وزارت عظمیٰ فار سیل

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عامر کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو حسنہ اسلم بن اکیس ؒکہتے ہیں ایک صاحب حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کی خدمت میں گئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو اُنہوں نے کہا کہ اے ابو عبیدہؓ ! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حضرت ابو عبیدہؓ نے کہا اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ ایک دن حضورﷺ نے ان فتوحات اور مال غنیمت کا تذکرہ کیا جو اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو عطا فرمائیں گے۔ اس میں ملک شام فتح ہونے کا بھی ذکر فرمایا اور فرمایا اے ابو عبیدہ ؓ اگر تم (ان فتوحات تک) زندہ رہے تو تمہیں تین خادم کافی ہیں۔ ایک تمہاری روزمرہ خدمت کیلئے دوسرا تمہارے ساتھ سفر کرنے کیلئے اور تیسرا تمہارے گھر والوں کی خدمت کے لئے جو اُن کے کام کرتا رہے اور تین سواریاں تمہیں کافی ہیں۔ ایک سواری تمہارے گھر کیلئے ۔ دوسری سواری تمہارے اِدھر اُدھر جانے کیلئے ، تیسری سواری تمہارے غلام کے لئے (اب حضورﷺ نے تو تین خادم اور تین سواریاں رکھنے کو منع فرمایا تھا) اور میں اپنے گھر کو دیکھتا ہوں تو وہ غلاموں سے بھرا ہوا ہے اور اپنے اصطبل کو دیکھتا ہوں تو وہ گھوڑوں اور جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ اب میں اِس کے بعد حضورﷺ سے کس منہ سے ملاقات کروں گا جبکہ آپ نے ہمیں یہ تاکید فرمائی تھی کہ تم میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب اور میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہو گا جو (قیامت کے دن ) مجھے اسی حال میں ملے گا جس حال میں مجھ سے جدا ہوا تھا۔

قارئین! قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں واضح طور پر احکامات موجود ہیں کہ حکمرانوں کا اندازِ زندگی کیا ہونا چاہیے اور رعایا کا طرز زندگی کس نوعیت کا ہونا چاہیے۔ ریاست کے فرائض اور ذمہ داریوں کے تعین کے ساتھ ساتھ رعیت کو بھی واضح طور پر راہنمائی فراہم کی گئی ہے کہ اُن کا رہن سہن اور طرزِ زندگی کیا ہونا چاہیے۔ آج ہم جس موضوع پر بات کرنے لگے ہیں بحیثیت کشمیری ہم اِس پر انتہائی شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ آزادی کے بیس کیمپ میں یہ طے کیا گیا تھا کہ آزاد کشمیر میں ایسی حکومت قائم کی جائے گی جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط اور جبر میں رہنے والے بہن بھائیوں کو آزادی کی منزل دلوانے کے لئے انقلابی کردار ادا کریں گے۔ سردار ابراہیم خان غازی ملت (مرحوم) کی زیر سربراہی پہلی انقلابی حکومت کا مشن اور پیغام یہی تھا۔ لیکن وقت گزرتا گیا اور آزادی کے بیس کیمپ میں رہنے والوں کی ترجیحات تبدیل ہوتی گئیں۔ آج کل آزاد کشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک ایسی حکومت برسر اقتدار ہے کہ جو بار بار یہ بات دہراتی ہے کہ ہمارا تعلق اُس جماعت سے ہے کہ جس کے بانی قائد نے کشمیر کی آزادی کیلئے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کی بات کسی عام فورم پر نہیں بلکہ سیکیورٹی کونسل میں اقوام متحدہ میں شامل پوری عالمی برادری کے سامنے دہرائی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کا کشمیر کے حوالے سے فلسفہ اپنی جگہ لیکن اپوزیشن جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ ن آزاد کشمیر اور مسلم کانفرنس یہ بات بار بار دہراتے ہیں کہ پاکستانی آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو شہید نے آزاد کشمیر میں بھی عبوری آئینی ایکٹ 1974 دیا اور آزاد کشمیر کا نظام چلانے کے لئے وہ فارمولا متعارف کروایا کہ جس نے آزادی کے بیس کیمپ کی انقلابی حکومت کی ہیئت ہی بدل کر رکھ دی۔ سردار عبد القیوم خان مجاہد اوّل ، سردار عتیق احمد خان ، راجہ فاروق حیدر خان ، سردار خالد ابراہیم سے لے کر دیگر قائدین FM93ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘ میں اِس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے برملا اِس بات کا اظہار کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے عبوری آئین ایکٹ 1974ء اُس وقت کی اپنی مخالف آزاد کشمیرکی حکومت اور سردار عبد القیوم خان مجاہد اول کے پر کاٹنے کے لئے نافذ کیا تھا۔

