لیجئے جناب ایک عظیم شعبدہ اپنے
انجام کو پہنچا،ویسے شعبدے اور شعبدہ بازوں کے ساتھ ہوتا یہی ہے،کوئی بھی
کمال کا شعبدہ باز چند منٹ تک اپنے ناطرین اور سامعین کو محو حیرت رکھتا ہے
مگر چونکہ یہ سب کچھ نظروں کا دھوکا ،سارا کرتب اور چال بازی مصنوعی اور
ساتھ موجود ایکسٹراز کی مرہون و منت ہوتی ہے اس لیے بڑی جلدی یہ سب کچھ
لپیٹنا ہوتا ہے ورنہ حقیقت عیاں ہوتے دیر نہیں لگتی اور جب حقیقت کھل جائے
اور عام آدمی حقائق جان لے تو پھر شعبدہ باز اور مداری کے حصے میں سوائے
شرمندگی ،ندامت اور بغلیں جھانکنے کے سوا کچھ نہیں آتااس ملک اور اس ملک کے
عوام کی قسمت دیکھیں جب بھی یہ کسی سیدھی سڑک پہ رینگتے رینگتے دوڑنے کی
کوشش کرتا ہے پردہ غیب سے یکلخت طلوع ہونے والے غارت گر اس کی کونچیں کاٹنے
کے درپے ہو جاتے ہیں،اور وہ جنھیں اس ملک کی ترقی و خوشحالی ایک آنکھ نہیں
بھاتی فی الفور اس کے درپے ہو جاتے ہیں اور تب تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک
اس کی کشتی کے بادبانوں کو اپنی مرضی کی سمت نہیں دے لیتے ،یہ اور ان کے
کارندے جو کبھی وردی پہن کر ،کبھی سول آمر بن کر،کبھی جبہ دستار پہن کر اور
کبھی خود ساختہ شیخ الاسلام کی ڈگری لے کر اس ملک کی رتھ پر زبردستی سوار
ہوتے یا ہونے کی کوشش کرتے ہیں وہ نہ کل اس ملک و قوم کے دوست تھے نہ آج اس
کے خیر خواہ،نجانے کیوں یہ پاکستانی قوم کو ایک ہجوم سے زیادہ وقعت دینے کو
تیار نہیں،کبھی کہتے ہیں یہ قوم جمہوریت کے قابل نہیں،کبھی کہتے ہیں یہاں
کے لو گوں میں شعور نہیں،مگر اگر کبھی ان سے کوئی یہ سوال کرے کہ جناب کے
نزدیک شعور اور اہلیت کا معیار کیا ہے،کیا غیر قانونی طریقے سے مسلط ہو کر
یا کسی کو مسلط کر کے قانون کی فرمانروائی ممکن بنائی جا سکتی ہے کیادو غلط
مل کر ایک صحیح کے برابر ہو سکتے ہیں،کبھی نہیں کبھی بھی نہیں،اگر یہ قوم
میچور نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے کیا یہ سسکتے بلکتے اپنے شب وروز کو
ذرا سا ڈھنگ سے گذارنے کی جستجو میں ہلکان زندگی کی گاڑی اپنے ناتواں
کندھوں پر کھینچتے اس قوم کے باشندے جن کی ہر سعی آج تک ہمیشہ لا حاصل رہی
کیو ں اور کس کی وجہ سے،کس نے ان کو ان کے حق حکمرانی سے محروم کیا،کس نے
ان کو الیکشن کے عمل سے دس دس اور گیارہ گیارہ سال محروم رکھا،کس نے ان کو
کبھی ریفرنڈم اور کبھی ڈمی الیکشنز کے ذریعے بے وقوف بنایا،وہ کوئی اور
نہیں وہی غارت گر اور اقتدار کے رسیا تھے پیسے اور دولت کی ہوس بھو کے
بھیڑیوں کی طرح جن کی نس نس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،جو اقتدار کے بغیر
سانس بھی نہیں لے سکتے جو اپنے آپ کو سمجھتے ہیں کہ شاید پیدا ہی حکمرانی
کے لئے ہوئے ہیں،وہ کون تھے جنھوں نے اس ملک کی روشن اور چمکدار قسمت اور
نصیب میں تاریکیاں او راندھیرے پروئے،یہ کوئی اور نہیں یہ وہی ہیں جنھوں نے
ہمیں اس حال تک پہنچایا اور اب بھی ہماری جان بخشنے کو تیار نہیں،مختلف
اوقات میں مختلف بہروپ بدل کر وار کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اب ان کی نہیں
