حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے
ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر ؓ دوپہر کی ایک سخت گرمی میں گھر سے مسجد کی طرف
چلے۔حضرت عمر ؓ نے سنا تو کہا اے ابوبکرؓ اس وقت آپ گھر سے باہر کیوں آئے۔
حضرت ابو بکرؓ نے کہا صرف اس وجہ سے آیا ہوں کہ سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔حضرت
عمر ؓ نے کہا اللہ کی قسم میں بھی اسی وجہ سے آیا ہوں ۔ ابھی یہ دونوں آپس
میں با ت کر ہی رہے تھے کہ اچانک حضورﷺ گھر سے نکل کر ان دونوں حضرات کے
پاس تشریف لے آئے۔ آپﷺ نے پوچھا اس وقت تم دونوں گھر سے باہر کیوں آئے۔
دونوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم صرف اس لیے آئے ہیں کہ ہم کو سخت بھوک لگی
ہوئی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے
میں بھی صرف اسی وجہ سے گھر سے آیا ہوں۔ چلو تم دونوں کھڑے ہو جاﺅ۔ چنانچہ
یہ تینوں حضرات تشریف لے گئے اور حضرت ابو ایوب انصاری کے دروازے پر پہنچ
گئے۔ اور حضرت ابو ایوب انصاری ؓ حضور ﷺ کے لیے کھانا یا دودھ بچا کر رکھا
کرتے تھے۔اُس دن حضور ﷺ کو اُن کے ہاں آنے میں دیر ہو گئی اور جس وقت
روزانہ آیا کرتے تھے اُس وقت نہ آسکے تو حضرت ابو ایوب انصاریؓ وہ کھانا
اپنے گھر والوں کو کھلا کر اپنے کھجوروں کے باغ میں کام کرنے چلے گئے
تھے۔جب یہ حضرات اُن کے دروازے پر پہنچے تو اُن کی بیوی نے باہر نکل کر ان
حضرات کا استقبال کیا اور کہا خوش آمدید اللہ کے نبیﷺ کو اور اُن کے ساتھ
آنے والوں کو ۔ حضور اکرم ﷺ نے اُن سے پوچھا ابو ایوب ؓ کہاں ہیں۔حضرت ابو
ایوبؓ اپنے باغ میں کام کر رہے تھے۔وہاں سے انہوں نے حضورِ اکرمﷺ کی آواز
کو سنا تو دوڑتے ہوئے آئے اور کہا خوش آمدید ہو اللہ کے نبیﷺ کو اور اُن کے
ساتھ آنے والوں کو۔ اے اللہ کے نبی ﷺ یہ وہ وقت نہیں ہے جس میں آپ ﷺ آیا
کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا تم ٹھیک کہتے ہو چنانچہ وہ گئے اور کھجور
کا ایک خوشہ توڑ کر لائے جس میں خشک اور تر اور گدر(نیم پختہ) تینوں قسم کی
کھجوریں تھیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا یہ تم نے کیا کیا ہمارے لیے چن کر صرف
خشک کھجور لاتے ۔ انہوں نے کہا یارسول اللہﷺ میرا دل یہ چاہا کہ آپ ﷺ خشک
اور تر اور گدر تینوں قسم کی کھجور کھائیں اور ابھی میں آپ کے لیے کوئی
جانور بھی ذبح کروں گا۔آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم نے ذبح کرنا ہی ہے تو دودھ
والا جانور ذبح نہ کرنا۔حضرت ابو ایوب ؓ نے سال یا سال سے کم عمر بکری کا
بچہ ذبح کیا اور اپنی بیوی سے کہا تم ہمارے لیے آٹا گوندھ کر روٹی پکاﺅ
کیونکہ تم روٹی پکانا اچھی طرح جانتی ہو اور حضرت ابو ایوب ؓ نے بکری کے اس
بچہ کے آدھے گوشت کا سالن بنایا اور آدھے کو بون لیا۔ جب کھانا تیار ہو گیا
اور نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کے سامنے رکھا گیا تو آپ ﷺ نے تھوڑا سا
گوشت روٹی پر رکھ کر حضرت ابو ایوب ؓ سے کہا۔ اسے فاطمہ ؓ کے پاس پہنچا دو
کیونکہ بہت دنوں سے اُنہیں ایسا کھانا نہیںملا۔حضرت ابو ایوب ؓ وہ لے کر
حضرت فاطمہ ؓ کے پاس گئے ۔ جب یہ حضرات کھا چکے اور سیر ہوگئے تو حضور ﷺ نے
فرمایا روٹی اور گوشت اور خشک کھجور اور تر کھجور اور گدر کھجور اور یہ کہہ
کر آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور پھر یہ فرمایا کہ قسم ہے اُس ذات کی جس
