پاک،افغان عوام امن کے طالب ہیں

دو سال قبل شمالی اتحاد کیجانب سے مفاہمتی عمل کےلئے سنجیدگی کا نہ ہونا، تمام افغان طالبان گروپس سے مثبت مذاکرات کرنے میں حائل تھا تاہم پاکستان، امریکہ سمیت تمام افغان طالبان کومذاکرت کی میز پر آنے اور امریکہ، برطانیہ کی طالبان رہنماﺅں کی رہائی پر اتفاق رائے سے ایک فرق بہت نمایاں ہوگیا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں تسلیم کرچکی ہیں کہ افغان جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے اور برسا برس کی جنگ کے بعد بھی مذاکرات کےلئے مل بیٹھنا ایک اہم اقدام ہے ۔ ہمیں اس بات پر شکوک و شہبات کااظہار نہیں کرنا چاہیے کہ کیسے رہا کیا جا رہا ہے اور کیسے رہا نہیں کیا جارہا ، لیکن اس بات پر یقین ضرور ہے کہ جب تک افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا ،اس کے بغیر پاکستان میں بھی امن قائم نہیں ہوسکے گا ۔گو کہ اطلاعات کے مطابق عسکری میدان مین ڈیڈ لاک کی صورتحال موجود ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی اہمیت کو بھی سر جھکا کر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ ،چاہیے جتنی بھی طاقت استعمال کرلی جائے ، پاکستان کی شمولیت کے بغیر افغانستان میں امن کا قیام ناممکن عمل ہوگا ۔

پاکستان کیجانب سے بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے یہی تحفظات زیر بحث رہے کہ آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ طویل ترین سرحدوں کی نگرانی کےلئے افغان فوج کا کردار مناسب نہیں ہے اور در اندازوں کو پاکستان کی سرحد کے ذریعے داخل ہونے میں ناکامی سے پاکستانی فوج کو ایک بڑے معرکے میں فوج کے بڑے حصے کو ملوث کردینا ، مملکت کی دوسری جانب سرحدوں کو کمزور بنا دینے کے مترادف ہوگا ،جبکہ پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کی کاروائیوں کی بنا ءپر ملکی سلامتی پہلے ہی خطرات میں ہے ۔ معاشی طور پر پاکستان کو اربوں ڈالرز کے نقصان کا سامنا ہے ، سازش کے تحت اقتصادی شہر میں سرمایہ کاری بند ہوچکی ہے ، بلوچستان علیحدگی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔ پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے بڑے نیٹ ورک کی وجہ سے بھارت اور فرقہ وارانہ مسالک کی حمایتی عرب وعجم کے ساتھ تعلقات کشیدہ تر ہونے کے خدشات ہمہ وقت موجود ہیں، تو اس صورتحال میں جب پاکستان اکیلا دوسروں کی جنگ کو لڑ رہا ہے اور اب یہ جنگ اس کی اپنی جنگ بھی بن چکی ہے تو افغانستان میں جلداز جلد امن کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے۔پاکستان کیجانب سے افغانستان میں قیام امن اور مصالحتی کوششوں میں کچھ طالبان نمائندوں کو رہا کرنے کا عمل بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے حمایت کا ہی نتیجہ ہے کیونکہ امریکہ ،افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے ۔

