ایک دفعہ امیر المومنین حضرت عمر
فاروق ؓ کِسی کام سے جارہے تھے ۔ایک سیاح کو پتہ چلا کہ وہ مسلمانوں کے
امیر ہیں تو وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا ۔بھا گا بھا گا آپؓ کے پاس پہنچا
اور پوچھا ”آپ مسلمانوں کے امیر ہیں ؟
آپؓ نے جواب دیا ”میں ان کا امیر نہیں بلکہ ان کا محافظ ہوں “سیاح نے پوچھا
”آپ اپنے ساتھ حفاظتی دستہ کیوں نہیں رکھتے ؟“آپ ؓ نے جواب دیا ”عوام کا یہ
کام نہیں کہ وہ میری حفاظت کریں ،یہ تو میرا کام ہے کہ میں اِن کی حفاظت
کروں“۔
افسوس آج مسندِ اقتدار لاکھوں،کروڑوں کا پروٹوکول ایک محلہ کراس کرنے میں
پھونک دیتے ہیں ۔ایسے ایک روزہ پروٹوکول کی رقم سے ہزراروں بھوکے خاندانوں
کے خستہ حال گھونسلوں میں دو وقت کا چولہا مہیا کیا جاسکتا ہے۔ڈگریاں
ہاتھوں میں لئے سٹرکیں ناپتے سینکڑوں نوجوانوں کو کوئی معقول روزگار مہیا
کیا جاسکتا ہے۔ پروٹوکول شخصیت میں انفرادیت و نکھار پیدا کرتا ہے۔دل کو
مطمئن رکھتا ہے کہ یوں جان محفوظ ہے ۔بیسیوں گن مین ہیں،بلٹ پروف گاڑی
ہے،رموٹ کنٹرول سسٹم موجود ہے .... جان کو کوئی خطرہ نہیں ۔ایک پرانی مگر
ہر دور کی جوان کہاوت یاد آگئی ”موسی ٰڈرا موت سے اور موت سامنے گھڑی“۔
جب امریکہ جیسا ترقی پزیر ملک پروٹوکول پر خرچ ہونے والے فضول کے ڈالر بچا
سکتا ہے ،خود صدر امریکہ کا سربراہ اپنی آرام دہ کار میں تشریف فرما کے خود
کو کار سمیت ایک بڑے کنٹینر میں قید کروا کر عام سڑکوں سے عام انسانوں میں
سے بنا پروٹوکول گزارسکتا ہے تو پاکستان کا صاحب ایسا کیوں نہیں کرسکتا ۔امریکہ
کی عوام کو خبر بھی نہیں ہوپاتی اور اُن کے قریب سے اُن کے ملک کا سربراہ
گزر بھی جاتا ہے۔یہاں تو سگنل پر کھڑی گاڑیوں کی لمبی قطاریں ،جن میں کچھ
بھوکے ،کچھ بیمار،کچھ جنتی خواتین،کچھ نمازی،کچھ ایمبولینس ،کچھ فائر
برگیڈاور ایسی بہت کچھ باتیں جو کالم کی طوالت میں اہم کردار ادا کریں
گی،یہ سب گھنٹوں اِس امید پر اِنجن کے سوئچ آف کر کے بے چینی کی سانسیں
گنتے رہتے ہیں کہ کب ایک بڑے صاحب کی بلیک مرسڈیز ،BMWاُسی جیسے گوشت پوست
کے بنے ذرا نہیں بہت چھوٹے بے شمار انسانوں سمیت جنگی ہتھیاروں کے حفاظتی
دستے کے سائے میں سو کوس دور سے گزرے اور کب ہم دو سو کوس دور کا اپنا سفر
مکمل کر پائیں۔
عوام اپنے کس دکھ کو روئے حال تو اب یہ ہے کہ صرف جیب نہیں کاٹی جاتی بلکہ
تمام جیبوں والا پورا کرتہ ہی اُتار لیا جاتا ہے۔میں بھی آدم کی اُولاد ہوں
عین اُسی طرح کا گوشت پوست کا انسان جیسا کہ صاحب لوگ ہوتے ہیں ۔مگر میں
کبھی کوئی ساتھ پروٹوکول نہیں رکھتا ۔ابھی گزشتہ دِنوں ایک مجبوری کے تحت