کے قبضہ میں میری جان ہے یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تم سے قیامت کے
دن پوچھا جائے گا۔یہ بات آپﷺ کے صحابہ ؓ کو بڑی بھاری معلوم ہوئی تو آپ ﷺ
نے فرمایا لیکن جب تمہیں ایسا کھانا ملے اور تم اس کی طرف ہاتھ بڑھانے لگو
تو بسم اللہ پڑھا کرو اور جب تم سیر ہو جاﺅ تو یہ دعا پڑھو۔
”ترجمہ: تمام تعریفیں اُس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں سیر کیا اور ہم پر
انعام فرمایا اور ہمیں خوب دیا۔ “تو یہ دعا اُس کھانے کا بدلہ ہو جائے
گی(اب اس کھانے کے بارے میں قیامت کے دن سوال نہیں کیا جائے گا)جب آپﷺ وہاں
سے اُٹھے تو ابو ایوب انصاری ؓ کو فرمایا کہ کل ہمارے پاس آنا۔ آپﷺ کی عادتِ
شریفہ یہ تھی کہ جو بھی آپ ﷺ کے ساتھ بھلائی کرتا آپﷺ اُسے اُس کا بدلہ
دینا پسند فرماتے۔ حضور اکرم ﷺ کی یہ بات نہ سنی تو حضرت عمر ؓ نے اُن سے
کہا کہ حضور اکرم ﷺ تمہیں اپنے پاس آنے کا حکم دے رہے ہیں۔چنانچہ وہ اگلے
دن حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے ۔ حضور اکرم ﷺ نے اُن کو اپنی باندی دے دی
اور فرمایا اے ابو ایوب ؓ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا کیونکہ یہ جب تک ہمارے
پاس رہی ہے ہم نے اس میں خیر ہی دیکھی ہے۔ حضرت ابو ایوب ؓ اس باندی کو
حضور اکرم ﷺ کے ہاں سے لے آئے تو فرمایا کہ حضور ﷺ کی وصیت کی سب سے بہتر
صورت یہ ہے کہ میں اسے آزاد کر دوں چنانچہ اسے آزاد کر دیا۔
قارئین!آج کا موضوع بہت ہی اہمیت اور دلچسپی کا حامل ہے۔ ہم نے آج سے چند
ماہ قبل ایف ایم 93ریڈیوآزادکشمیر کے مقبول کے ترین پروگرام لائیو ٹاک ود
جنید انصاری میں بیل آﺅٹ پیکیج کے عنوان پر ایک مذاکرہ رکھا تھا ۔ اس
مذاکرے میں حکومتی وزراءاور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق نے شرکت
کی تھی۔ پروگرام میں ایکسپرٹ کے فرائض آزادکشمیر کے غیر جانبدار ترین سینئر
صحافی راجہ حبیب اللہ خان نے انجام دیئے تھے۔ راجہ حبیب اللہ خان بھی
انتہائی دلچسپ شخصیت ہیں۔ صحافت میں اُن کی خدمات کا تعین تو آنے والے دور
کا مورخ کرے گا۔ ہم اُنہیں ایک انتہائی عزیز مہربان دوست اور رہبر و رہنما
کی حیثیت سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ قارئین کے لیے یہ بات شائد دلچسپی کی
حامل ہو کہ آج سے دو سال قبل جب ہم نے صحافت کے کانٹوں بھرے میدان میں قدم
رکھا تھا تو محض تین ماہ کے عرصے میں ہم بُری طرح اُکتا گئے اور بیزار ہو
کر ہم نے راجہ حبیب اللہ خان کو بتایا کہ ہم جرنلزم چھوڑرہے ہیں۔ اس پر
راجہ حبیب اللہ خان نے تین ہفتے ہمارے ساتھ ڈسکشن جاری رکھی اور ہمیں آخر
کار رضا مند کیا کہ ہم صحافت سے قطع تعلق نہ کریں۔اُس کا نتیجہ آپ کے سامنے
ہے کہ ہم نے دو سال کے قلیل عرصے میں سینکڑوں کالم بھی تحریر کئے ۔ قومی
اور بین الاقوامی ایشوز پر ڈاکٹر عبد القدیر خان جوہری سائنسدان، ڈاکٹر
عطاءالرحمان سابق چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان، تحریک ِ انصاف کے
سربراہ عمران خان، لارڈ نذیر احمد، موجودہ وزیر اعظم چوہدری عبد المجید،
صدر آزادکشمیر سردار یعقوب خان، سابق وزرائِ اعظم سردار سکندر حیات خان،
سردار عتیق احمد خان، راجہ فاروق حیدر خان، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری،
متعدد وفاقی وزراء، اراکین قومی اسمبلی و قانون ساز اسمبلی اور سینکڑوں
