ایک عرصے سے پاکستان میں امن و امان کی
مخدوش صورتحال سے ملک کا ہر شہری پریشان ہے، حکومت پاکستان اس صورتحال کی
ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان پر ڈالتی ہے، لیکن گزشتہ دنوں پاکستانی
طالبان نے بذات خود متعدد بار حکومت سے مذاکرات کرنے کی خواہش ظاہر کی
تھی۔جس کے نتیجے میں بعض حلقوں کے سوا پاکستان کی اکثریت نے طالبان سے
مذاکرات کرنے کی حمایت کی ۔ پاکستان کے بہت سے سیاسی اور صحافتی حلقوں نے
بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو وقت ضائع
کیے بغیرطالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کردینا چاہیے۔وزیر داخلہ نے
بھی پاکستانی طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔
اسی سلسلے میں گزشتہ روز دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی سیاسی
جماعت اے این پی نے پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اکٹھا کرکے کل
جماعتی کانفرس منعقد کی۔ کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز
پارٹی کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام (ف)، نیشنل پارٹی،
(ق) لیگ، قومی وطن پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (س)، عوامی تحریک، سندھ
یونائیٹڈ فرنٹ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت 26 جماعتوں کے رہنماﺅں قائد
حزب اختلاف چودھری نثارعلی خان، محمود خان اچکزئی، اقبال ظفر جھگڑا، ڈاکٹر
فاروق ستار، مولانا عبدالغفور حیدری، نذر محمد گوندل، اکرم خان درانی،
مولانا عطاءالرحمن، مولانا سمیع الحق، چودھری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید،
انیسہ زیب طاہر خیلی، حاجی عدیل، حاجی غلام احمد بلور، شاہی سید، ڈاکٹر
عبدالمالک بلوچ اور دیگر نے شرکت کی۔کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ قیام
امن کے لیے فریقین خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کریں۔ آئین اور قانون کے تحت
ہی مذاکراتی عمل کی کامیابی اور پاسداری ممکن ہو سکے گی۔ طالبان کی جانب سے
بات چیت کی پیشکش سے فائدہ اٹھایا جائے۔عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام
عسکریت پسندی کے خاتمہ اور قیام امن کے لیے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس نے اس
بات پر زور دیا کہ قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے ملک میں امن کے
قیام کی ضرورت ہے۔ ملک میں قیام امن کے لیے مذاکرات کو اولین ترجیح دی جائے۔
دہشت گردی کا پرامن حل ریاست پاکستان کے لیے آئین، قانون اور ملک کی سلامتی
اور اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کی حدود کے اندر ہونا چاہیے۔
آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ پر 26 سیاسی و دینی جماعتوں کے رہنماﺅں
اور نمائندوں نے دستخط کیے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی نے اے
پی سی کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں
شمولیت کرنے والی تمام سیاسی و مذہبی پارٹیاں عوامی نیشنل پارٹی کے صدر
اسفند یار ولی خان اور ان کی پارٹی کو امن کے قیام کے لیے کل جماعتی
کانفرنس بلانے پر خراج تحسین پیش کرتی ہیں، کانفرنس کو آج کے سب سے اہم
قومی مسئلے کے حل کے لیے مناسب اقدام سمجھتی ہیں۔ کانفرنس کی سوچی سمجھی
رائے یہ ہے کہ عسکریت پسندی اور تشدد کا ناسور کسی ایک پارٹی، صوبے یا
علاقے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اور اس ملک کی بقا،
ترقی اور خوشحالی کا انحصار اس مسئلے کے صحیح طور پر حل کرنے پر ہو گا، ملک
کے اندر جمہوری نظام کا استحکام اس مسئلے کے حل میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔
کل جماعتی کانفرنس کے شرکا سمجھتے ہیں کہ یہ کانفرنس ایک نکتہ آغاز ہے جسے
اے این پی دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھائے اور سیاسی پارٹیاں
باہمی مشاورت کے ذریعے اگلے اقدامات تجویز کریں۔امن کے قیام کی ضرورت ہے
تاکہ قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے اور ملک میں استحکام، سماجی اور
معاشی ترقی کی ضروریات پوری کی جا سکیں،جیسا کہ خون آلود دامن کو خون سے
نہیں دھویا جا سکتا بلکہ پرامن مذاکرات کے پانی ہی سے خون کے دھبّے دھل
سکتے ہیں، اسی کے مصداق مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام کو اولین ترجیح دی
جائے،دہشت گردی کے مسئلے کے پرامن حل کو ریاست پاکستان کے آئین اور قانون
