ملایشیا دنیا کاغریب ترین ملک
تھا، وہاں غربت، افلاس اور بیروز گاری کا راج تھا۔ صرف ایک پاکستان ہی نہیں
بلکہ اپنے ہمسایوں انڈونیشیا اور فلپائن سے بھی زیادہ غریب اور مفلوک الحال
تھا۔ چالیس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررنے پر مجبور تھے۔ ملک
میں وسائل کچھ زیادہ نہ تھے۔ صرف ٹن، ربڑ اور پام آئل جیسا خام مال باہر
بھیج کر ملک کی معیشت کو چلایا جاتا تھا۔ ملک کا کوئی بھی ادارہ ترقی کرتا
دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سیاست، معیشت اور تعلیم سمیت تمام شعبے دن بدن دم
توڑ رہے تھے۔ دوردور تک ملایشیا کے حالات سنبھلتے دکھائی بھی نہ دے رہے تھے۔
یہ 1980کا آغاز تھا کہ دنیائے سیاست کے عالمی چہرے پر ڈاکٹر مہاتیر محمد کا
ظہور ہوا۔ پھر مہاتیر محمد اقتدار کی مسند تک جا پہنچا اور 22سال لوگوں کی
محبتوں نے اسے مسند اقتدار سے اترنے نہ دیا۔ مہاتیر محمد نے جب ملایشیا کا
اقتدار سنبھالا تو دنیا کے منظر نامے میں مہاتیر کا ملک اک نئی پہچان کے
ساتھ نمودار ہونے لگا۔اس ملک کے حالات دیکھتے دیکھتے بدلنے لگے۔ جو ملایشیا
صرف خام مال پیدا کرکے اپنا گزارا کرتا تھا، وہی ملایشیا الیکٹرونکس،
کمپیوٹر، ٹیکنالوجی اور سروس انڈسٹری کے باعث ایک سو بلین ڈالر کی برآمدات
کرنے لگا۔ 2300ڈالر فی کس آمدنی کمانے والا ملایشیا 9ہزار ڈالر کمانے لگ
گیا۔تعلیم سے محروم اسی ملک کے 92فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہوگئے۔ملایشیا کی
سیاست مستحکم اور مضبوط ہوگئی۔معیشت و تجارت میں روز فزوں ترقی ہونے لگی۔
وہاں غربت کا نام و نشان مٹ گیا، لوگ خوشحال ہوگئے۔
ڈاکٹرمہاتیر محمد1981 سے لےکر 2003 تک مسلسل ملک کے وزیر اعظم رہے۔ وزیر
اعظم بننے کے بعد اپنے ملک کو اہم صنعتی اور ترقی یافتہ قوم میں بدلنے کا
ایجنڈا پیش کیا، جو پبلک پالیسی مہاتیر محمد نے اختیار کی اس کی بنیاد درج
ذیل سیاسی فلسفہ پر قائم تھی۔ مشرق کی تہذیبیں جن اخلاقی اور روحانی اصولوں
پر قائم ہیں مہاتیر محمد کے نزدیک امریکا اور اہل مغرب اس فکری شعور سے
نابلد ہیں۔ مہاتیر محمد کے نزدیک ریاست آئین اور قانون کی پاسداری پر قائم
ہونی چاہیے۔ ریاست کا نظام خود احتسابی Social and Political Enpowerment
پر قائم ہونا چاہیے۔ وسائل کی تقسیم کا منصفانہ نظام قائم کرنا چاہیے۔ نظم
و ضبط میں کسی قسم کی جھول برداشت نہیں کرنی چاہیے۔ مہاتیر محمد کے نزدیک
مغرب سے ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ وہ مسلم ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنا
چاہتا ہے۔ مہاتیر محمد کے نزدیک انسانی حقوق و فرائض میں توازن قائم رکھنا
بہت ضروری ہے۔ مہاتیر محمد کے مطابق مالے قوم اپنی اسلامی اور دینی شناخت
کو کبھی قربان نہیں کر سکتی۔ مہاتیر محمد کے برسراقتدار آنے سے اس کے
چھوڑنے تک لوگ اس سے محبت کرتے رہے اور جب اس نے اقتدار چھوڑا تو لوگ رو رو
کر کہہ رہے تھے کہ آپ اقتدار نہ چھوڑیں ،مگر اس کا کہنا تھا کہ آنے والی
نسلوں کو قیادت سونپنا چاہتا ہوں ۔مہاتیر محمد نے اس قدر محنت اور لگن سے
کام کیا کہ اپنی قوم کو بام ثریا پر پہنچا دیا۔
مہاتیر محمد عوام سے اٹھ کر آیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے جواب دہ
سمجھتا تھا۔ مہاتیر محمد خود اپنی خود نوشت میں لکھتا ہے کہ اکثر سوچتا ہوں
کہ میں نے ترقی کا جو خواب دیکھا ہے وہ پندرہ سال بعد پورا ہوگا۔ اگر اگلے
چار سال کے لیے میں منتخب نہ ہوا تو کیا ہوگا،عوام کو کیا جواب دوں گا؟
عوام کے سامنے پیش ہونے کا یہی خوف مہاتیر محمد کو ملایشیا کی تقدیر بدلنے
پر مجبور کرتا رہا۔ مہاتیر محمد 1963کے آئین کے مطابق برسراقتدارآیا اور
پھر اس نے جانے تک اس میں ایک بھی ترمیم نہیں کی حالانکہ جتنے لوگ اس سے