دیگر شخصیات کے تاریخی انٹرویوز کئے۔ دو سال کی قلیل مدت میں یہ کامیابیاں
تاریخی نوعیت کی رہیں۔فیصلہ سازی کے عمل میں قومی نوعیت کے معاملات میں
ہمارے استادِ گرامی راجہ حبیب اللہ خان کے ساتھ ہمارے ٹاک شو لائیو ٹاک ود
جنید انصاری نے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ہم اپنے محسن بڑے بھائی راجہ حبیب
اللہ خان کے مشکو ر ہیں کہ انہوں نے ایک نازک مرحلے پر ہماری رہنمائی کی
تھی اور بعد میں ہر وہ مقام کہ جہاں پر بھٹکنے اور پھسلنے کا چانس تھا ہمیں
سہارا دیا۔ اللہ اُنہیں عزت اور خوشیاں عطا فرمائے آمین۔
قارئین! بیل آﺅٹ پیکیج کے حوالے سے ہم نے جو پروگرام کیا تھا۔اُس میں ڈپٹی
اپوزیشن لیڈر رہنما مسلم لیگ(ن) آزادکشمیر چوہدری طارق فاروق نے انتہائی
فکر انگیز باتیں کی تھیں۔چوہدری طارق فاروق کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اگر
آزادکشمیر کو بیس ارب روپے کا بیل آﺅٹ پیکیج دے رہی ہے تو یہ کوئی احسان ہر
گز نہیں ہے کیونکہ آزادکشمیر سے حاصل کئے گئے ٹیکس وفاقی حکومت کے پاس جاتے
ہیں ۔ پانی کی آمدن ، بجلی کی پیداوار ، منگلا ڈیم کا حصہ الغرض ہر طرح کے
ذرائعِ آمدن براہِ راست وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ اور اگر ہم ہی سے
پیسے اکٹھے کر کے وفاقی حکومت بیل آﺅٹ پیکیج یا کسی اور عنوان سے وہ رقم
ہمیں واپس کرتی ہے تو یہ وفاقی حکومت کا کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اُن کا
فرض بنتا ہے کہ وہ آزادکشمیر کو یہ مالی معاونت فراہم کرے۔ البتہ انہوںنے
شک کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت جس طریقے سے چوہدری عبد المجید وزیر اعظم
آزادکشمیر کو بار بار بلوا کر عملی طور پر بیل آﺅٹ پیکیج کے بیس ارب روپے
دینے کی بجائے ”لارے لپے“ لگا رہی ہے اُس سے کئی شکوک جنم لے رہے ہیں۔
قارئین! چوہدری طارق فاروق کے یہ تمام شکوک اور اُن کی پیش بینی وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہو تی چلی گئی۔ ہفتوں پر ہفتے اور مہینوں پر مہینے
گزرتے گئے اور وفاقی حکومت کے اعلانات در اعلانات کے بعد آخری اعلان یہ کیا
گیا کہ وفاقی حکومت آزادکشمیر حکومت کو بیس ارب روپے کا بیل آﺅٹ پیکیج دینے
سے قاصر ہے۔سیاسی ماہرین نے اس تمام عمل اور اس کے ڈراپ سین کو یہ کہہ کر
تجزیے کی چھلنی سے گزارا کہ یوں لگ رہا ہے کہ وفاقی حکومت کی آنکھیں بدل
گئی ہیں اور وہ آزادکشمیر میں کسی اور شخصیت کو بحیثیت وزیر اعظم دیکھنا
چاہتے ہیں۔
قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ ملکہ آزادکشمیر یا یوں کہنا چاہیے کہ پیپلز
پارٹی کی جانب سے آزادکشمیر کے معاملات دیکھنے کے لیے تعینات محترمہ فریال
تالپور جو صدرِ پاکستان آصف زرداری کی ہمشیرہ ہیں اُنہوں نے کچھ عرصہ قبل
پیپلز پارٹی آزادکشمیر کی اعلیٰ سطحی میٹینگ طلب کی تھی اور اُ س میں سابق
وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی طرف سے وزیر اعظم چوہدری عبد
المجید اور اُن کی کابینہ کے چند ارکان کی کرپشن کے الزامات کی تحقیق کی
گئی تھی۔ انتہائی ذمہ دار اندرونی ذرائع نے مخبری کی تھی کہ محترمہ فریال
تالپور اور صدر پاکستان آصف علی زرداری آزادکشمیر میںمبینہ کرپشن کے
الزامات پر بہت خفا تھے اور اُسی وقت یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ پاکستان
