پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل
عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ فوج حالات سے باخبرہے اور کوئٹہ جانے سے فوج
کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔انتخابات کے التوا سے فوج کو کوئی سروکار نہیں
ہے۔انہوں نے واضع کیا کہ فوج ملک میں آزادانہ ، غیر جانبدارانہ اور بروقت
انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔
ان لوگوں کے لیے یہ بات یقینا باعث اطمینان ہے جوملک کی معاشی اور امن
وامان کی صورتحال خراب ہونے کے بعدسے فوج کی جانب دیکھ رہے ہیں اور فوج سے
یہ امید رکھتے ہیں کہ ضرورت پڑھنے پرفوج سرحدوں کے ساتھ ملک کے اندرونی
معاملات کی اصلاح کے لیے بھی اپنا کردار اد کرےگی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی
نے فوج کو سیاست سے دور رہنے کا حکم دیدیا تھا اور فوجی افسران پر سیاسی
شخصیات سے ملاقات پر پابندی لگادی تھی ۔جنرل کیانی نے متعد د مواقعے ملنے
کے باوجود اپنی پالیسی کے مطابق فوج کو سیاسی اور اقتدار کے ایوانوں سے دور
رکھا جس کے نتیجے میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری اور منتخب حکومت
اپنا پانچ سالہ دور مکمل کرنے کی طرف گامزن ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس جمہوری
دور میںجمہور کے ساتھ جس قدر ظلم و زیادتی ہوئی اس کی مثال ماضی میں نہیں
ملتی۔
پرویز مشرف نے اپنے ڈکٹیٹر کم ڈیموکریسی کے آخری دور میںایک موقع پر کہا
تھا کہ ” ہمارا ملک عالمی میعار کی جمہوریت کا متحمل نہیں ہوسکتا“۔ اگرچہ
پرویز مشرف کے اس جملے کو ان کی منافقانہ سوچ سے تعبیر کیاجاتا رہا تھا
لیکن قوم کو اس پانچ سال کے دوران تقریباََ روزانہ ہی یہ جملہ خود جمہوریت
پسند حکمران اپنے رویوں اور اقدامات سے یاد دلاتے رہے۔عوام اس جمہوریت سے
اس قدر بیزار ہوچکے ہیں کہ اب وہ مزید اس طرح کی جمہوریت یا ایسے حکمرانوں
سے پناہ مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کراچی ،پشاور اور کوئٹہ جہاں حکومتی
اتحادی جماعتوں کا غلبہ رہا کے باشندے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری ، بم دھماکوں
،اغوا برائے تاوان کی وارداتوں اور ڈرون حملوں سے اس قدر پریشان رہے کہ اب
یہاں کے لوگ روزانہ ہی فوجی جوانوں کی آمد کاانتظارکرتے رہتے ہیں ۔لیکن فوج
کے ترجمان یہ نے وضاحت کرکے فی الحال قوم کو ” ٹھنڈا “ کردیا کہ جب فوج
گزشتہ پانچ سال سے جمہوریت کی حمایت کررہی ہے تو اب اس دور کے آخر میںحمایت
کیوں تبدیل کرے گی۔اس کا مطلب واضع ہے کہ آئندہ ماہ مارچ تک یعنی موجودہ
جمہوری دور کے ختم ہونے تک فوج کی جانب سے کسی روایتی کارروائی کا کوئی
امکان نہیں ہے۔ فوجی ترجمان نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ کوئٹہ یا کسی بھی شہر
میں فوج کو خدمات انجام دینے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔
فوج کے ترجمان کا بیان کہ پاک فوج جمہوریت کی حمایت آئندہ بھی کرتے رہے گی
یہ بات ان لوگوں کے لیے بھی ایک خوش ائند پیغام ہے جو لگے لپٹے الفاظ میں
یہ اطلاعات دیا کرتے ہیں کہ دو ڈھائی سال کے لیے ملک میں غیر آئینی یا
غیرجمہوری نظام لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔میراخیال ہے کہ فوج اس بار جمہوری
نظام کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش نہیں کرے گی اسی طرح جیسے گزشتہ پانچ سالوں
کے دوران فوج نے جمہوری حکومت کے معاملے پر آنکھیں بند رکھ کر ” عوامی
نمانئدوں ‘ ‘ کو اپنی کارکردگی دکھانے کا بھر پور موقع دیا۔اب اگر پوری قوم
ان جمہوری حکمرانوں سے تنگ آچکی ہے تو فوج کیا کرے؟فوج کے پاس کوئی آپشن
بھی تو نہیں ہے؟اگر فوج عوام کی محبت میں مداخلت کرتی تو یقینا اس کی
