پاکستان ائر فورس کے ریٹائرڈ
آفیسر گروپ کیپٹن شہزاد منیر احمد ایک عالم‘ دانا و بینا‘ صاحب بصیرت اور
درد مند دل رکھنے والے انسان ہیں۔ وہ جب کبھی مجھ سے ملتے ہیں تو ان سے
حکمت‘ دانائی‘ فہم و شعور‘ دانش وری اور ہوش مندی کی بہت ساری باتیں (جو
انہوں نے اپنی زندگی بھرکے تجربات سے سیکھی ہیں۔) مجھے سننے کا موقع ملتا
ہے۔ شہزاد منیر احمد نے اپنی زندگی کے تجربات و حوادث اور سینکڑوں کتب‘
جرائد‘ اخبارات کے مطالعہ سے جو کچھ حاصل کیا ہے اس حکمت و دانش کو انہوں
نے اپنی چند تصانیف کی صورت میں بھی محفوظ کر دیا ہے۔ شہزاد منیر احمد کو
یہ دکھ بھی ہے کہ ہم بڑے لوگوں کے تجربات و مشاہدات کو ان کی زبان سے سننے
یا کتابوں کی صورت میں پڑھ تو ضرور لیتے ہیں لیکن ہم ان سے کچھ سیکھتے نہیں۔
ماضی کی غلطیوں سے نہ سیکھنے والوں کا حال اور مستقبل کیسے بہتر ہو سکتا ہے۔
شہزاد مئی 1967ءسے اکتوبر 1971ءتک مشرقی پاکستان میں رہ چکے ہیں۔ انہوں نے
مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے الگ ہونے کی پوری داستان کو بہت قریب سے
دیکھا ہے۔ جب کبھی وہ پاکستان کو ٹوٹنے کی دلخراش کہانی سناتے ہیں تو وہ
خود بھی بچوں کی طرح رو پڑتے اور سننے والوں کو بھی رلا دیتے ہیں۔ شہزاد
کہتے ہیں کہ پاکستان کو بناتے وقت ہزاروں افراد شہید ہوئے‘ ان گنت مسلمان
عورتوں کی عصمتیں لٹیں اور ظالموں نے معصوم بچوں کو بھی قتل کرنے سے گریز
نہیں کیا۔ پھر اسی طرح جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو رہا تھا تو دونوں طرف
پاکستانی ہی قتل ہو رہے تھے۔ پاکستان کی حفاظت کے لئے شہید ہونے والے
بنگالیوں اور بہاری مسلمانوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی اور مشرقی پاکستان
کو بنگلہ دیش بنانے کے لئے بھی بنگالی مسلمان ہی پاکستان کی فوج کے خلاف لڑ
رہے تھے۔ ظاہر ہے اس میں ہمارے ازلی دشمن انڈیا نے بھی اپنا کردار پوری طرح
ادا کیا اور ہم پاکستان کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گئے۔ مشرقی پاکستان کی
ہم سے علیحدگی‘ قائداعظم کے پاکستان کا صرف 24 سالوں میں ٹوٹ جانا ہماری
قومی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔ لیکن ہم عجیب مزاج کی قوم ہے کہ ہم نے
اپنی قومی تاریخ کے سب سے بڑے المیہ سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ ہم نے سقوط
مشرقی پاکستان سے عبرت حاصل کی ہوتی تو آج کراچی اور بلوچستان میں وہ حالات
نہ ہوتے جو ہماری کوتاہ اندیشیوں نے مشرقی پاکستان میں پیدا کر دئیے تھے۔
کراچی اور بلوچستان میں انسانوں کو نہیں قومی سلامتی کو قتل کیا جا رہا ہے۔
حیرت ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ہی اقتدار
میں ہیں۔ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن
برسراقتدار تمام سیاسی جماعتیں مل کر بھی کراچ اور بلوچستان کے بگڑے ہوئے
حالات میں کوئی بہتری لانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہیں۔ کراچی اور بلوچستان
میں قتل ہونے والوں کی شناخت تو بہت آسان ہے کہ ہر سمت‘ ہر کوچے میں ہر گلی
میں ہر گھر میں پاکستانی ہی قتل ہو رہے ہیں لیکن قاتلوں کے چہرے بے نقاب
کیوں نہیں ہوتے اور جب قاتل بے نقاب نہیں ہوں گے تو پھر قاتل پکڑے کیسے
جائیں گے؟ اس صورتحال میں شہزاد منیر احمد کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ
قاتل اگر حکمرانوں کی اپنی صفوں میں شامل نہ ہوتے تو وہ کب کے قانون کی
گرفت میں آچکے ہوتے۔ جب قبیلے کے اپنے لوگ ہی قاتلوں کے بھیس میں ہوں تو
پھر محافظوں اور قاتلوں کا فرق مٹ جاتا ہے۔ چور اور چوکیدار میں شناخت ممکن
نہ رہے تو پھر کارواں کو لٹنے سے کون روک سکتا ہے۔ ہمارا دکھ اور بھی زیادہ
ہے کہ متاع کارواں لٹ جانے کے بعد کارواں کے دل میں احساس زیاں موجود نہیں۔
قوم انتشار کا شکار ہے اور قوم کو منتشر کرنے والے عقل کے اندھے سیاست دان
خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں کہ ان کی سیاسی جماعتیں پہلے سے بڑھ کر عوام میں
مقبول ہو رہی ہیں۔ قوم کو تو اپنے گناہوں کی سزا مل رہی ہے لیکن اپنی اپنی
سیاسی جماعتوں اور اپنے اپنے سیاسی گروہوں کی ”مقبولیت“ اور مضبوطی کے غرور
میں مبتلا سیاست دانوں پر عذاب کب آئے گا۔ قوم کی حیثیت اب سمندر کی تہہ
میں موجود ان کیکڑوں سے مختلف نہیں جو صرف بڑی مچھلیوں کی خوراک بننے کے
لئے زندہ ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ آدھے پروں والا پرندہ جب بھی
اڑنے کی کوشش کرتا ہے تو بلی اسے شکار کر لیتی ہے۔ ہمارے ”راہبروں“ نے پوری
قوم کو آدھے پروں والا پرندہ بنا دیا ہے۔ ہم اڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو
بلیاں ہمیں دبوچ لیتی ہیں۔ ہم سب رات کی سیاہی میں ہی نہیں دن کے اجالوں
میں بھی قتل ہو رہے ہیں۔ اخبارات میں ہمارے قتل کی شہ سرخیاں بھی چھپتی ہیں۔
ٹی وی چینلز بھی ہمارے قتل کی خبریں ”بروقت“ سنا سنا کر بے حال ہو گئے ہیں۔
لیکن ہمارا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا ہے کہ کب ہمارے ان قومی
اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے قاتلوں کے پکڑے جانے کی خبریں بھی ہم تک
پہنچیں گی۔ جب پاکستان دو لخت ہوا تھا تو پوری قوم خون کے آنسوؤں سے رو رہی
تھے۔ اس سے پہلے کہ قوم کو کسی اور قومی سانحے پر خون کے آنسوؤں سے رونا
پڑے ہمیں ان سیاسی مگر مچھوں پر گہری نظر رکھنی چاہئے جو قومی سانحات کے
ذمہ دار بھی خود ہوتے ہیں لیکن مگر مچھ کے آنسو بہا کر قوم کو دوبارہ بے
وقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کیا متاع کارواں لٹنے سے پہلے ہم ان
دانشمندانہ باتوں پر غور و فکر کرنے کے لئے تیار ہیں- |