چلنے والی بہت ہو گیا استحصال اب یہ قوم زندہ و بیدار میڈیا اور غیر
جانبدار عدلیہ کی موجودگی میں کسی کو اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی کسی صورت
بھی اجازت نہیں دینگے شعبدہ باز اور مداری اپنی پٹاریاں سنبھالیں اور اپنے
جھوٹے اور دوغلے کرتب کہیں اور جا کر دکھائیں اب ادھر انکی دال گلنے والی
نہیں مگر یہ جونکیں اتنی جلدی جان چھوڑیں گی نہیں کہ جب ایک دفعہ خون منہ
کو لگ جائے توآدم خور مرتے دم تک کون کی تلاش اور جستجومیں رہتا ہے،اگر
کوئی یہ سمجھ لے کہ یہ اپنی حالیہ سپریم ناکامی کے بعد چپ کر کے یا سکون سے
بیٹھ جائیں گے تو اسے فی الفور کسی اچھے دماغی امراض کے اسپشلسٹ سے رجوع
کرنا چاہیے،یہ ہر دفعہ نئے انداز سے حملہ آور ہوتے ہیں،ابھی اپنے آخری
مجاہد نام نہاد شیخ الاسلام جنہیں میں نے روز اول ہی کینیڈا کے قادری لکھا
تھا کو منہ کی کھانے اور بھرپور ناکامی کے بعد کوئی نیا حربہ اور چال ضرور
استعمال کرینگے سپریم کورٹ کے باہر شیخ الکینیڈا کی بدن بولی بہت سوں کو
بہت کچھ سمجھا رہی تھی ،زخمی شیر نی کی طرح لوٹ پوٹ ہونے والے اور پھنکارنے
گرجنے والے جنا ب شیخ کی اپنی زبان ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ،فقط چند دن
قبل اسی سپریم کورٹ کے پہلو میںاپنے آرام دہ اور بلٹ پروف کنٹینر میں ،کہو
سپریم کورٹ زندہ باد، کہو چیف جسٹس زندہ باد، کے نعرے لگوا رہے تھے اور یہی
دو تین نعرے جناب کی کل متاع تھی جنہیں بغل میںسجائے سپریم کورٹ جا پہنچے ،شاید
ان بھولے بادشاہوں نے چیف جسٹس کو بھی اپنے جیسا شیخ الاسلام سمجھ رکھا تھا
کہ اپنی تعریف اور تو صیف سن کر پھولے نہیں سما رہے ہوں گے اور ان کے
پہنچتے ہی اپنی کرسی انصاف سے اٹھ کر ان کا ماتھا چومیں گے اور بغیر کچھ
کہے سنے بغیر جناب کی مرضی کا فیصلہ جناب کی ہتھیلی پر رکھیں گے اور جناب
شیخ ایک دفعہ پھر کہو سپریم کورٹ زندہ باد کہو چیف جسٹس زندہ باد کرتے باہر
آکے اپنی فتح و جشن فتح کی تاریخ کا اعلان کرتے اسلام آباد و پنجاب کے
حکمرانوںکو روندتے ہوئے ہر طرف عوامی تحریک کے انقلاب کے پھریرے لہراتے
ہوئے ملک بھر میں جدھر منہ کرے گا نکل پڑیں گے اور لوگ دیوانہ وار جناب کے
ہاتھ منہ چومنے کو بے قرار ہوں گے ہر طرف قادری قادری ہو جائے گی مگر وائے
افسوس سپریم کورٹ نے رنگ میں بھنگ ڈال کے کلی کو پھول بننے سے پہلے ہی اس
کی اصلیت کی پہچان کرادی، سمندر کی مچھلیوں کو وعظ فرمانے والے ،مردوں کو
قبروں میں نصیحت کرنے والے،امام اعظم ابو حنیفہ اور امام سیوطی سے عالم
رویا اور خوابوں میں پندرہ اور پھر نو سال تعلیم حاصل کرنے والے تین ججوں
کو مطمئن کر سکے نہ متاثر، مہربانوں نے یوں ہو ادے رکھی تھی کہ میڈیا پر
کروڑوں روپے بے دریغ نچھاور کرنے والوں نے اپنے لیے سپریم کورٹ میں پیش
ہونے کے لیے کسی ڈھنگ کے کونسل کے اہتمام کو بھی ضروری نہ سمجھا،خود ہی
مدعی اور خود ہی وکیل بن کر پیش تو ہو گئے مگر ضابطے کی شروع کی ہی کاروائی
سے یوں بوکھلا گئے کہ دونوں ہاتھ سر پر کھ کر چیخ وپکار شروع کر دی،جناب