محبت کرتے تھے وہ ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تاحیات وزیر اعظم رہنے کی ترمیم
کر سکتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب مہاتیر محمد جانے لگا تو لوگوں کی خواہش تھی
کہ وہ ہم پر حکمرانی کرتا رہے۔جب کہ اس نے یہ سوچا کہ اقتدار اپنی قوم کو
سونپ دینا چاہیے۔ لوگوں کو اس سے محبت اور اس کی صلاحیتوں کا ادراک ہوچکا
تھا۔
دوسری طرف میرا پیارا پاکستان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمت سے
نوازا ہے۔ اس کے باوجود میرا ملک ترقی کے بجائے مسلسل تنزلی کا شکار ہورہا
ہے۔حالانکہ پاکستان دنیا کے ایک ایسے حصے میں واقع ہے جہاں قدرت کی طرف سے
دیے گئے انمول خزانے موجود ہیں۔ پاکستان کا ہر صوبہ اپنی اپنی جگہ اہمیت کا
حامل ہے۔ پنجاب کی زمین بہت زرخیز ہے۔ سندھ قدرتی گیس اور معدنی ذخائرکے
لحاظ سے جانا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان برف کے پگھلاﺅ،پہاڑ،
جنگلات اورقدرتی وسائل گیس، جپسم اورکوئلہ وغیرہ کے اعتبار سے اہمیت کے
حامل ہیں۔ہمارے پاس افرادی قوت کی فراوانی ہے۔خصوصاً نوجوان جو ہر قوم کو
ترقی کی راہ پر ڈالتے ہیں، ان کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔اس کے باوجود
پاکستان دن بدن تباہی کا سفر کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سب کچھ دیا ہے
لیکن میرے ملک کے لیڈر پاکستان کو ترقی کی راہ پر نہیں لے جاسکے،کیونکہ قوم
کو ترقی کی راہ پر لے جانا ان کے مقاصد میں کبھی شامل ہی نہیں رہا۔ ان کا
مقصد صرف اپنے خزانے بھرناہے۔ انہوں نے کبھی قوم کو خوش نہیں کیا، اسی لیے
پاکستان میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی حکمران اپنا دور اقتدار ختم کر
کے جاتا ہے تو لوگ اس کے جانے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مٹھائیاں تقسیم
کرتے ہیں۔
ہماری قوم ان کے جانے پر کیوں خوش ہوتی ہے؟ مہاتیر محمد کی طرح ان سے محبت
کیوں نہیں کرتی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہاتیر محمد اور میرے ملک کے لیڈروں
میں بہت فرق ہے۔وہ ملایشیا کے عوام سے اٹھ کر آیا تھا جبکہ میرے ملک میں
لیڈر دوسرے ممالک سے صرف حکمرانی کرنے کے لیے آتے ہیں، اپنا دور اقتدار ختم
کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ یہ یہاں کے عوام کا دکھ درد سمجھ نہیں پاتے۔
مہاتیر محمد کو اپنی قوم کے عوام سے محبت تھی، اسی لیے قوم بھی اس سے محبت
کرتی تھی۔ مہاتیر محمد نے اپنے عوام کو حکمرانی کرنے کا موقع دیا جبکہ میرے
ملک کے حکمران اس وقت تک اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنا چاہتے ہیں جب تک ان میں
ایک بھی سانس باقی ہو۔ اگر خود حکمرانی کرنے کے قابل نہیں رہتے تو اپنی
اولاد کو قوم پر حکمران بنا دیتے ہیں۔
بھلا میرے ملک کے لیڈروں کو قوم کس طرح مہاتیر محمد کی طرح محبت کرسکتی ہے
جبکہ انہوں نے مہاتیر محمد کی طرح قوم اور ملک کو کچھ نہیں دیا۔پاکستان بھی
ملایشیا کی طرح ترقی کرسکتا ہے ۔ بس قیادت کا فرق ہے ، کسی قوم کو قیادت
مہاتیر محمد جیسی مل جاتی ہے اور کسی کو ایسی قیادت نصیب نہیں ہوتی۔یاد
رکھیں قوم کا سچا لیڈر وہی ہوتا ہے ، جس کا دل قوم کا در آشنا ہو جو اپنی
قوم کے لیے کچھ کرگزرنا چاہتا ہو۔ جس کے افعال و اعمال مضبوط ہوں ، جو
کردار کا پختہ ہو، جو قوم کا سچا ہمدرد اور خیر خواہ ہو، جو بااصول ہو،
ظالم کے سامنے سینہ سپر کرسکے۔جس کے دل میں اغراض کا ڈیرہ نہ ہو، جس کا دل
اپنے عوام کے لیے دھڑکتا ہو، جو گفتار کا دھنی ہو۔ذرا سوچیے کہ میرے ملک کے
لیڈروں میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں؟ جواب نفی میں ہی ملے گا۔ |