سربراہ کے بغیر ادارہ ترقی
کرسکتا ہے؟
کسی بھی ملک کی معیشت کا دارومدار وہاں کے اداروں پر منحصر ہوتا ہے ۔اگر
ادارے بہتر انداز میں چل رہے ہیں تو یقیناًملک کی معیشت بہتر ہو گی اور اگر
اداروں میں کام نہیں ہورہا یاوہاں رشوت اقراباپروی اور کرپشن کا بازار گرم
ہو تو اس ملک کی معیشت ملک کو تباہی کے دہانے تک لے جاتی ہے ۔اگر تاریخ کے
اوراق پلٹے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کے ترقی یافتہ ملکوں نے اپنی تمام
تر توجہ اپنے اداروں کی بہتری پر مرکوز رکھی اور ان کو بہتر سے بہترین کی
جانب گامزن کیا۔ اس کا صلہ آج ان کو امن و خوشحالی کی صورت میں مل رہا ہے
چین کی مثال آپ کے سامنے ہے چین جیساملک جوقریباً50سال قبل مایوسیوں میں
گھرا ہوا دنیا کا گندا ترین ملک شمار کیا جاتا تھا۔ وہاں ماؤزے تنگ جیسے
عظیم لیڈر نے اس ملک کو بہتر کرنے کی ٹھانی وہ قوم جس کو افیون کے سوا اور
کچھ نہیں دیکھائی دیتا تھا آج دنیا کے نمبر 1ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہمارے
ہاں اس کے بالکل برعکس حالات ہیں کچھ ادارے تو وہاں کے چیئرمین یا
ایمانداروزیر ہونے کی وجہ سے جیسے تیسے کرتے چل رہے ہیں ۔لیکن دوسری طرف
ملک کے وہ ادارے جن سے بہت سی امیدیں وابستہ تھی ۔وہ سیاست کی نذر ہونے کی
وجہ سے آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ان میں پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ بھی ایک
ایسا ہی ادارہ ہے ۔اس کی حالت کا اندازہ تو مجھے اسی وقت ہو گیا ۔ جب میں
نے اس کی ویب سائٹ کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ ایک طویل عرصے سے اپ ڈیٹ ہی
نہیں کی گئی۔ اس ادارے کی ہسٹری جاننے کے لیے کافی بھگ دوڑ کی لیکن کوئی
خاطر خواہ رسپانس نہیں ملا بڑی تگ و دو کے بعدکچھ مواد میسر آیا۔ جو اس
فیچر کی صورت میں قارئین کے پیش نظر ہے۔ پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ
1947میں تقسیم ہند کے بعد سنٹرل پی ڈبلیو ڈی انڈیا سے ٹرانسفر ہوئی اس کا
شمار بھی انہیں اداروں میں ہوتا ہے جو تقسیم کے بعد ہمیں جہیز کی صورت میں
ملے تھے۔ جن میں ریلوے ،پوسٹ آفس وغیرہ سرفہرست ہے ۔یہ ادارہ فیڈرل گورنمنٹ
کے انڈر کام کر رہا ہے اور یہ منسٹری آف ورکس میں آتا ہے ۔اس ادارے کا
بنیادی کام سرکاری عمارات ،سرکاری ملازمین کی رہائشیوں کو تعمیر کرنا ہے اس
نے اب تک ایک اندازے کے مطابق8000رہائشی مکانات،مارٹن کلفٹن،جہانگیر روڈ ار
لائن ایریا میں تعمیر کی اور مہاجرین کے لیے ملیراور لانڈھی میں کوارٹر بھی
تعمیر کیے۔ کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی،کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی وغیرہ کے