اگر جج صاحبان کے سوالات سے اتنی ہی چڑ تھی تو اپنے کونسل کے ذریعے پیش
ہوتے ایک بھی سوال براہ راست جناب قادری صاحب سے نہ ہوتا،مگر اللہ جب کسی
کو ذلیل کرنے پہ آتا ہے تو سب سے پہلے عقل سلب کرتا ہے ورنہ کوئی مسئلہ ہی
نہ تھا کونسل جانتا اور ججز جناب کو نہ کسی سوال کا سامنا کرنا پڑتا نہ یو
ںبعد میں پیچ و تاب کھانے پڑتے،سپریم کورٹ جانے سے قبل ان ججز کو فرشتہ
قرارد ے رہے تھے اور ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ قانون کے اصل
محافظ اور رکھوالے ہیں اور پٹیشن دائر کرنے سے قبل جناب نے فرمایا جو بھی
فیصلہ ہو میں قبول کروں گا پاکستانی قوم اس دفعہ ایک با لکل مختلف انداز
دیکھی گی ہم کورٹ کا ہر فیصلہ سر کو خم کر کے تسلیم کریں گے،یہ بھی جناب ہی
کا فرمانا تھا کہ ہمیں اس ملک میں اگر کسی ادارے پر اعتماد ہے تو وہ صرف
سپریم کورٹ ہے اور تو اور ڈھونگ مارچ سے پہلے اور مارچ کے دوران اسی سپریم
کور سے ضمانت اور گارینٹیاں مانگی جا رہی تھیں اب اسی سپریم کورٹ کے خلاف
آپ کے منہ سے جھاگ کیوں اڑ رہی ہے آپ چیف جسٹس کی حلف والی تصویر بغل میں
دبائے پھر رہے تھے آپ کی نیک نیتی کا اندازہ اسی بات سے ہو جاتا ہے کہ اپنے
خلاف ریمارکس آنے پر آپ نے وہ تصویر لہرا دی،مانا کہ چیف جسٹس نے مشرف سے
حلف لیا مگر جناب یہ بھول گئے کہ اسی مشرف کو اسی چیف جسٹس نے بھرپور انکار
کر کے ذلیل بھی کیا تھا کتنا اچھا ہوتا اگر آپ وہ تصویر بھی دیکھنے کی زحمت
کر لیتے جس میں مشرف وردی میں افتخار چوہدری کے سامنے بیٹھا ہے جس میں اس
کو اپنی رعونت خاک میںملتی نظر آرہی ہے اور اسی سپریم کورٹ نے جب وزیراعظم
کے خلاف فیصلہ دیا تو آپ نے مبارک سلامت کا غوغا بلند کیا اور جب آج اپنے
خلا ف فیصلہ آیاتو ساری مروت ،سارے اخلاق، ساری تعلیمات بلکہ اسلامی
تعلیمات بھی بھول گئیں،اتنے جزباتی ہونے کی بجائے اگر جناب جوش خطابت میں
یہ ہی کہہ دیتے کہ لو میں نے چھوڑ دی کینیڈا کی شہریت ،میں جوتے کی نوک پہ
رکھتا ہوں کینیڈ ین شہریت کیا اصول پسندی اور قربانی کا جذبہ ہے کہ ویسے تو
قوم کا درد ایک پل کو چین نہیں لینے دے رہا ہے مگر کینیڈا کی شہریت کے ساتھ
یوں چمٹے ہیں جیسے گڑ گرم ہو کر ململ کے کپڑے سے چپک جاتا ہے،اور تو اور
کینیڈا کے سب سے بڑے اخبارڈیلی گلوب نے اپنی تیرہ فروری کی اشاعت میں اپنے
مین صفحے پر ان لوگوںکو کیا خوب خراج تحسین پیش کیا اگر کسی کو شک ہو تو
انٹر نیٹ کے ذریعے تیرہ فروری کا کینیڈا کا سب سے بڑا اخبار گلوب سرچ کر کے
دیکھ لے اخبار نے لکھا کہ دنیا بھر سے گندے لوگ کینیڈا کی شہریت حاصل کرتے
ہیں،جو کینیڈا کے پاسپورٹ اور اس خوبصورت ملک کی شہریت کو اپنے مزموم مقاصد
کے لیے استعمال کرتے ہیں،یہ سب دی گلوب کو اس وقت لکھنے کی کیوں ضرورت
محسوس ہوئی جب جناب شیخ کا کیس دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا اور
کینیڈا او رپاکستان تو خصوصی مر کز نگاہ ہیں،مگر اس سب کے باوجود بھی جناب
کینیڈین شیخ کینیڈا کی شہریت پہ کبھی بھی لعنت نہیں بھیجیں گے نہ نا
پسندیدگی کا کوئی اظہار ہی کریں گے،اگر آپ کو ایک گورے ملک کی شہریت اتنی