مجبوراً لاہور سے کراچی جانے کا حادثہ پیش آیا ۔حسرت بھری نگاہیں اُٹھا کر
سر سے گزرتے جہاز کو صرف دیکھا اورجیب کی وسعت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے
دلبرداشتہ ہوکر ٹرین کی ٹکٹ کرواڈالی ۔ما شااللہ سے ٹرین اپنے وقتِ مقررہ
سے صرف چھ گھنٹے لیٹ چلی ۔سو ذہن بنا لیا کہ چھ سے سات گھنٹے اب لیٹ بھی ہو
جائے گی چلو کوئی بات نہیں۔بھلا ہو موبائل کمپنی والوں کا جنہوں نے میرے
موبائل میں ٹارچ لائٹ کا سسٹم بنا دیا ورنہ تو رات بھر اندھاسفر کرنا پڑتا
۔خیر یہ کوئی خاص تکلیف کی بات تو نہیں۔فیصل آباد تک تو ٹرین مہکتی رہی ،سکھر
روڑہی سے قبل ہی مجھے منرل واٹر کی بوتل خرید کر کے رفائے حاجت کے فرائض
نبھانے پڑے ۔ویسے یہ بھی کوئی بہت بڑا المیہ نہیں جہاں اتنی عوام ہو وہاں
پانی کی ٹینکی خالی ہونا کونسا کوئی بہت بڑی بات ہے۔اب میرا کیا خیال ہے کہ
ٹرین کا عملہ ہر اسٹیشن پر پانی بھر کے اپنی فرض شناسی جھاڑتا رہے اُن
بچاروں نے ایک دفعہ بھر تو دیا ٹرین چلتے وقت اب آرام بھی نہ کریں گھڑی دو
گھڑی کیا؟
پاس نہ کیے گئے انجن اب قدم قدم پر فیل ہونے کا ثبوت نہ دیں تو اور کیا
کریں۔میرا یہ شکوہ اِن انجنوں کے حق میں تو بجا ہی ہے کہ جو بچارے پتہ نہیں
خود کا بوجھ کیسے کھیچ کر چل رہے ہیں اُن پر دس یا بارہ بوگیوں کی بجائے
کثرتِ پسینجر کی وجہ سے سترہ سترہ بوگیاں اٹیچ کر دی جاتی ہیں ۔پاور
(انجن)کا مطلب اب یہ تو نہیں کہ وہ اب سُپر پاور بن گیا ہے۔خیر کسی خاص
تکلیف کے بنا ہی سولہ گھنٹے لیٹ کراچی پہنچ ہی گیا۔
کراچی پہنچ کر پٹھان کے کیفے پر چائے کے ہمراہ مہینہ بھرپرانا اخبار پڑھنے
کا اتفاق ہوا تو ٹرین کے سفر کو ہی غنیمت جانا۔علم میں اضافہ ہوا کہ
پاکستان ائیر لائن کے ماہر جو کئی ممالک کی فضائی کمپنیوں کی تشکیل اور
عملے کی تربیت کا فریضہ باخوبی انجام دیتے تھے آج خود اپنی تشکیل اور تربیت
کا متلاشی بن گیا ہے۔وہ ادارہ جو کبھی بے حد منافع بخش تھا آ ج اربوں روپے
خسارے میں جا رہا ہے۔ادارے میں آج جہازوں کی کمی ہے اور پرواز سے قبل اکثر
و بیشتر جہاز خراب ہوجاتے ہیں اور جو خراب ہوگا وہ لیٹ تو حق سچ میں ہوگا
ہی۔خیر اِس قسم کی پریشانیاں بیرونِ ممالک جانے والوں کو زیادہ ہوتی ہیں
میرا کیا ہے میں تو ٹھہرا لوکل مسافر ۔دکھ تو صرف اِس خبر سے ہوا کہ بظاہری
خسارے کو ختم کرنے اور 3ارب80کروڑ سالانہ بچانے کیلئے پی آئی اے نے اپنے
تین ہزار سے زائد ملازمین کو مرحلہ وار فارغ کرنا شروع کردیا ہے۔کاش یہ
جہاز ہوا میں نہیں ہوا سے چلتے ،نہ جلتا پیٹرول،ڈیزل نہ ہوتا خسارہ ۔ابھی
سوچ کا اختتام نہ ہوا تھا کہ چائے ختم ہوگئی ....”چلو جی جو کام آئے ہیں
وہاں چلیں“۔
