دہشت گردی کے" تدارک "کےلئے
عوامی نیشنل پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس اپنے اختتام پر پہنچی۔چوبیس سیاسی
جماعتوں نے کانفرنس میں شریک ہوئے، جماعت اسلامی،تحریک انصاف اور جمعےت
علما ءاسلام (س )نے شرکت سے اجتناب کیا۔اے پی سی کے جاری کردہ مشترکہ
اعلامیہ میں تین نکات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ"تشدد پورے ملک کا مسئلہ
ہے،پرُ امن مذاکرات سے ہی خون کے دھبے دھوئے جاسکتے ہیں۔انتہا پسندی کا حل
آئین اور قومی سلامتی کی حدود کے اندر ہونا چاہیے۔"۔کانفرنس کی قابل ذکر
واحد بات یہ تھی کہ عسکریت پسندوں کےساتھ تمام سیاسی جماعتوں نے مذاکرات پر
اتفاق رائے کیا ہے۔کانفرنس میں مرکزی اور صوبائی حکومتوںسے مطالبہ بھی کیا
گیا کہ شہدا ءاورزخمی ہونے والے افراد کے خاندانوں کی مناسب مالی معاونت کی
جائے اورقیام امن کےلئے فریقین خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کریں۔عوامی
نیشنل پارٹی کے سربراہ نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اے پی سی کی
قراردار کو سیکورٹی اداروں اور ایجنسیوں تک بھی پہنچائیں گے اور اگر کسی
جماعت نے قرارداد سے روگردانی کی تو ان کے گریبان تک ہاتھ جائیں گے۔ جن تین
نکات پر اتفاق رائے پایا گیا تو ہمیشہ کی طرح تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ
فیصلہ رہا ہے اور دہشت گردی کےخلاف ، مذاکرات کو ہی آخری حل سمجھا گیا ہے
لیکن اہم بات یہ ہے کہ اے پی سی میں امن مذاکرات و جنگ بندی کے حوالے سے
کوئی روٹ میپ نہیں ہے۔
عسکریت پسندوں کیجانب سے حکومت کو جب مذاکرات کی پیش کش کی گئی تو تمام
سیاسی حلقوں نے اس کا خیر مقدم کیا، عوام نے بھی اس پیشکش پر حکومت سے
مطالبہ کیا کہ ، چونکہ حکومت انتہا پسند کاروائیوں کو روکنے میں ناکام رہی
ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ، عسکریت پسندوں سے
مذاکرات کرلے، لیکن اہم صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی طالبان(عسکریت پسندوں)
کے نام سے اتنے گروپ اوردھڑے بندیاں ہیں کہ، مذاکرات کا عمل کس طورامن کی
ضمانت بن سکے گا ، کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔پاکستان کی مقابلے میں افغانستان
کی صورتحال یکسر مختلف ہے کیونکہ وہاں ، افغانی عوام اپنی سرزمین کو غاصبوں
سے نجات دلانے کےلئے جہاد میں مصروف ہیں اور امریکی جارحیت کےخلاف قیمتی
قربانیاں دے رہے ہیں، اس لئے افغانستان میں طالبان کی واضح نمائندگی دنیا
کے سامنے موجود ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں پاکستانی عسکریت پسندوں کی تمام
کاروائیوں کو کبھی بھی تحریک طالبان(افغانستان) کیجانب سے پزیرائی نہیں
ملی۔بلکہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردیوں کےخلاف امیر ملا عمر کیجانب سے
بیان بھی منظر عام پر آچکا تھا کہ" اسکولوں ،بازاروں اور معصوم بےگناہ
انسانوں کو نشانہ نہ بنایا جائے"۔امریکہ،افغانستان،پاکستان اور طالبان کے
باہمی مذاکرات کے عمل میں بین الاقومی برداری اور مسلم ممالک کی دل چسپی
بھی شامل ہے اسلئے نیٹو افواج کے انخلا ءسے پیشتر افغانستان کے اقتدار کے
حوالگی کےلئے محفوظ راستہ تلاش کیا جا رہا ہے اور فریقین کیجانب سے مذاکرات