ہی عزیز ہے تو جناب اس ملک و قوم کو معاف کیجیے وہیں سدھاریئے یہاں کون سا
کاوروبار حیات رکا ہو ا تھا آپ کے بنا جو نہیں چل رہا تھا یہاں امریکن
ایجنٹ کچھ کم ہیں کہ اب کینیڈا کے لوگ بھی ہمیں اصلاح کا درس دیں گے اور
رہی اس قوم اور اس کے حکمرانوں کے لیے باسٹھ تریسٹھ کی شرط تو جناب ذرا
اپنا بھی موازنہ بلکہ محاسبہ کیجیے گا کہ کس اسلام اور اسلامی تعلیمات کے
تحت ماڈل ٹاﺅن کے دو سو گھروں کو جانیوالی سات سڑکیں آپ نے سیکیورٹی کے نام
پہ بند کر رکھی ہیں،ہمارے خادم اعلیٰ،چیف کمشنر اور انتظامی اہل کار اندھے
نہ ہوتے تو آپ کو سمجھ آ جاتی یا آپ جس نئے ملک کے شہری ہیں وہاں کبھی تصور
بھی کیجیے گا کسی دوسرے کینیڈین کے گھر کا راستہ بند کرنے کا آپ کو آٹے دال
کا بھاﺅ معلوم ہو جائے گا،ظلم کی بھی حد ہوتی ہے ابھی تو آپ قوم پہ بطور
حکمران مسلط ہوئے ہی نہیں اور یہ حال ہے اور اگر خدانخوستہ کبھی قوم پہ
آپکی صورت کوئی حکمران آ گیا تو اس ملک کی اور اس کے باسیوں کی حالت کیاہو
گی جناب کے ان ماڈل ٹاﺅن کے ناکوں کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتاہے جو دو
ہزار آٹھ سے لیکر آج تک عوام الناس کا راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور ہائی
کورٹ کے واضح حکم کے باوجود زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے پر کامل یقین
رکھنے والے شیخ اور ان کے اہلکار یہ ناکے ختم کرکے خلق خدا کو عذاب سے نجات
دینے پر تیار نہیں،باسٹھ تریسٹھ تو دور کی بات ہم نے تو سن رکھا ہے کہ
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اب ان حالات
میں دو سوگھروں کے لگ بھگ ایک ہزار مکین آپ کے ہاتھ زبان اور دست برد سے
کتنے محفوظ ہیں یہ آپ بہتر جانتے ہیں،ان مکینوں نے ایک روز جب جمعے کے دن
منھاج القرآن کی مرکزی بھری جامع مسجد میںجب خطیب صاحب سے اس ظلم کے خلاف
التجا کی گئی تو داد رسی کیا ہوتی آئندہ سے مسجد میں سوال جواب کا سلسلہ ہی
مو قوف کر دیا گیا دوسروںکو نصیحت خود میاں نصیحت ،اس حد تک دو نمبری اس
ظاہر کچھ اور باطن کچھ کو اگر منافقت نہ کہا جائے تو پھر آپ ہی بتا دیں کہ
یہ کیا ہے،اس ملک اور قوم نے اب تک بڑے دو نمبر انقلاب اور انقلابی دیکھے
ہیں ہیں ، ہم نے ضیاالحق کا اسلامی انقلاب بھی دیکھا ،مشرف کا روشن خیال
اور اب آپ کا عوامی انقلاب بھی بھگت لیا خدا را اب اس قوم پر رحم کریں اور
اپنے پیش روﺅں کے پاس سدھار جائیں ایک کے پاس جانے کے لیے تو اللہ تعالیٰ
سے رجوع کرنا پڑے گا مگردوسرا آپ کے پسندیدہ ملکوں میں طبلے سارنگی کی لے
پر گذرے دنوں کو یاد کر کے آہیں بھر رہا ہے آپ بھی اس کے پاس جا کر اسے
تسلی دیں کہ آ عندلیب مل کے کریں آہ زاریاں،،،،،اور جہاں تک اس ملک اور قوم
کی بات ہے تو دھرنے کے وقت یہ قوم آپ کی ہم آواز ہوئی تھی اور آج بھی اس پہ
قائم ہے آپ ہی نے کہا تھا کہ کہوسپریم کورٹ زندہ باد کہو چیف جسٹس زندہ
باد،آپ اپنے موئقف سے حسب معمول الٹا پھر گئے مگر قوم ابھی تک کہہ رہی ہے
سپریم کورٹ زندہ باد چیف جسٹس زندہ باد،،،،،،،،،، |