اور ملک کی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کی حدود کے اندر ہونا چاہیے۔
کل جماعتی کانفرنس فاٹا میں امن کے قیام کے لیے گرینڈ قبائلی جرگہ کی
کوششوں کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے اور فاٹا کے عوام اور ان کے نمائندوں
کو یقین دلاتی ہیں کہ کانفرنس میں شریک ساری جماعتیں امن کے قیام کے لیے ان
کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتی ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے آل پارٹیز کانفرنس ختم ہونے
کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس قیام امن کے لیے ابتدا ہے،
آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ پاکستان کے ہر ادارے کو پہنچائیں گے، تمام
جماعتیں مشاورت کے بعد طے کی گئی تجاویز سے ہمیں آگاہ کریں، جے یو آئی (ف)
نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، ہم جے یو آئی (ف) کی
آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ اسفندیار ولی نے کہا کہ انتخابی سیاست
اور تفہیم کے ماحول میں ملک کی 26 سیاسی و دینی جماعتوں کا ایک قومی مسئلہ
کے حل کے لیے مل بیٹھنا نیک شگون ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے
اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک قومی مسئلہ پر اکٹھی بیٹھی ہیں۔
تمام جماعتوں نے کہا کہ اے این پی کا اس مقصد کے لیے کل جماعتی کانفرنس
بلانا خوش آیند ہے، اگر صرف یک نکاتی ایجنڈے ”امن کے قیام“ پر اتفاق کیا
جائے تو ملک میں استحکام آسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے
مذاکرات کی پیشکش مثبت اقدام ہے، اس پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے۔ آل
پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ پر اس کی روح کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔ اے این
پی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ صرف طاقت سے
حل نہیں کیا جا سکتا، اس کے لےے سیاسی عمل کو موقع دینا ہوگا۔ طالبان کی
طرف سے مذاکرات کی پیشکش اچھا اقدام ہے، اے این پی چاہتی ہے کہ امن قائم
ہواور ملک میں استحکام ہو۔پاکستان کو بھی ایسے امن کی ضرورت ہے جس کے لیے
مذاکرات اور برداشت سے کام لینا ہوگا۔
کل جماعتی کانفرنس میں شریک دینی جماعتوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے
نمٹنے اور قیام امن کے لیے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے الگ ہونے کا
مطالبہ کیاہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ کانفرنسوں یا مولویوں کے فتووں سے حل
نہیں ہوگا۔ حکومت اور طالبان کے درمیان فوری طور پر مذاکرات ہونے چاہئیں۔
اوباما نے تو جنگ سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے، ہمیں بھی اس جنگ سے الگ
ہوجانا چاہیے۔ امریکا کے صدر براک اوباما نے کانگریس کے اپنے سالانہ خطاب
میں افغانستان میں تعینات امریکی افواج میں سے آئندہ ایک سال کے دوران 34
ہزار فوجی واپس بلانے کے اعلان کیا ہے۔ خطاب میں انھوں نے کہا کہ افغانستان
سے انخلا کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور 2014ءکے اختتام تک "افغانستان میں
ہماری جنگ ختم ہو جائے گی۔
ہم سب کو اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ پاکستان
کو نام نہاد دہشت گردی کی جنگ سے الگ کیا جائے۔ نیک نیتی سے آگے بڑھنا ہو
گا عوام ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی قراردادوں پر عملدرآمد کیوں
نہیں ہوا؟ انہی قرار دادوں میں مذاکرات کے حوالے سے روڈ میپ دیا گیا تھا جب
تک دہشت گردی کی جنگ سے الگ نہیں ہوں گے امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ امریکا
سے 40 ہزار قیمتی جانوں کے ضیاع پر تاوان طلب کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے
ہی ہمارے چالیس ہزار نفوس موت کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔عسکریت پسندوں سے بھی
بات کرنا ہو گی۔ ناراض لوگوں کو منانا ہو گا، اگر ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں الگ ہو جائےں تو داخلی طورپر 90 فیصد مسائل ہو جائیں گے۔ مسئلے کے حل
کے لیے سیاسی کمیٹی بننی چاہیے۔ تمام سٹیک ہولڈرز سے بات ہونی چاہیے۔ عالمی
طاقتیں طالبان سے بھی مذاکرات کر رہی ہیں، ہمیں بھی مذاکرات کرنے چاہیے۔
مذاکرات سے ہی دہشت گردی کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ |