صحافت دنیا کا معتبراور مقدس
پیشہ ہے جس کاکام عوام کو ملکی اور غیر ملکی حالات سے آشنا کراناہے۔صحافت
کو دنیا میں بہت اعلیٰ مقام دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی شعبہ
نامکمل ہے ۔سیاستدان سے لیکر ایک عام آدمی بھی صحافت کا محتاج ہے۔ سیاسی
لوگوں کے پروگرام میں اگر صحافی لوگ نہ ہوں تو وہ پروگرام بیکارہوتاہے
کیونکہ صحافت کے ذریعے ہی وہ خبر لوگوں تک پہنچتی ہے۔اس بات سے انکار نہیں
کہ کچھ غلط لوگوں نے اس مقدس پیشے کو بدنام کردیا ہے اور اگر میں یہ کہوں
کہ صحافت کو زردصحافت بنادیا ہے توبھی یہ غلط نہیں ہوگا۔
صحافی کا کام دنیا میں ہونے والے اچھے اور برے کاموں کو مختلف ذرائع (اخبار،
ٹی وی ، ریڈیو، آن لائن اخبار)سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ اگر صحافی برادری
اپنی دیانتی دار سے کام سرانجام دیں تو معاشرے میں کوئی غلط کام کرنے کا
تصورنہیںکرسکتا ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ کچھ دولت مند لوگوں نے اس صحافت کا
غلط استعمال کرنا شروع کردیا ہے ۔وہ لوگوں کو بلیک میل کرکے کرنسی بنا نے
کے چکر میں لگے رہتے ہیںجس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔بہت سے
ایسے نام نہاد صحافی بھی ہیں جو ایسے کرپٹ عناصر سے ماہانہ خرچہ لیتے ہیں ۔
صحافت ایسا پیشہ ہے جس میں انتہائی ایمانداری کے ساتھ کام کرنا چاہیے
کیونکہ صحافی کے قلم سے لکھی ہوئی تحریر عوام کو کہاں کہاں پہنچا دیتی ہے۔
اب تو الیکٹرانک میڈیا نے عوام کو اتنا ایڈوانس کردیا ہے کہ پلک جھپکتے ہی
خبر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے اور اسی میڈیا کے ذریعے صحافی عوام
کے ذہن میں اچھی بری چیز کی نشاندہی کراتے ہیں۔ اگر ہم لوگ درست کام کرنے
پر ان کا ساتھ دیں اور غلط کام کرنے پر اس کی نشاندہی کرکے انہیں ایسا کرنے
سے روکیں تو پھرہمارا پاکستان ترقی کیوں نہیں کرےگا۔
ہر روز ملک میں کسی نہ کسی شہر میں صحافی پر تشدد ، اغوا یا اس کی موت کی
خبر میڈیا کی نظر ہوتی ہے ۔آج میں یہ کالم اس وجہ سے لکھ رہا ہوں کہ کچھ
لوگوں نے اپنی دولت کے بل بوتے پر صحافیوں کو زرخرید سمجھ لیا ہے۔ وہ
جوکریں خواہ اچھا ہے یا برا صحافی لوگ بس ان کے حق میں لکھتے رہےںاور
اگرکوئی صحافی ان کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو وہ غنڈہ گردی کرنا شروع کردیتے
ہیںاوردھمکیاں دیتے ہیں ۔ ان سب سے بڑھ کر وہ اپنے آپ کوکسی سیاستدان یا
بیوروکریس کے ساتھ منسلک کرکے اس کی آڑ میں دو نمبر کام کرتے ہیں۔
آج جب میںنے فیس بک کھولی تو میری وال پر ایک نیوزلگی ہوئی تھی جس میں لکھا
تھا ”آزاد صحافت پر حملہ“۔ جب میں نے اس کو پڑھا تو پتا چلا کہ اسلام آباد
کے ایک نیوز پیپر کی ٹیم پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے۔میں نے چند لمحے کے
لیے سوچا کہ اس ٹیم پر حملہ کرنے کی وجہ کیا تھی؟جب میں نے اس خبر کی تفصیل
پڑھی تو معلوم ہوا کہ وہ صاحب جنہوں نے اس ٹیم پر حملہ کیا وہ پنجاب ہائی
وے ڈیپارٹمنٹ کے سپرینٹنڈنٹ تھے جنہوں نے کرائے کے غنڈوں کے ذریعے اس ٹیم
پر فائرنگ کرائی۔ اس غندہ گردی کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس اخبارکی ٹیم نے ان
کے کالے کارناموں کو اپنے اخبار میںچھاپا ہے جس کی وجہ سے اس کی معاشرے میں
نیک نامی ہوئی اور اب وہ خبرپبلش کرنے کے پاداش میں اس ٹیم کوسبق سکھانا
چاہتے تھے کیونکہ اس اخبار کی ٹیم نے ان سے نہ کوئی منتھلی لی اور نہ کوئی
مک مکا کیا۔بلکہ خبر چھاپ کر گناہ کبیرہ کردیا۔
جن صاحب پر حملہ کیا گیا وہ کون تھا ؟وہ غازی گروپ آف نیوز پیپرکے چیف
ایگزیکٹیو، کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے بانی و چیئرمین اور مبلغ اخبار کے
چیف ایڈیٹر غازی شاہد رضا علوی تھا۔کالمسٹ کونسل آف پاکستان وہ کونسل ہے جو
صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک انٹرنیشنل کونسل ہے جس کے کالمسٹ
دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنی قلم کے ذریعے آزاد صحافت کا جھنڈا گاڑھ رہے
ہیںاوراپنے پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں۔ جیسے ہی یہ خبرکونسل کے ممبران
تک پہنچی تو پاکستان سمیت دنیا بھر سے کالمسٹ کونسل کے ممبران نے اپنے چیئر
مین سے فون کرکے ناصرف خیریت دریافت کی بلکہ ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے
ہوئے اعلان کیا کہ وہ اس غنڈہ گردی کے خلاف ہر فورم آوازبلند کریں گے۔
آج کے دور میں جہاں ہر طرف پہلے ہی بڑی لوٹ مار ہورہی ہے وہاں صرف صحافت ہی
ایسا پیشہ ہے جو اس کی نشاندہی کرکے روک سکتا ہے۔صحافی لوگ اپنی قلم کے
ذریعے ہی حکام بالا تک آواز پہنچا سکتے ہیں۔ اگر اس اخبار کی ٹیم نے کرپشن
کی نشاندہی کردی تو بجائے اس کے کہ ایسے عناصر کے خلاف حکومت کوئی کاروائی
کرتی الٹا وہ ہی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگرصحافی برادری دیکھے اور سوچے تو یہ
ایک ٹیم پر قاتلانہ حملہ نہیں ہے بلکہ یہ پوری صحافی برادری پر حملہ ہے ۔
آج اس ٹیم کے ساتھ یہ حرکت ہوئی ہے کل کو یہ حرکت کسی اور صحافی بھائی کے
ساتھ ہوسکتی ہے ۔ ولی بابر جیسے کئی صحافی اپنی فرائض اداکرتے ہوئے اپنی
جان کا نظرانہ پیش کرچکے ہیں مگر آج تک ان کے قاتل کا پتہ نہیں چل سکا۔ کون
ہے جو ان صحافیوں کی جان کی حفاظت کرے گا؟ حکومت پاکستان اور چیف جسٹس آف
پاکستان کو فوراً سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے ایسے عناصر خواہ وہ کسی بھی
سیاستدان کے رشتہ دار ہوں یا بیوروکریس کے ان کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے
تاکہ آزاد صحافت سے پاکستان کا حسن چمکتا رہے۔ |