کا عمل،خطے کے امن کےلئے اہم پیش رفت ہے ،لیکن پاکستانی عسکریت پسندوں کے
مذاکراتی پیش کش کو شک و شبے سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ ، عسکریت پسندوں
کیجانب سے بھی امن وجنگ بندی کا روٹ میپ کے بجائے صرف ، تین سیاسی جماعتوں
پر اعتماد اور عسکری قوت پر عدم اعتماد کا اظہارکیا جارہا ہے ، نیز مذاکرات
کی پیش کش پر مثبت ردعمل کے باوجود بے گناہ شہریوں اور سیکورٹی اداروںکو
نشانہ بنائے جانا بھی غیر سنجیدگی تصور کی جارہی ہے۔
اے این پی اور وفاق میں بیٹھی ہوئی حکمران اتحادی جماعتوں کیجانب سے عسکریت
پسندوں کےساتھ مذاکرات کی کامیابی کا کوئی امکان اس لئے بھی نہیں ہے کیونکہ
ان کے اقتدار کی مدت محض کچھ دنوں کی بات ہے، پانچ سال تک مربوط پالیسی کو
اپنانے سے گریز کی راہ نے عسکریت پسندوں کو مزید مضبوط کیا ہے اور صرف چند
گھنٹوں کی ویلنٹنائن ڈے کانفرنس کو نتیجہ خیز اس لئے بھی قرار نہیں دیا جا
سکتا کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں سے تجاویز مانگیں گئیں اور ہر جماعت سے اے
پی سی منعقد کرانے کی درخواست کی گئی۔اس وقت جب تمام سیاسی جماعتیں
انتخابات کے میدان میں کمر کسنے کےلئے اُتر چکی ہیں ، اے این پی کیجانب سے
بے وقت راگنی کو توجہ ملنے کی توقع کم ہے۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ اے این پی کو
انتخابی نعرہ مل جائے اور پختون قوم سے امن کی بھیک کےلئے ووٹ طلب کرے ،
لیکن زمینی حقائق اس کے بر خلاف ہیں کیونکہ سرخ اقتدار میں ویلنٹنائن کی
محبت سے زیادہ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے زمین بھی سرخ ہوچکی ہے اور اے
این پی کیجانب سے پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد ، عوام کو مزید
بہکاوے میں رکھنا مشکل ہوگا۔جماعت اسلامی و تحریک انصاف، خیبرپختونخوا میں
نئی صف بندی اور تیاریوں کےساتھ میدان انتخابات میں اتر رہے ہیں ، وہ اس
موقع پر اے این پی کو محفوظ راستہ دینے کےلئے آمادہ نہیںہیں۔اے این پی کی
پانچ سالہ حکومت کی نااہلی ان پارٹی ورکرز ، عہدےداروں اور رہنماﺅں کے خون
سے بھی نہیں دھوئی جاسکتی ، جو اے این پی قیادت کی غیر سنجیدہ حکمت عملی
اور تاخیرسے اٹھائے جانے والے اقدام کے باعث رائیگاں چلی گئیں ہیں۔اے این
پی کو اقربا پروری ، تاریخی کرپشن سے گریزاور قیادت کو غیر ملکی دوروں اور
ایوان صدر میں پناہ کے بجائے عوام کے درمیان رہ کر باچا خان بابا کے جانشین
ہونے کا حق ادا کرنا چاہیے تھا ،پیپلز پارٹی کیجانب سے عطا کردہ صوبائی
شناخت پر ہزاروں بے گناہوں کے خون ناحق پر، خاموشی اختیار کرنے کے بعد اے
پی سی کا منعقد کرنا ، محض ایک پھٹا ڈھول ہے۔
دہشت گردی کےخلاف منظم کاروائی کےلئے سیاسی جماعتوں کو پاک عسکری قوت کے
ہاتھ مضبوط کرنا ہونگے ، مذاکرات کی کامیابی کےلئے دونوں ہاتھوں کو تالی
بجانا ہوگی ،کیونکہ عسکریت پسندوں نے اے پی سی کو غیر مفید قرار دیتے ہوئے
مسترد کردیا ہے اور سیاسی جماعتوں کے پاس ایسا کوئی مینڈیٹ بھی نہیں ہے کہ
حکومت سے عسکریت پسندوں کے مطالبات منوا سکیں ،اگر ایسا ہوتا تو اے این پی
، جوپی پی پی کی گود میں پانچ سال سے بیٹھی ہوئی ہے ، کچھ تو پختون قوم کی
لاج رکھ لیتی۔کاش ایسا ہوتا !!۔۔ |