رکشہ والے نے چار سو کا نوٹ طلب کیا میرے مطابق سفر صرف دو سو کا تھا
۔بچارہ کہنے لگا ....!”جناب تین دن سے CNGبند ہے۔ویگن والے بھی ڈبل کرایہ
وصول کر رہے ہیں ۔ آج کھلی تو صبح امام صاحب کے مسجد جانے سے قبل میں
CNGپمپ پر پہنچ گیا ۔آپ یقین کریں لائن میں لگ کر باقی کی نیند پوری کی اور
نیم خوابی کی حالت میں ہی رکشہ کو دھکا لگاتا رہا وہ تو بھلا ہو اُس کا جب
اُس نے بازو سے ہلا کر کہا کہ” او بھائی کہاں گم ہو ہوش کرو ٹینکی فُل
ہوگئی ہے لاﺅ پیسے دو“ یقین جانو کچھ کمائے بنا ہی اُسے تین سو کا نوٹ دے
کر ابھی آرہا ہوں “۔میں نے چونکتے ہوئے کہا” ابھی ....ابھی تو شام کے چار
بج رہے ہیں “”جی بابو جی شکر کریں جلدی پہنچ گیا تھا ورنہ جب امام صاحب رات
کو واپس گھر سونے کیلئے جاتے تب آنا تھا“۔مجھے اُس اپنے ووٹ کے فیصلے کے
ہاتھوں ستائے جمہوریت کا خواب دیکھنے والے پر اس قدر ترس آیا کہ چار سو کی
قربانی دے ہی ڈالی اور سوچا چلو کوئی بات نہیں حکمران نہ سہی عوام تو ایک
دوسرے کا درد محسوس کر سکتے ہیں۔
میں سوچتا ہوں ہم پر قیامت نہ آئی ہے اور نہ ہی ٹوٹ پڑی ہے بلکہ مسلط کر دی
گئی ہے ۔گھروں کے چولہے اُلٹے پڑے ہیں ،بیمار دوا کے پیسے نہ ہونے کی وجہ
سے بسترِ مرگ پر جی رہے ہیں ۔مگر پروٹوکولز پر کروڑوں کا اخراج ہورہا
ہے۔ملک میں پیٹرول کی قلت ہے ۔غریب کے سفر کے تمام راستوں پرناقے لگا دئے
گئے ہیں ۔جہاز تو خیر پہلے ہی غریب کی دسترس میں نہیں ،ٹرین کا سفر بھی اُس
کی زندگی کے کئی ایام کم کر دیتا ہے ،ویگنوں میں فیول نہیں کنڈیکٹر بچاروں
کی جیبیں جھڑوا کر کرایہ موصول کرتے ہیں ۔حکمراں شاد ہیں تابندہ ہیں ۔عوام
بس زندہ ہیں مگر شرمندہ ہیں۔ میری صرف اہلِ قلب سے اتنی ہی گزارش ہے کہ اِس
وقت وطنِ عزیز کے تقریباً 70فیصد صنعتی یونٹس گیس پر چل رہے ہیں جِن کی
بندش نے ہزاروں مزدوروں کے منہ سے روٹی کو کو سوں دور کر دیا ہے ۔یونٹس کے
مالکان الگ علمِ پریشانی میں ہیں۔اے صاحبو! گیس و بجلی کسی بھی ملک و قوم
کو ریڑھ کی ہڈی کی ماند سنبھالتی ہیں ۔آخر کیوں اس وقت پوری وقم و معیشت
گیس و بجلی کے بحران کے باعث متزلزل ہو کر رہ گئی ہے ۔کون ہے جو سرمایہ
کاروں کو اپنے ادارے دیارِ غیر میں منتقل کرنے پر مجبور کررہا ہے۔ملک
پاکستان میں نوادرات کی کوئی کمی نہیں ابھی حال ہی میں ڈیرہ بگٹی بلوچستان
میں گیس کا جو ایک عظیم ذخیرہ دریافت ہوا ہے اگر اِن جیسے ذخائر کی تلاش
میں عدم توجہی اور لاپرواہی کا مظاہرہ نہ کیا جائے تو ملک و قوم کو مزید
سنگین مثائل سے بچایا جاسکتا ہے۔
ہم آزاد سر زمین کے سپوت ہیں اور ہمارا ووٹ بھی آزاد ہے ۔ہم جسے چاہیں چنیں
اور جسے چاہیں ہیرو بنائیں ہماری مرضی ۔ |