اسلام آباد میں موجود افغان وفد کے اہم رکن نصر اللہ سنکزئی اور پاکستانی وزارت خارجہ بھی طالبان کو رہا کرنے کی تصدیق کر چکے ہیں ، جبکہ غیر جانبدارا حلقوں کی جانب سے حالیہ عمل کو امن کے قیام کےلئے ناگزیر قرار دیا ہے ۔ امریکہ،افغان کی دس سالہ جنگ میں، افغانستان ویسا ہی ہے لیکن امریکہ، تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔ جبکہ پاکستان کو امریکی اتحادی بننے کی بڑی سزا مل رہی ہے ۔ اگر اس صورتحال میں افغان رہنما واپس افغانستان جاکر قیام امن کےلئے کوئی کوشش کر سکتے ہیں ،تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہوگا ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ناظم الامور رچرڈ ہوگلینڈ نے تسلیم کیا ہے ،کہ افغانستان کے مفاہمتی عمل میں پاکستان کا کردار اہم ہے۔انھوں نے افغان اعلی امن کونسل اور پاکستان عہدے داروں کے کامیاب مذاکرات کو مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔ ہمیشہ سفارتی بیک ڈور چینل میں خفیہ سفارت کاری میں کامیابی کے بعد ہی دنیا کے سامنے اداکاری کی جاتی ہے کہ فلاں میٹنگ کے بعد یہ فیصلہ ہوا ہے ۔ تاہم عام عوام کو اس سے غرض نہیں ہے کہ مذاکرات کی موجودہ صورتحال میں کس کا ،کیا کردار اہم ہے۔ پاک، افغان عوام ہر صورت اپنے ممالک میں امن کے خواہاں ہیں اور امریکہ سمیت نیٹو افواج کی اپنے ممالک میں لاحاصل جنگ کے بعد واپسی چاہتے ہیں۔انھیں محفوظ راستہ دیتے وقت پاکستان کے امن کو ،پہلے ترجیح دےتے ہوئے ضمانت لینا انتہائی ضروری ہے۔

افغانستان میں اب بھی کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کا مفاد جنگ سے وابستہ ہے ، لیکن اپنی مملکت کےلئے آزادی کی جنگ لڑنے والے، یقینی طور پر چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں کسی بھی دوسرے ملک کی دخل اندازی نہ ہو ، افغانستان میں دس سال تو کیا، سو سال جنگ کے بعد بھی سب کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا ۔ پاکستان کا وجود جب تک ہے، امریکہ سمیت پوری دنیا کو اس کے کردار کو تسلیم کرنا ہوگا اور ماضی میں پاکستان کا ،جو بھی کردار رہا ہو اس سے قطع نظر، آج کا پاکستان ماضی کے مقابلے میں خون میں لت پت اور دہشت گردی کے ریگستان میں دھنسا ہوا ہے۔ 80کی دہائی میں پاکستان کا کردار، جیسا بھی تھا لیکن اب سابقہ پالیسوں کو جاری رکھنے کا مطلب، پاکستان کے موجودہ حصے کو بھی کھو دینا ہوگا ۔ اگر پاکستان کو کرم خوردہ اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بجائے، قائد اعظم کے اس بچے کچے خواب کو صحیح سلامت رکھنا مقصود ہے تو ،پھر پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسوں میں تبدیلی کرتے رہنا ہوگی کیونکہ 80 اور90کی دہائی کے تجربات نے پاکستان کا نقشہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔

کراچی ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سنگین مسائل کےساتھ، پاکستان کی بقا کےلئے سنجیدگی کے متقاضی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بین لاقوامی قوتیں، پاکستان کی سلامتی کے خلاف، ایسے اندرونی شر پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ پاکستان کو یکجا رکھنا ہے تو پھرماضی کی، پاکستانی خارجہ پالیسی کو جرت مندی سے تبدیل کرتے رہنا ہوگا ۔ پاکستان کو مضبوط بنانا ہے، تو پہلے گھر میں لگی آگ بجھانے کےلئے اسباب پیدا کئے جائیں ۔ طاقت کے استعمال میں جب دنیا کے بڑی قوتیں، دس سالوں میں ناکام ہوچکی ہیں تو، پاکستان اکیلا کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے؟ ۔افغان طالبان ، افغانستان کے نمائندے ہیں، ان سے مذاکرات اہم پیش رفت ہے ،ہمیںبھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی ۔یہ خطے میں امن کیساتھ خود، ہماری حفاظت اور پاکستانی عسکریت پسندوں کی سرکوبی کےلئے ضروری ہے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 264106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.