پطر س بخا ری اپنے ایک مضمون میں
لکھتے ہیں ” دوستی پرانی ہو جائے تو خاموشی بھی مزہ دینے لگتی ہے“
بہت سے شا دی شدہ جوڑے خصو صاً مر د کہتے ہیں کہ ” بیگم پرانی ہو نے لگے تو
اس سے با ت کرنے سے بہتر ہے کہ خاموشی اختیا ر کر لی جا ئے کیو نکہ جب بات
کرنے کو دل ہی نہ چاہے تو کیا بات کی جائے اور با تیں بھی کریں تو کیا کریں
کہ سب با تیں تو بہت پہلے ہی کر چکے ہوتے ہیں ۔ “
اگر آپ بھی یہی خیا لا ت رکھتے ہیں تو پھر اپنے رویو ں میں تبدیلی لائیں
اور جان لیں کہ شریک زندگی سے گفتگو کرنا وقت کا زیا ں نہیں بلکہ طبی لحاظ
سے بھی بہت مفید ہے ۔ کیا کہا میا ں بیوں کی گفتگو کا طب سے کیا تعلق ؟ ارے
بھئی حیرا ن نہ ہو ں ، ہم جو کہہ رہے ہیں بقائمی ہو ش و حو اس کہہ رہے ہیں
او ر اس میں لفظو ں کا کوئی ہیر پھیر نہیں بلکہ جو بھی ہے سچ ہے بلکہ سو
فیصد سچ اور یہ سچ خیا ل پر مبنی نہیں ہے بلکہ طبی سائنسدانو ں نے اسے عقل
کی کسو ٹی اور عمل کے میزان پر تولا ہے اور پھر کہا ہے کہ ” شریک زندگی سے
اچھی گفتگو انسان کے بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر ) کو کم کر تی ہے ۔ جو
لو گ اپنی زندگی کے آخری سالو ں میں اپنے رفیق زندگی سے بچھڑ جا تے ہیں وہ
جذبا تی گھٹن کا شکا ر ہو کر عارضہ قلب میں ایسے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں
زیا دہ مبتلا ہو جا تے ہیں کہ جن کے رفیق زندگی زندہ اور ان کے پا س ہو تے
ہیں ۔ “کہتے ہیں کہ شا دی کے ابتدائی دنو ں میں شو ہر بو لتے ہیں اور بیگما
ت صر ف سنتی ہیں اور اس کے بعد بقایا ساری زندگی صر ف بیویا ں بو لتی ہیں
اور شو ہر چپ چا پ سنتے ہیں لیکن اب جبکہ سائنسدان بھی کہہ رہے ہیں کہ میا
ں بیوی کے درمیان اچھی گفتگو جذبا تی طور پر انسان پر خوشگوار اثر ڈالتی ہے
اور اس کے طبی فوائد بھی ہیں۔ تو میں ان بیگمو ں کو جن کے شوہر وں کو یہ
شکو ہ ہے کہ ” وہ “ بہت بولتی ہیں ، انہیں یہی مشورہ دو ںگا کہ بھئی اگر شو
ہر کی صحت عزیز ہے تو اس بے چا رے کو بھی بولنے دیں ۔ لیکن ساتھ ساتھ جو
بیویا ں شو ہر وں کے حاکمانہ رویے اور حکم چلانے کی عا دت کے با عث ان کے
سامنے ہاتھ جو ڑ کر چپ چا پ دم سادھے کھڑی رہنے کی عادی ہیں تو میں ان شو
ہر و ں سے بھی یہی کہو ں گا کہ اپنے بچو ں کی ما ں اور گھر کا چین و سکون
عزیز ہے تو بیوی پر حکم چلا نا چھوڑ یں اور اسے خوفزدہ کر کے اپنی مر دانگی
کو تسلیم کروانے کی عادت بدلیں ۔ بیوی سے نرم اور خوشگوار لہجے میں با تیں
کریں اور ہلکے پھلکے مو ضو عا ت پر با ت چیت کر تے رہیں ۔ اس طر ح بیوی جو
بے چا ری دن بھر آپ کے خوف میں مبتلا رہ کر ذہنی دبا ﺅ کی مریضہ بن جا تی
ہے ا س کی بھی حا لت سنبھلے گی ۔
اگر چہ مغربی ممالک میں زندگی کے تمام شعبو ں میں تحقیق کی عادت نے لو گو ں
کو بہت سے آرام و آسائش بخشے ہیں لیکن جس دلچسپ تحقیق کا تذکرہ میں نے اوپر
کیا ہے ، دیکھا جائے تو اس سے پا کستا ن کے سماجی ما حول میں رہنے والے
شادی شدہ جوڑے بھی فا ئدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ با ت تو صرف روئیے میں تھوڑی سی
تبدیلی لانے کی ہے ۔با ت یو ں ہے کہ کچھ عرصے قبل نیو یا رک کی اسٹیٹ
یونیورسٹی کے طبی ما ہرین اس سوال پر سو چنے لگے کہ جب خون کی رفتا ر میں