قارئین! الزامات اپنی جگہ اور اُن کی صفائیاں اپنی جگہ، لیکن ہم اِس بات پر دل سے یقین رکھتے ہیں کہ 1947ء میں جو انقلابی حکومت قائم کی گئی تھی اُس حکومت اور موجودہ حکومتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے صحافت میں اُستاد گرامی اور خضرِ راہ راجہ حبیب اﷲ خان ہمیشہ ہماری راہنمائی کا فریضہ انتہائی محبت اور حکمت کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور سخت سے سخت بات بھی انتہائی پیار اور نرمی سے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ہمیں اِس طرح سیکھاتے ہیں کہ بات بھی عیاں ہو جاتی ہے اور عزتِ انصار بھی متاثر نہیں ہوتی۔ راجہ حبیب اﷲ خان نے مختلف انٹرویوز کے دوران وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری عبد المجید ، صدر آزاد کشمیر سردار یعقوب خان اور سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان سے انتہائی نرمی سے چند ایسے سوالات پوچھے کہ جن کے جوابات ششدر کر دینے والے تھے۔یہ بات ہم پر اچھی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ آزاد کشمیر میں جو بھی حکومت بنتی ہے وہ وفاقی حکومت اور فوج کے مختلف اداروں کی مشاورت کے بعد سامنے آتی ہے۔ کسی قدر حصہ ، کسی حد تک ووٹرز کا بھی ہوتا ہے جو ایک دفعہ ووٹ دینے کے بعد اگلے پانچ سال کیلئے مداری تماشے کا حصہ بن جاتے ہیں۔