پذیرائی کے بجائے اس پر انگلیاں اٹھائی جاتی۔فوج نے حقیقی جمہوریت کی بحالی
اور اس کے استحکام کے لیے جو کردار اد ا کیا وہ قابل تحسین ہے۔یہ اور بات
ہے کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او)کا فیصلہ
فوج کا ہی تھا اور فوج نے ہی اس ضمن میں بے نظیر ، نوازشریف اور دیگر سیاست
دانوں سے مذاکرات کیے تھے۔
اگر این آر او نہیں لایا جاتا تو یہ کرپٹ اور کریمنل سیاستدان کسی طور پر
موجودہ جمہوریت کاحصہ نہیں بن پاتے ، سب سے بڑھ کر آصف علی زرداری صدر نہیں
ہوسکتے تھے ۔پرویز مشرف بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ این آر او کا فیصلہ غلط
تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس غلطی کے نتیجے میں پورا جمہوری دور ہی خراب
رہا تو اس کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟یقینا اس کی ذمہ داری بھی ان ہی
لوگوں کی ہے جنہوں نے ایسے کرپٹ لوگوں کے ساتھ مفاہمت کرکے انہیں ملک کی
سیاست میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا تھا۔
نئے انتخابات شیڈول کے مطابق مئی تک مکمل ہوجانے چاہئے۔ان انتخابات کے
پرامن انتخابات کے لیے فوج کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ضرورت
اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن نا صرف امن وامان بحال رکھنے بلکہ دھاندلی کی
شکایات روکنے کے لیے بھی خصوصی طور پر فوج کو ٹاسک دے ۔اگر ایسا نہیں کیا
گیا تو خدشہ ہے کہ فوج کی موجودگی میں دھاندلی کرائی جائے گی جس سے فوج
بلاوجہ بدنام ہوگی۔اگر الیکشن کے دوران دھاندلی ہوئی یا کرانے کی کوشش کی
گئی تواس بار خدشات ہیں کہ ہنگامہ آرائی تصور سے زیادہ ہوگی۔ جس کا نتیجہ
انتہائی خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔تاہم حساس اداروں کو یہ معلوم ہوگا اور ہونا
بھی چاہئے کہ کونسی جماعت کہاں گڑ بڑ کراسکتی ہے؟ اس لیے ان پولنگ اسٹیشنوں
پر زیادہ بہتر اقدامات کیے جائیں جہاں کسی بھی قسم کی گڑبڑ کے امکانا ت ہیں
۔کسی بھی ادارے کی جانب سے کمال یہ نہیں ہے کہ اس نے جمہوریت کی حمایت کی
بلکہ کمال کی بات یہ ہوگی کہ اس ادارے نے شفاف ، آزادانہ اور غیر
جانبدارانہ انتخابات کے لیے کیا کردار ادا کیا۔ جمہوریت کی بحالی اور
استحکام کے لیے فوج نے غیر معمولی کردار ادا کیا لیکن قوم کو توقع ہے کہ
منصفانانہ اور آزادانہ ماحول میں فوج انتخابات کا انعقاد کرواکر ایک نئی
تاریخ رقم کرے گی۔
اس بات کے امکانات واضع ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے ”آف دی ریکارڈ اور آن
دی ریکارڈ“ اتحادیوں کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح انتخابات کو ملتوی کرادیا
جائے ۔اس مقصد کے لیے کوئی ایسا نگراں وزیر اعظم کو بھی لایا جاسکتا ہے جو
متنازعہ بن جائے ،ایسی صورت میں بھی انتخابات کے انعقاد میں روڑے اٹکائے
جاسکتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ نگران حکومت خود بھی الیکشن کو طول دے سکتی
ہے ۔ان دونوں صورتوں میں فوج کو کیا کرنا چاہئے یہ بہت اہم سوال ہے؟ یاد
رہیں کہ پاکستان کے نئے انتخابات پوری دنیا خصوصاََ غیر اسلامی قوتوں کے
لیے بہت اہم اور دلچسپی کا باعث ہیں۔ اس لیے ایک آدھ نہیں بلکہ کئی خدشات
موجود ہیں ،ان انتخابات کا انعقاد صرف پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادیوں و
حمایتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں
ہے۔انتخابات سے قبل مجھے اس بات کا بھی ڈر ہے کہ کسی بھی جانب سے ایسا بھی
کچھ کیا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں فوج ایک بار پھر اقتدار میں آنے پر
مجبور ہوجائے۔ اس لیے ہر عنصر کو ملک و قوم کے مفاد میں مکمل ایمانداری کے
ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہنا ضروری ہے- |