میں ہونے والے 2013ءکے انتخابات سے قبل آزادکشمیر میں کچھ تبدیلیاں عمل میں
لائی جائیں گی۔ اس تمام ڈرامے کاڈراپ سین اب شائد ہونے والا ہے۔ سابق وزیر
اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران انتہائی صبر
اور استقامت سے اپنے سیاسی پتے کھیلنا جاری رکھے۔ وفاقی وزیر امورِ کشمیر
میاں منظو ر وٹو روزِ اول سے ہی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے حامی ہیں اور
اُنہیں بحیثیت وزیر اعظم آزادکشمیر دیکھنا چاہتے ہیں۔اب فیصلے کا مرحلہ آن
پہنچا ہے دیکھتے ہیں کیا ڈراپ سین ہوتا ہے۔
قارئین! یہاں یہ امر قابلِ ذکر اور دلچسپی کا حامل ہے کہ چوہدری عبد المجید
نے وزیر اعظم آزادکشمیر ہونے کی حیثیت سے جس اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا
ہے اُس پر اپنے تو اپنے بیگانے بھی اُن کے معترف ہیں۔ ڈیڑھ سال کی قلیل مدت
میں تین میڈیکل کالجز، متعدد یونیورسٹیاں اور میگا پراجیکٹس کی بھرمار کے
ساتھ انہوںنے آزادکشمیر میں آنے والے دور کی ترقی کی بنیاد رکھی ہے۔ ماضی
میں جن ایشوز پر برادریوں کو برادریوں کے ساتھ اور اضلاع کو اضلا ع کے ساتھ
لڑایا جاتا تھا اُنہوںنے وہ تمام معاملات درست کر دیئے۔اُن کی سب سے بڑی
غلطی شائد یہ رہی کہ وہ اپنے چند انتہائی قریبی عزیزوں ، رشتہ داروں اور
اپنی کابینہ کے بعض ارکان کے ساتھ ساتھ چند فرنٹ مین کرپٹ لوگوں کی وجہ سے
اُن کے تمام مثبت کارنامے بھی آج صدرِپاکستان آصف علی زرداری اور وفاقی
حکومت کو نہیں بھا رہے۔ بقول ساغر صدیقی
جلوے مچل رہے ہیں نظاروں کی آگ میں
کچھ پھول جل رہے ہیں بہاروں کی آگ میں
آشفتگی سے چور ہیں زلفوں کی بدلیاں
ساقی شراب ڈال چناروں کی آگ میں
گر میں نہیں تو پیارکے دو بول ہی سہی
کچھ تو کمی ہو بادہ گساروں کی آگ میں
اللہ رے یقینِ محبت کی داستاں
دامن سلگ رہا ہے ستاروں کی آگ میں
کہتی ہیں نا خدا سے یہ سوچوں کی شورشیں
تیرے بھی مشورے تھے کناروں کی آگ میں
قارئین! آخری خبر بھی آپ کو بتاتے چلیںصدرِ پاکستان آصف علی زردار ی اور
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے بیرسٹر سلطان محمود
چوہدری کی بلاول ہاﺅس لاہور میں ہونے والی طویل ملاقات نے سیاسی ماہرین کو
آخری پیش گوئی کرنے پر مجبور کردیا کہ آزادکشمیر میں یا تو وزارتِ عظمیٰ کی
تبدیلی ہونے والی ہے اور یا پھر پیپلز پارٹی آزادکشمیر کی صدارت بیرسٹر
سلطان محمود چوہدری کو جلد ہی مل جائے گی۔ہماری صرف اتنی خواہش اور حسرت ہے
کہ تبدیلی آئے یا نہ آئے اللہ ایسے لوگوں کو اقتدار نصیب کرے جو غریب عوام
کے لیے دردِ دل بھی رکھتے ہوں اور انقلابی ویژن کے حامل بھی ہوں اور سب سے
اہم بات کہ دیانتدار ہوں۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
ایک فقیر نے انتہائی لجاجت سے گزرتے ہوئے راہگیر سے فریاد کی” صاحب میں
اندھا ہوں مجھے دس روپے دے دیجئے۔“
راہگیر نے غصے سے کہا....لیکن تمہاری ایک آنکھ تو بالکل ٹھیک دیکھائی دے
رہی ہے۔
فقیر نے ثابت قدمی سے حاضر جوابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”کوئی بات نہیں صاحب آپ پانچ روپے ہی دے دیں۔“
قارئین! جہاں اقتدار بھیک بن جائے اور قومی غیرت اور خودداری کو بالائے طاق
رکھ دیا جائے وہاں تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔پاکستان کے ساتھ
ساتھ آزادکشمیر میں بھی شائد اقتدار بھیک میں ہی ملتا ہے۔ اللہ ہمارے حال
پر رحم فرمائے۔(آمین) |