سیاسی اثر رسوخ اور کمزور حکومتی
گرفت کی وجہ سے معاشرے میں امن کا قیام نا ممکن ہوجاتا ہے ۔سندھ حکومت اپنی
بد انتظامی اور نا اہلی کے باعث سندھ کی عوام کےلئے وبال جان بن چکی
ہے۔سندھ ہائی کورٹ کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کےمطابق سندھ بھر میں ماتحت
عدالتوں کو مختلف نوعےت کے مقدمات میں 88ہزار 998ملزمان مطلوب ہیں، جنہیں
عدالتوں نے اشتہاری قرار دے رکھا ہے ،یہ تفصیلات سندھ ہائی کورٹ کی ممبر
انسپکشن ٹیم نے تمام سیشن عدالتوں سے تفصیلات فراہم کرنے پر، سپریم کورٹ
میں بد امنی کراچی کیس کےلئے یکم جنوری سے 2008 ءسے 30 نومبر 2012ءتک
ڈیٹامرتب کیا جس میں یہ انکشاف ہوا کہ سندھ میں صرف چار سالوں میں اٹھاسی
ہزار نو سو اٹھانوے ملزمان کو عدالتوں نے اشتہاری قرار دیا اور پولیس ان
ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔جبکہ صرف کراچی میں بائیس ہزار پانچ
پینتس ملزمان عدالتوں اور پولیس کو مطلوب ہیںاور پولیس انھیں گرفتار کرنے
میں ناکام ہوچکی ہے۔یہ تعداد صرف چار سال کے عرصے تک محدود ہے ، اگر پوری
تعداد کو یکجا کیا جائے تو ایک لاکھ سے زائد سندھ میں مفرور و اشتہاری
ملزمان ہونگے۔کچھ اسی طرح کی رپورٹ بھی ایم آئی ٹی برانچ نے سپریم کورٹ کو
پیش کی کہ سندھ پولیس میں ایس پی سے لیکر چھوٹے رینک تک چار سو پولیس
اہلکار قتل سمیت مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔جب سپریم کورٹ کی چار رکنی بینچ
کے سربراہ ایس جواد نے آئی جی سے سوال اٹھایا تھا کہ ان ملزم پولیس
اہلکاروں کے خلاف کیا کاروائی کی گئی اور ان کی پوسٹنگ کہاں ہے ؟۔تو آئی جی
فیاض لغاری نے جواب دیا تھا کہ پولیس میں ایک لاکھ اہلکار ہیں وہ یہ نہیں
بتا سکتے کہ ان کی کہاں کہاں پوسٹنگ ہے۔اس پر عدلیہ نے کہا کہ جب تک پولیس
اپنے محکمے میں اصلاحات نہیں لاتی تو دوسرے محکموں میں کیا کاروائی کرے گی
۔اس کے اگلے دنوں میں اخبارات میں یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ ان اہلکاروں
کو معطل کردیا گیا ہے تاہم ان کےخلاف مزید کیا کاروائی کی جائے گی ایسے بھی
سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔سندھ پولیس کیجانب سے بد امنی کی ایک بڑی وجہ غیر
قانونی تارکین وطن ، جن کی تعداد ساڑھے بارہ لاکھ افغانی ، بنگالی اور برمی
بتائی جاتی ہے ، قرار دیا ہے۔کراچی میں 2011میں 1300اور 2012میں یہ تعداد
بڑھ کر1800کے قریب ہوچکی ہے۔اسی طرح ایڈوکیٹ جنرل سندھ کے مطابق ان کے پاس
ان پانچ ہزارطالبان کی فہرست ہے، جو کراچی میں داخل ہوچکے ہیں۔یہ افسوس ناک
صورتحال صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی گونج سینیٹ تک بھی پہنچی ،جب
یہ مشاہد حسین نے امن و امان پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں8500لوگوں
کو جرائم کے مختلف الزامات کے تحت پکڑا گیا لیکن نہ تو کسی پر مقدمہ چلایا
گیا اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔
امن و امان کی اندوہناک صورتحال میں اس وقت سنگینی محسوس کی گئی جب سندھ
حکومت پر الزام لگا کہ کالعدم پیپلز امن کمیٹی اور لیاری گینگ وار کے باقی