قا رئین! اِس وقت آزاد کشمیر میں ایک عجیب و غریب صورتحال ایک مرتبہ پھر پیدا ہو چکی ہے اور اِس کا تعلق بدقسمتی سے پاکستانی انتخابات کے ساتھ ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2013ء کے پاکستانی انتخابات میں غالب امکان ہے کہ مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں برسر اقتدار آ جائے گی۔ اگرچہ اُنہیں حکومت بنانے کے لئے اتحادی جماعتوں کا سہارا لینا پڑے گا لیکن حکومت تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ ن ہی کی بنے گی۔ یہاں پر آزاد کشمیر کے لئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان پیدا ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تو تاریخ کا سبق ہے کہ آزاد کشمیر میں صرف بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی حکومت ایک ایسی حکومت تھی کہ جس کے دوران وفاق میں چار حکومتیں بدلیں لیکن وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری آزاد کشمیر میں کامیابی کے ساتھ اپنی حکومت چلاتے رہے۔ اب صورتحال ایسی نہیں ہے۔ اگر مسلم لیگ ن پاکستان میں واقعی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ بات لکھ لیجئے کہ آزاد کشمیر میں وزیر اعظم چوہدری عبد المجید کی حکومت فراغت پا جائے گی اور ’’اصولوں‘‘ کی خاطر کافی سارے ارکان اسمبلی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی قیادت میں پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنا سکتے ہیں اور اُس کی بھی وجہ شاید سب کے سامنے ہے۔ 26 جون 2011ء کے انتخابات سے پہلے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو وفاقی حکومت کے اشارے پر ایک وزیر اعظم جتنا پروٹوکول دیا جاتا رہا۔ الیکشن جیتنے کے بعد جب وزرات عظمیٰ کیلئے مناسب ناموں پر غور کیا جا رہا تھا تو اُس وقت تک بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ، چوہدری ےٰسین اور چوہدری عبد المجید کے درمیان مقابلہ تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ہم نے اُسی مرحلے پر ’’وزارت عظمیٰ کی نیلامی‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس میں ہم نے انکشاف کیا تھا کہ آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کیلئے اُمیدواروں بولیاں طلب کی جا رہی ہیں۔ آج بھی شاید وہی مرحلہ دوبارہ آن پہنچا ہے کیونکہ وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی بھی اِس سیچویشن کو بھانپ چکی ہے کہ وفاق میں مسلم لیگ ن کے برسراقتدار آنے کی صورت میں چوہدری عبد المجید کا اقتدار اور پیپلز پارٹی آزاد کشمیر دونوں خطرے میں پڑ جائیں گے۔ سیاسی ماہرین نے تجزیہ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ اِس کا ایک ہی حل ہے کہ آزاد کشمیر میں وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کا صدر کوئی ایسی شخصیت ہونی چاہیے جو میاں محمد نواز شریف کیلئے قابلِ قبول ہو اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اِس صورتحال میں موزوں ترین اُمیدوار ہیں۔ سیاسی ماہرین اور سب سے بڑھ کر ہمارے اُستاد گرامی راجہ حبیب اﷲ خان نے اپنے تجزیے میں واضح طور پر یہ تحریر کیا ہے کہ آزاد کشمیر میں ’’پاؤنڈ پالیٹکس‘‘ کا پاور راؤنڈ شروع ہو چکاہے اور وزارت عظمیٰ کے اُمیدواروں سے اِس حوالے سے دریافت کیا جا رہا ہے کہ وہ کس حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ پوری کشمیری قوم کیلئے انتہائی ذلت اور توہین کا مرحلہ ہے۔ بقول ساغر صدیقی
صُراحی جام سے ٹکرائیے برسات کے دن ہیں
حدیثِ زندگی دُہرائیے برسات کے دن ہیں
سفینہ لے چلا ہے کس مخالف سمت کو ظالم
ذرا ملاح کو سمجھائیے برسات کے دن ہیں
کسی پُر نور تہمت کی ضرورت ہے گھٹاؤں کو
کہیں سے سروشوں کو لائیے برسات کے دن ہیں
بہاریں اِن دنوں دشتِ بیاباں میں بھی آتی ہیں
فقیروں پر کرم فرمائیے برسات کے دن ہیں
سُہانے آنچلوں کے ساز پر اَشعار ساغر کے
کسی بے چین دھن میں گائیے برسات کے دن ہیں

قارئین! ہمیں اُمید ہے کہ سات لاکھ کشمیری شہداء کے خون کی لاج رکھتے ہوئے ذلت کے اِس سودے سے گریز کیا جائے گا ۔ جو قومیں چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے بڑے بڑے مقاصد کو قربان کر دیتی ہیں وہ دنیا میں کبھی بھی عزت کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتیں۔ عوام اپنا امتحان 26 جون 2011ء کو دے چکے ہیں اب معزز اراکین قانون ساز اسمبلی اور قیادت کا امتحان شروع ہو چکا ہے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے کہ
جج نے انتہائی غصے سے ملزم سے پوچھا
آخر تم نے اُس شخص کی جیب کیوں کاٹی؟؟
ملزم نے انتہائی اعتماد سے جواب دیا ’’جناب والا میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں کہ نہیں‘‘۔

قارئین! شاید ایمان فروش قیادت بھی آج تک اِسی لیے ایمان فروخت کرتی رہی ہے کہ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ یہ کام کر سکتی ہے کہ نہیں۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374575 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More