دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمان
پر حملہ حالیہ بھارتی تاریخ کے متنازع ترین واقعات میں سے ایک ہے بھارت کے
مرکزی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بھارت کی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے میں
پانچ شدت پسند شامل تھے اس حملے میں نو افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ
تر پارلیمنٹ کی حفاظت پر تعینات پولیس اہلکار شامل تھے جبکہ پانچوں شدت
پسند جوابی کارروائی میں ہلاک ہو گئے تھے اس حملے میں پانچ عسکریت پسندوں
سمیت 14 افراد مارے گئے تھے واقع کچھ یوں تھا کہ 13 دسمبر 2001 کو دہلی میں
پانچ باغیوں نے بھارتی پارلیمان کی عمارت پر دھاوا بول دیا اس حملے میں ایک
مالی اور آٹھ پولیس اہل کار مارے گئے جب کہ سیکیورٹی فورسز نے جوابی
کارروائی کرتے ہوئے پانچوں حملہ آوروں کو ہلاک کر ڈالابھارت نے اس حملے کا
الزام پاکستانی عسکریت پسند تنظیم جیشِ محمد پر لگایااور کہا کہ اسے
پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے پاکستان نے اس کی تردید کی لیکن دونوں ملکوں کے
درمیان تعلقات اس حد تک خراب ہو گئے کہ سرحدوں پر دس لاکھ کے قریب فوجی
تعینات کر دیے گئے تھے بعد ازاں اس واقعے میں افضل گورو کو ملوث قرار دیا
گیا اورپندرہ دسمبر دو ہزار ایک کو پولیس نے حملے کی سازش کے الزام میں
افضل گورو کو گرفتار کیا ان پر شدت پسند تنظیم جیش محمد سے وابستگی کا
الزام تھا اسی سلسلے میں دلی یونیورسٹی کے ایک لیکچرر ایس اے آر گیلانی کو
بھی گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں انہیں رہا کر دیا گیاچار جون دو ہزار دو
کو چار ملزمان کے خلاف فرد جرم عائدہوئی ملزمان میں افضل گورو کے علاوہ
گیلانی، شوکت گورو اور ان کی اہلیہ افشاں گورو بھی شامل کیا گیا اور اٹھارہ
دسمبر دو ہزار دوکو دلی کی ایک عدالت نے پارلیمان پر حملے کے صرف ایک سال
کے اندر افضل گورو کو پھانسی کی سزا سنائی جو کہ عجلت میں سنائی جانے والی
سزا نظر آ رہی تھی اس میں گیلانی اور شوکت حسین گورو کو بھی سزائے موت
سنائی گئی جس کے بعد انھوں نے دلی ہائی کورٹ میں اپیل کی اور انتیس اکتوبر
دو ہزار تین کو دلی ہائی کورٹ نے ذیلی عدالت کے فیصلے کی توثیق کردی لیکن
مسٹر گیلانی کو رہا کر دیا گیاچار اگست دو ہزار پانچ کو انھوں نے سپریم
کورٹ آ ف انڈیا کا دروازہ کھٹکٹایا لیکن سپریم کورٹ نے افضل گورو کی اپیل
مسترد کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو صحیح قرار دیا لیکن شوکت گورو کی
موت کی سزا کم کرکے دس سال قید میں تبدیل کر دی گئی بیس اکتوبر دو ہزار چھ
کو افضل گورو کو پھانسی دی جانی تھی اور اس تاریخ کو افضل گورو کی سزا پر
عمل ہونا تھا اور تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں لیکن اسی دوران ان کی
اہلیہ نے صدر سے رحم کی اپیل کی جس کی وجہ سے سزا پر عمل درآمد روک دیا
گیابارہ جنوری دو ہزار سات کو سپریم کورٹ نے افضل گورو کی نظرثانی کی
درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی کی کوئی وجہ نہیں ہے تیس دسمبر دو
ہزار دس اسی مقدمے کے شوکت حسین گورو کی سزا پوری ہوئی اور انہیں جیل سے
رہا کردیا گیادس دسمبر دو ہزار بارہ کو وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے کہا
کہ وہ پارلیمان کے سرمائی اجلاس کے بعد افضل گورو کے کیس پر غور کریں گے جس
پر افضل گورو نے صدر سے رحم کی اپیل کی اور تین فروری دو ہزار تیرہ کو صدر
نے رحم کی اپیل مسترد کردی اور یوں نو فروری دو ہزار تیرہ کو افضل گورو کو
تہاڑ جیل میں پھانسی دینے کے بعد وہیں دفن کردیا گیا بھارت کے وزیر داخلہ
سشیل کمار شندے اور داخلہ سیکریٹری نے افضل گورو کی پھانسی کی تصدیق کر دی
افضل گورو کی پھانسی کے بعد حفاظتی اقدام کے تحت بھارت کے زیر انتظام کشمیر
میں کرفیو لگادیا گیا ہے کیونکہ وہاں تمام کشمیری اس پھانسی کے خلاف ہیں