وجود میں آنے سے پہلے ان کے تمام تر معاملات کو بھی پی ڈبلیوڈی دیکھ رہی
تھی۔ اس کے علاوہ اس کے کاموں میں ائرپورٹ اور ٹرمینل تعمیر کرنا بھی ہے
کراچی ، ماری پور، جیکب آباد ائرپورٹ کو اس نے دوبارہ مینٹینس کیا۔ اس کے
علاوہ درگ روڈ کراچی اور اسلام آباد ہائی وے فیض آباد سے زیروپوائنٹ تعمیر
کی۔ 1947 میں اس کے وجود کے بعد اس کو جو ٹاسک دیا گیااس میں جلد سے جلد
سرکاری عمارات اور کوارٹرتعمیر کرنا تھا ۔سرکاری عمارات کی دیکھ بھال ان کو
مینٹین رکھنا اس کے علاوہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ،وزیر اعظم ہاؤس،منسٹر
انکلیو،سپریم کورٹ،جج انکلیو،سٹیٹ گیسٹ ہاوس مری کو مینٹن رکھنا بھی شامل
ہے ر ول آف بزنس 1973کے مطابق مختلف ذمہ داریاں ہیں۔
1۔ہر قسم کے ترقیاتی کام اور تعمیرات اور ان کی بناؤ سجاوٹ۔
2۔وفاقی گورنمنٹ کے تمام آفیسر اور سٹاف کو رہائش گاہیں فراہم کرنا،ان کی
ہائرنگ وغیرہ ۔
3۔سرکاری مکانات اور ہائرنگ وغیرہ وصول اور مقرر کرنا۔
4۔فیڈرل لالجزکا انتظام۔
5۔فیڈرل گورنمنٹ کی زمین اور بلڈنگز کی مینٹینس رکھنا۔
6۔1965آرڈینس کے تحت وفاقی گورنمنٹ کی زمین اور بلڈنگ وغیرہ۔
7۔فیڈرل گورنمنٹ کی زمینوں کے تمام معاملات جن کو لائسنس دیے گئے جیسے
کوپریٹو ہاوسنگ سوسائٹی وغیرہ۔
8۔زمین کو ٹرانسفر کرنا سوا ئے زرعی زمین کے رجسٹری اور کاغذات وغیرہ۔
9۔نیشنل کنسٹریکشن کے متعلق تمام معاملات۔
10۔نیشنل ہاؤسنگ اتھارٹی کا انتظامی کنٹرول۔
راجہ پرویز اشرف کے وزیر اعظم بنے کے بعد اب منسٹری کو دو حصوں میں تقسیم
کر دیا گیا ہے منسٹری آف ورکس اور منسٹری آف ہاوسنگ اب اس کے دو وزیر اور
دو وزیر مملکت ہیں اس چھوٹی سی منسٹری میں چوہدری لیاقت علی بھٹی وزیر ورکس
،رانا آصف توصیف وزیرمملکت منسٹری آف ہاوسنگ کے وزیر سردارطالب حسن نکئی
وزیر مملکت ملک نعمان اقبال نگڑیال ہیں۔پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ یونین
کے جنرل سیکرٹری نذیر احمد جاوید نے نیشنل وژن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ
ہماری یونین خود کفیل ہے پورے ادارے میں اس وقت 14سے 15یونین ہیں ۔دو لوکل
فیڈریشن ایک آل پاکستان فیڈریشن جس کا میں جنرل سیکرٹری ہوں پاکستان پبلک
ورکس ڈیپارٹمنٹ چار حصوں میں تقسیم ہے اس کا ہیڈ آفسG-9اسلام آباد میں ہے۔
نارتھ زون اسلام آباد سنٹرل زون لاہور ویسٹ زون کوئٹہ ساوتھ زون کراچی ۔
ڈیپارٹمنٹ کے 55سے 56ڈویژن ہیں 13سرکل ہیں ۔یونین کا کام ورکر کی ویلفیئر
اور ان کو بہتر سہولیات فراہم کرنا ہے ۔ہمارا ہر دو سال کے بعد ریفرنڈم
ہوتا ہے۔ دو فیڈریشن میں مقابلہ ہوتا ہے پاکستان یوناٹیئڈ پی ڈبلیو ڈ ی
ورکرز فیڈریشن اس کے اندر دو یونین شامل ہیں۔ پاک پی ڈبلیو ڈی عظیم ورکرر
یونین پاک پی ڈبلیو ڈی ورکرز یونینڈاور انقلابی اتحاد ایمپلائز ورکرز
فیڈریشن اس میں تین یونین شامل ہیں انقلاب،اتحاد،ایمپلائز ہمارا ریفرنڈم
نومبر 2011میں ہوا تھا جس میں ہم یوناٹئیڈورکرز یونین فیڈریشن جیتی تھی جو
اس وقت کام کر رہی ہے۔ ادارے کے ایمپلائز ہی یونین میں کام کرتے ہیں اس کے
علاوہ ہمارا کام ورکرز کے مفادات اور ڈیپارٹمنٹ کا تحفظ ہے ۔یونین سٹیک
ہولڈر ہوتی ہے ادارے کے دیگر معاملات بھی ہمارے ہاں زیر بحث آتے ہیں اور ہم
ان کو حل کرنے کی سعی کرتے ہیں جیسے ہر ادارے میں ایک یونین کام کر رہی ہے
ویسے ہی ہم کام کرتے ہیں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ مسائل کسی
بھی ادارے میں مکمل طور پر کبھی بھی ختم نہیں ہوتے یہ چلتے رہتے ہیں اور حل
بھی ہوتے رہتے ہیں۔ادارے کے حوالے سے نذیر احمد جاوید کامزید کہناتھاکہ
دوطرح کے ملازمین یہاں کام کر رہے ہیں۔ ایک وہ جو سول بجٹ سے تنخواہ لے رہے
ہیں جن میں آفیسر ،کلرک،ٹیکنکل سٹاف ان کے تعداد تقریباً3000کے قریب ہے۔
دوسرے شعبہ مینٹینس جو مکمل طور پر فیلڈ پر کام کرتے ہیں جن کی تعداد
8000کے لگ بھگ ہے۔ ان کے واضح ریکرونمنٹ رول نہیں ہیں ان کے پے سکیل اور
مراعات دیگر اداروں کے مقابلے میں نصف بھی نہیں ہیں جو پے سکیل 1947سے تھے
وہی اب تک لاگو ہیں ۔یونین کا اگلا کام ملاز مین کو ان کا حق دلوانا ہے
ہماری کوشش ہے کہ ان ملازمین کے مراعات سی ڈی اے کے برابر ہوجائے اس معاملے
پرکام کر رہے ہیں ۔ادارے کی بہتری کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ
پاکستان پبلک ورکس دیپارٹمنٹ مختلف سیاسی حکومتوں کے اپنے سیاسی مقاصد کی
وجہ سے بہتری نہیں بلکہ تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ اب دیکھیں جو ادارے خود
کفیل ہیں وہ بہتری کی جانب گامزن ہیں ۔ادارے کی تنزلی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے
کہ مختلف سرکاری اداروں نے اپنی عمارات کی مینٹینس خود کرنا شروع کردی ہے
جس وجہ سے پی ڈبلیو ڈی کے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں ۔اس کے علاوہ
پچھلے5سالوں سے یہاں کوئی مستقل سربراہ نہ ہونے کیوجہ سے بھی ادارے کے
حالات خراب ہوئے ہیں۔وزرات ہاوسنگ کے مطابق سیکٹر جی ٹین فور میں ترقیاتی
کاموں کا جلد آغاز ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر پانچ ہزار نئے
فلیٹ کی تعمیر کا عمل شروع ہور ہا جو کہ سرکاری ملازمین میں تقسیم کیے
جائیں گے اسٹیٹ آفس پر 1995سے نئے گھروں کی تعمیر پر عائد پابندی ختم کرنے
کیے سمری وزیر اعظم کو بجھوا دی گئی ہے۔
|
|