اتار چڑھا ﺅ کا تعلق ما حول اور صورت حال سے ہے تو شا دی شدہ لو گو ں پر یہ
چیز کس طر ح اثر اندا ز ہو تی ہے ؟بس اس خیال کے آنے کی دیر تھی کہ کچھ طبی
محققین سر جو ڑ کر بیٹھے اور آخر کا ر اس نتیجے پر پہنچے کہ دیکھا جائے کہ
شا دی شدہ جوڑے آپس میں خوشگوار مو ڈ میں بات چیت کر تے ہیں تو اس کے خون
کی گردش پر کیا اثرات پڑتے ہیں ۔اس کے علا وہ جب اجنبیو ں سے با ت کی جا ئے
تو خون کی گر دش کی کیا صور ت حال ہو گی ؟ جب یہ نکتے طے پا گئے تو تحقیق
کا مر حلہ شرو ع ہو ا۔ سو سے زائد ہر عمر کے شادی شدہ جوڑوں کو رضا کا را
نہ طور پر اس بات کو جاننے کے لیے منتخب کیا گیا ۔ تحقیق کے مختلف مرا حل
سے گزرنے کے بعد طبی سائنسدانوں نے جو نتا ئج اخذ کئے وہ ایک امریکی طبی
جریدے میں شائع ہو ئے جس میں کہا گیا ہے کہ ” جب شا دی شدہ جوڑے خوشگوار مو
ڈ میں اپنے ساتھی سے محو گفتگو تھے تو اس دوران ان کا فشار خون کم تھا لیکن
جب وہ کسی اجنبی سے بات کر رہے تھے تو ان کا فشار خون زیاد ہ ہو رہا تھا ۔تحقیق
یہیں پر ختم نہیں بلکہ اسے اور آگے بڑھا یا گیا اور ایسے جوڑے منتخب کئے
گئے جن کی شا دی شدہ زندگی کئی عشروں پر مشتمل تھی ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے
لو گ بھی تلاش کئے گئے جن کے شوہر یا بیوی طویل ازدواجی زندگی کے بعد انہیں
تنہا چھوڑ کر ابدی سفر پر چل دیئے تھے ۔ ان لو گو ں کے مختلف طبی جائزے
لینے کے بعد معالجین اس نتیجے پر پہنچے کہ جن کے شوہر یا بیوی طویل ازدواجی
زندگی گزارنے کے بعد عمر کے آخر ی سالو ں میں ایک دوسرے کو تنہا چھوڑ کر مو
ت کی آغوش میں سو جا تے ہیں تو ایسے میں تنہائی کا دکھ اور جذبا تی گھٹن کے
باعث یہ افرا د امراض قلب اور بلند فشار خون کے مرض میں زیا دہ مبتلا ہو جا
تے ہیں ۔ سائنسدانوں نے ایسے افرا د کے لوا حقین کو مشورہ دیا ہے کہ اس طر
ح کی صورت حال میں وہ اپنے بزرگ کی زیا دہ دلجو ئی کریں ۔ ان سے با تیں
کریں اور انہیں اہمیت دیں تا کہ وہ خطر نا ک امراض کا شکا ر ہو کر وقت سے
پہلے ہی اس دنیا سے رخصت نہ ہو ں ۔ “ طبی سائنسدانو ں نے جن با تو ں کی طر
ف اشا رہ کیا ہے اس کا شکا ر مغربی معا شرہ زیا دہ ہے اب جبکہ مغرب کے طبی
سائنسدان بھی ” باہمی گفتگو “ کی افا دیت تسلیم کررہے ہیں تو ہمیں دوسرو ں
کو تو چھوڑئیے خود اپنی صحت کی خاطر رویو ں میں تبدیلی لا نی چاہیے۔
میا ں بیوی گا ڑی کے دوپہیے ہیں لیکن گاڑی میں ایک پہیہ ٹریکٹر اور دوسرا
رکشہ کا ہو تو تب بھی با ت نہیں بنتی ۔ بات اس وقت بنتی ہے اور گاڑی بھی
درست اندا ز میں چلتی ہے جب دونو ں پہیو ں میں توا زن اور برابری ہو۔ اس
لیے شو ہر ہو یا بیوی دونو ں کو چاہیے کہ خوشگوار زندگی کے لیے آپس میں
خوشگوار تعلقات رکھیں ۔ ہنستے بولتے اور ہلکے پھلکے اندا ز میں گفتگو کرتے
ہوئے زندگی کو گزاریں اور گھرمیں اگر کوئی بزرگ ہے تو اس کو بھی وقت دیں
اور دو چا ر باتیں کر لیں کہ زندگی کا نا م ہی دوسرو ں سے شفقت و محبت کا
بر تا ﺅ ہے ۔ اگر کبھی میا ں بیو ی میں نا چا قی بھی ہو جائے تب بھی بات
چیت بند نہ کریں کہ اسی سے مسئلے کے حل نکلتے ہیں ۔ برصغیر کے مشہور ترین
شا عر سر دار جعفری کے ایک شعر کا یہ مصرعہ یا د رکھیں !
گفتگو ختم نہ ہو بات سے با ت چلے
عبقری سے اقتباس |