بھارت کے صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے افضل گورو کی رحم کی اپیل کو مسترد
کرتے ہوئے پھانسی کی سزا پر مہر لگائی تھی بھارت نے ثابت کر دیا کہ وہ
کشمیر کے مسلمانوں پر ایسے ڈراموں میں مدد کا لزام لگا کر ان کو قتل کروا
کر اپنے مذموم مقا صد حاصل کر لے گا تو یہ اس کی بھول ہے کیونکہ کشمیری
اپنی آزادی کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں اور یوں بھارت نے یہ
بھی ثابت کر دیا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا دعویٰ دار تو
ہے مگر وہاں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے
جس کی مثال افضل گورو کی پھانسی ہے ایسے واقعے میں اگر کوئی ہندو انتہا
پسند ملوث ہوتا تو اس کو صرف قید کی سزا دی جاتی مگر موت کی سزا صرف اور
صرف مسلمانوں کے لئے ہی مختص کی گئی ہے اور کھبی پارلیمنٹ پر حملوں اور
کھبی تاج ہوٹل اور بمبئی پر حملوں کے ڈرامے کر کے وہ کشمیر کے ایشو کو پس
پشت ڈالنے کی بھونڈی کوشش کرتا رہے گا اور اس طرح بے گناہ انسانوں کا قتل
عام کر کے وہ ایک سبق اور چھوڑ دیاہے کہ نام نہاد دنیا کی سب سے بڑی
جمہوریت میں مذاکرات اور بات چیت نہیں بلکہ گولی اور قتل کی زبان استعمال
کی جاتی ہے جس کی وجہ سے کشمیر ی عوام اب بھارت کے خلاف بھی اسی کی زبان
میں جواب دینے میں حق بجانب ہیں ۔
افضل گوروکا عدالتی قتل ہوا ہے اور اس بات کی گواہی انڈیا کی اعلیٰ عدلیہ
کے فیصلے کی وہ سطریں بھی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ افضل گورو کے خلاف
براہ راست کوئی واضح ثبوت نہیں ملے مگر معاشرے کی سوچ کو مطمئن کرنے کے لئے
سزائے موت ضروری ہے اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ افضل گورو کو عدالت
کے ذریعے قتل کیا گیا اور صرف ہندووں کو مطمئن کرنے کے لئے ایک اور مسلمان
کو قربان کر دیا گیا افضل گرو کے بارے میں ان کے دوستوں کے خیالات کچھ ایسے
ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس واقعے میں ملوث نہیں ہو سکتاجن کا کہنا تھا
کہ بارہویں جماعت کے بعد افضل نے یوں تو ایم بی بی ایس میں داخلہ لے لیا
لیکن وہ زیادہ دلچسپی اسلامی اور انقلابی لٹریچر میں لینے لگا تھا شاید
انڈین پولیس کے لیے یہی سب سے بڑا ثبوت تصور کیا گیا ہو گا جسے افضل گورو
کو پھانسی کے پھندے تک لے جانے کے لئے استعمال کیا گیا لیکن وہ شدت پسند ہر
گز نہیں تھا ان کے دوست کا کہنا تھا میں اسے کہتا تھا کہ ان فلسفوں میں
اْلجھنا ٹھیک نہیں شاید وہ اپنے انقلابی میلانات کو تسکین دینا چاہتا تھا
امام غزالی، ڈاکٹر علی شریعتی، سیّد قطب، مولانا مودودی جیسے مفکرین کی
کتابیں اس کی زندگی کا حصہ بن گئی تھیں افضل گورو کے بارے میں ا س کے دوست
محمد رفیق کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سخاوت کے لیے علاقے میں کافی مشہور تھا
کوئی آفت آتی تو پیسے اور چاول جمع کرنے میں پہل کرتا تھا ایک دفعہ دلی میں
اس نے ایک رکشا والے کو بارش میں بھیگتا دیکھ اسے اپنی سویٹر دے دی لبریشن
فرنٹ کے ساتھ وابستگی کے دوران بھی یہ رحجان باقی تھا وہ تو علم اور خدمت
خلق کو پسند کرتا تھا اور دلی یونیوسٹی سے اکنامکس کی ڈگری کے بعد دوائیوں
کا کاروبار کرنے لگا تھا لیکن اچانک سے اسے اس واقعے میں ملوث کر کے اس کی
زندگی کو تہہ و بالا کر دیا گیا اور یوں ایک اور مسلمان کا عدالتی قتل کر
دیا گیا جس سے بھارت کی نام نہاد جمہوریت پر مسلم خون کا ایک اور دھبہ لگ
گیا مگر اس طرح کے ظلم سے مسلمانوں کے اور خصوصا کشمیری مسلمانوں کے ارادوں
کو متزلزل نہیں کیا جا سکتا اوربھارت کی اس مذموم حرکت کی وجہ سے کشمیر میں
اس کے خلاف نفرت اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور جس دن اس نفرت کا اتش
فشاں پھٹا تو دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا نام و نشان باقی نہیں
رہے گا ۔ |