہ ایک معصوم قائد جسنے آگے چل کے اس قوم کا کل سنوارنا ہے۔اگر آج ہی غم کا بوجھ لے کر بیٹھ گیا۔تو ہمارے کل کا کیا ہوگا ۔جناب بلاول زرداری اگر معصوم نہ ہوتے تو انھیں پتہ ہونا چاہیے۔کہ ان پکوڑہ۔مچھلی ۔ انڈہ مرغی اور بکری فروشوں اور چوروں نے دنیا میں سونے کی دوسری کان پکوڑوں کے بھاؤ فروخت کر دی تھی۔اور انہیں میں سے ایک بیاسی ارب روپے لیکر بھاگ گیاہے۔جسے پکڑنے کی کسی کو بھی جرات نہیں ہے۔ملک کے سب سے بڑے قاضی نے ہی ہمت کرکے سونے کی کان بچائی۔اور بیاسی ارب کا ڈاکہ ڈالنے والے توقیر صادق کو پکڑنے کا فیصلہ بھی دے چکے ہیں۔مگر بلاول کی ماتحت حکومت اور انتظامیہ کچھ بھی نہیں کر رہی ۔جناب بلاول زرداری سے درخواست ہے کہ فرخت اﷲ بابر کی لکھی گئی تقریریں نہ پڑھیں۔بلکہ اپنی والدہ کی طرح اخباروں کا مطالعہ کریں۔تاکہ انھیں اپنی رعایا کے دکھوں کا احوال بھی معلوم ہو۔وہ اپنی جماعت سے مچھلی پکوڑے مرغی انڈہ چوروں کو بھی فارغ کریں۔تو نہ صرف ان کا کل بلکہ ساری قوم کا کل اچھا اور تابناک ہوگا ۔وہ اپنے اپ کو کمزور اور مشیروں کا محتاج نہ سمجھیں۔بلکہ عوا م کو اپنے قریب کریں۔اور ان کی غربت کا بھی احساس کریں۔اگر آپکے ارگرد پکوڑہ فروش اور مخدوم رہینگے۔ توچیف جسٹس کو بھی فرصت نہیں ملے گی۔کہ وہ کسی دوسری سمت دیکھ پائے۔

سنا ہے جناب بلاول زرداری نے تاریخ میں اعلیٰ ڈگری حاصل کی ہے اگر واقعی ایسا ہے تو اپ نے ابن خلدوم ،ابن رشد،اور امام غزالی بھی پڑھے ہونگے۔ دیو جانسن سے لیکر افلاطون ، روسو، ہیکل ، ٹائن بی، مارکس، لینن کا ذکر تو آپ نے گھر میں ہی سنا ہو گا،چونکہ آپ کی والدہ اور نانا ان مغربی فلسفیوں کے رسیا تھے۔ بزرگ جیالوں سے سنا ہے کہ جناب بھٹو میکاولی کی ’’دی پرنس‘‘ اپنے سرہانے رکھتے تھے۔ اور پڑوس میں پنڈت نہرو کی بغل میں چانکیہ کوتیلیہ کی ارتھ شاستر ہوتی تھی۔ اگر آپ کے سلیبس میں پنڈت کلہن ، اقبال، سعدی اور کنفیوشس نہیں تھے۔ تو آپ انھیں بھی پڑھیں تو آپ کو اس دھرتی پر اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔

اگرآپ واقعی اس ملک اور قوم کا کل سنوارنے میں سنجیدہ ہیں تو آپ مشیروں کی جھرمٹ سے نکل کر غریبوں اور بدحال لوگوں کی طرف دیکھیں ۔ آج اس ملک کے عوام ان دیکھے خوف میں مبتلا اور پوری قوم نفسیاتی الجھاؤ کا شکار ہے۔ ملک میں حکومت براے نام ہے جبکہ اصل قوت لینڈ مافیا، شوگر مافیا، بجلی و گیس مافیا، ٹیکس مافیا اور کرپشن مافیا کے ہاتھ ہے۔ پولیس اور دیگرانتظامی محکمے بشمول ماتحت عدالتوں کے بے بس ہیں جو کوئی کام کرتا ہے قتل ہوجاتا ہے اورجومافیا کا حصہ بن جاتا ہے موج کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہرشخص کوشش میں ہے کہ وہ قانون و آئین حکومت اور ریاست کی پروہ کئے بغیر مافیا جات کی قربت حاصل کرے اور کچھ دن آسانی سے جی لے۔کامران فیصل ،چشتی مجاہد،ولی خان بابر، ملک سعد،صفویت غیور اور مولانا جان محمد بننے کا کیا فائدہ۔مافیا کی قوت کے سامنے اعلیٰ عدلیہ اور میڈیاایک کمزور مدافعت ہیں جسے ہٹانے کیلئے بھر پور کوشیشیں ہورہی ہیں۔عدلیہ پر الزام تراشی ججوں کی کردار کشی سے لے کر ان کے فیصلوں کو نہ ماننے اورہٹ درمی دکھانے کا سلسلہ عام ہو چکا ہے۔مگر عدلیہ کسی نہ کسی طرح آئین اور قانون کی پاسداری پرڈٹی ہوئی ہے۔اورنہ صرف اپنے وقار کا تحفظ کررہی ہے بلکہ عوام کو ریلیف دینے کی بھی کوشش میں ہے۔میڈیا چونکہ کمرشلائز ہے اور اپنی ساکھ کے ساتھ ساتھ پیٹ کی فکر میں بھی رہتاہے اسلئے حکومت اور مافیا کا محتاج ہے۔میڈیا کسی اُصول اورضابطے کا بھی پابند نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ نمبر1کی دوڑمیں کبھی کبھی آگے دوڑ اورپیچھے چھوڑکرجاتاہے۔میڈیا کی ایک یونیورسل فطرت بھی ہے جس کے تحت میڈیا چاہے پرنٹ ہو یاالیکٹرنک اس میں یک رنگی اوریک جہتی ممکن نہیں۔ بہت سے صحافی اور میڈیا مالکان سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں،مافیاجات اور غیرملکی ایجنسیوں اوراداروں کے باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔اسلیے وہ ایسی ہی خبریں تلاشتے اور مضامین چھاپتے ہیں جسے اُن کے مالکان کی مرضی اور منشاء ہو۔علاوہ اس کے مسلک، مذہب، فرقہ اور فکروفلسفہ بھی اہم کردار ادا کرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے اینکروں،دانشوروں، صحافیوں اور رپورٹروں نے طوطے ، چڑیاں، باز،شکرے،کوئلیں،کبوتر سے لے کرکوے اور کتے تک پال رکھے ہیں۔اُمید ہے کہ جناب بلاول کوان سب علوم کی بھی خبر ہو گی۔ کہ یہ سارے چرندپرند پالنے والے صحافیوں اوردانشوروں کی کیا مجبوریاں ہیں۔اگر بحثیت لیڈر ان مجبوریوں کا خاتمہ کردیں تو اس قوم کا جتنا سرمایہ ان حرام اورنجس جانوروں پرخرچ ہوتا ہے۔اسے عوامی فلاح اور بہبود کے بہت سے کام ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ چڑیاں اورکبوتر پالنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں درحقیقت انھوں نے کتے پال رکھے ہیں جو مردار کی بو اٹھاتے ہیں اور مالکوں کو ایسی سازشوں کی مر ضی بھی شامل ہوتی ہے۔ جناب حامد میر نے اپنے ایک انٹرویو میں ایک ایسے ہی چڑی باز کے متعلق کہا تھا کہ شہید محترمہ نے بیرون ملک دورے کے دوران ہوائی جہاز میں ان سے کسی بات کی تصدیق چاہی تو جناب حامد میر نے انہیں سچی اور درست معلومات دیں۔شہید محترمہ نے چڑی مار کو طلب کیا جو اسی جہاز میں موجود تھا اور اسے حامد میر کے سامنے کہا کہ تم جھوٹے اور ناقابل اعتماد شخص ہو۔جس شخص کوجناب بلاول کی دانشور ماں جھوٹا اور ناقابل اعتماد قرار دے چکی ہوں اُسپر اُن کی حکومت کااعتماد معنی خیزہے۔

جناب بلاول بھٹو زرداری نے اگر واقعی تاریخ اور فلسفہ پڑھا ہے اور سنجیدگی سے مملکت خداداد پاکستان کے اٹھارہ کروڑ باسیوں کا کل سنوارنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ تاریخ کا رُخ ہمیشہ ہی جوانوں اور جرات مندوں نے متعین کیاہے۔ سکندر، بابر، اکبر، تیمور، اشوک،محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اورکئی دوسرے فاتحین، حکمران بلاول بھٹو زرداری سے بھی کم عمرتھے مگر جب وہ میدان عمل میں اُترے اورفتح و کامرانی کے باب رقم کرگئے۔

بزدل ،لالچی ،کینہ پرور اور مکار صلاح کار سے جر ا ت مند اور باحوصلہ دشمن بہترہوتا ہے۔مانا کہ بلاول بھٹو زرداری کے والد دنیا کے امیر ترین آدمی ہیں اورد نیا کے ہرامیر ملک میں اُن کی جائدادیں خود اُن ممالک کے اُمراء اور روساء سے بھی کئی بڑھ کر ہیں۔مگریہ سب کچھ ایک سچے قائد اورمفلوک الحال قوم کی رہنمائی کی کوالیفیکیشن نہیں۔یہ بھی ممکن نہیں کہ شاہی محل میں بیٹھ کر جھونپڑوں میں بسنے والوں کے دکھوں کامداواکیا جائے اور اُن کا کل شاہی محل کے جھروکے میں بیٹھ کر سنوارا جائے۔جناب یوسف رضاگیلائی نے جناب بلاول کوغلط پیغام دیا ہے کہ ملتان اور رحیم یارخان کے مخدوم،گیلانی اور سند ھ کے نواب ،وڈیرے جاگیردار اور پنجاب کے بڑے زمیندار اُن کے ہراول دستے کے سالارہونگے۔انھیں وڈیروں،جاگیرداوں،چودھریوں،مخدوموں،گیلانیوں،کارخانہ داروں،خان بہادروں اورزمینداروں کے باپ داد سے جناب بھٹو کاہراول دستہ بنے اورپھر بھٹو کو چھوڑ کر جنرل ضیاء ا لحق کے ہراول دستے میں شامل ہوگئے۔ ضیا ء الحق کے بعد یہ دستہ بینڈ باجے سمیت شہید محترمہ کے ہراول دستے میں شامل ہوا اور پھر جناب نواز شریف کے آستانے پر جا پہنچا۔ جناب بلاول کو پتا ہونا چاہیے کہ دولت مندوں اور مفاد پرستوں کا ہراول دستہ درحقیقت فرینچ لیجنڈکا دستہ ہے جو کرائے پر بھی ملتا ہے۔ اصل ہراول دستہ درحقیقت ستائے ہوے عوام کا ہے جو جان تو دے دیتا ہے مگر صلہ نہیں مانگتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مستقبل کے قائدین اپنے ہراول دستے میں مفاد پرستوں کی بجاے جانثاران وطن کا چناؤ کریں۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100672 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.