ماندہ ملزمان کے مقدمات بھی واپس لئے گئے ہیں ، اس سے قبل حکومت کیجانب سے
لیاری گینگ وار سے وابستہ مبینہ ملزمان کے مقدمات واپس لئے جاچکے ہیں۔ایم
کیو ایم نے اس مرحلے پر سندھ اسمبلی کے ان کیمرا اجلاس کا بائیکاٹ اور
"قاتلوں کی سرپرستی نامنظور"کے نعرے بلندکرتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔ایم کیو
ایم کے ڈاکٹر صغیر احمد نے وزیر قانون سندھ ایاز سومرو پر الزام لگایا کہ
انھوں نے ایک خط میں لیاری گینگ وار کے ملزمان کےخلاف مقدمات واپس لینے
کےلئے لکھا ہے۔جبکہ دوسری جانب پولیس کے اعلی حکام نے کراچی کی صورتحال میں
ان کیمرا اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ کراچی بم دھماکوں میں
کالعدم تحریک طالبان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں جبکہ ٹارگٹ کلنگ میں
بھتہ خور ، ڈرگ مافیا اور کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں۔یہ تمام تر صورتحال
انتہائی افسوس ناک ہے کہ اگر جرائم پیشہ عناصر کی حکومتی سرپرستی اسی طرح
کی جاتی رہے گی تو ، سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔اگر حکومت
کی جانب سے وردی میں ملبوس اہلکاروں یا سادہ لباس میں ملزمان کے خلاف اسی
طرح مقدمات واپس لئے جاتے رہیں گے تو عوام کا رہا سہا اعتماد بھی قانون
نافذ کرنے والے اداروں سے اٹھ جائے گا۔یقینی طور تو اس میں ایک بات تو طے
ہے کہ اگر ان ملزمان کے خلاف مقدمات جھوٹے تھے تو پھر اُن پولیس افسران کے
خلاف کاروائی ہونی چاہئے جنھوں نے پر ہجوم پریس کانفرسس میں ان ملزمان
کےخلاف لب کشائی کی اور حکومت کے اُن افراد کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے
جنھوں نے "بےگناہ"افراد کے سر پر انعامی رقم مقرر کی تھی۔یا پھر حکومت اس
بات کو واضح کرے کہ جرائم پیشہ افراد کو امن کے نام پر کسی"معائدے"کے تحت
قانون کی چھتری فراہم نہیں کی جا رہی۔ہزاروں ، مفرور اشتہاری ملزمان ہوں یا
پولیس کی وردی میں محفوظ اہلکار ، یا پھر جرائم پیشہ عناصر افراد کے خلاف
عدالتی عدم چارہ جوئی ، یا سیاسی مصلحتوں کی بنا ءپر مقدمات بنانا یا واپس
لینا ، ان تمام عوامل میں سندھ حکومت کی انتہائی نا اہلی ثابت ہوتی ہے اور
بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ حکومت امن کے قیام کے لئے سنجیدہ نہیں ہے اور روز
بہ روز امن و امان کی بدتر صورتحال نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔یقینی
طور پر عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ دہشتگردوں کی چشم کشا سرپرستی کے
مقاصد کیا ہیں کہ جب مبینہ طور پر حکومت کے پاس ان افراد کی فہرست تو موجود
ہو کہ کراچی میں دہشت گردداخل ہوچکے ہیں اور انکی تعداد اور نام معلوم ہوں
لیکن انھیں گرفتار کرنے میں ناکام رہیں۔ اب اگر ان تمام حالات و واقعات کو
پرکھا جائے تو ماسوائے اس میں حکومتی غیر سنجیدگی کے کچھ اور نظر نہیں آتا
اور صرف ایک سوال اٹھتا ہے کہ سندھ حکومت ، دہشت گردی کی سرپرست تونہیں ہے
،اگر ایسا نہیں ہے تو پھر امن کے قیام میں اتنی غیر سنجیدگی کیا معنی رکھتی
ہے؟؟؟ |