ہمارے ملک میں یوں تو تعلیمی
معیار اچھا نہیں لیکن پھر بھی یہاں کچھ عقل و فہیم والے لوگ پائے جاتے
ہیںاور اگر انکی صیح طور پر رہنمائی کی جائے تو تعلیمی شعور کے ذریعے
انسانی قدروں کی آگاہی ممکن بنائی جا سکتی ہے ۔اُن معاشرتی برائیوں سے
چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے جن کی بناپرانسان انسانیت کے معیار سے گِر کر خود
کو جانوروں کی بدترین صفوں میں شامل کرلیتا ہے۔پاکستان اور اِس جیسے چند
ایک ممالک کو چھوڑ کر دیکھیں تو باقی تمام ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں
اور اس ترقی کی بڑی وجہ اُن ملکوں میں انسانی اقداروں کی حوصلہ افزائی ہے
جہاں تعلیمی معیار کو سب کے لیے یکساں لازمی اور قابلِ فہیم بناکر پیش کیا
جاتا ہے۔ سلیقے اور طریقے کی بنیاد پر اصولوں پر مبنی تعلیمی شعور کو اجاگر
کرنا اولین ترجیح سمجھی جاتی ہے۔ ایسے میں انسان کسی بھی جگہ کسی بھی خطے
یا ملک میں بحیثیت قوم بن کر معاشرتی برائیوں سے اس خطئے کو پاک رکھتا ہے
اور مزید یہ کہ جہاں معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کرتا ہے وہاں معاشرتی
اچھائیوں کا سبب بھی بنتا ہے ۔ جس سے صحت مند اعلیٰ سوچ رکھنے والا ایک
فکری معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں ہم بحیثیت
قوم اپنی معاشرتی قدروں کو بھول کر انسانیت کے بلند درجات کو چھوڑ کر
حیوانیت کے اس معیار کو چھو چکے ہیں جہاں صرف و صرف جانوروں کی بدترین صفیں
بندھی ہیں۔جسکی بڑی وجہ ہمارے ملک میں رہنے والے عام آدمی کوایک سازش کے
تحت تعلیمی درسگاہوں سے دور رکھ کراس کی سوچ کو مفقود کر دینا ہے۔جس کی وجہ
سے سیاسی و سماجی شعور سے نابلد سماجیت کے تصور سے عاری یہ قوم انسانیت کی
تذلیل کرتی ایک ایسے مخصوص طبقے کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے جو غلامانہ
نظریہ کے حامی ہیں۔جو رعایا کو صرف اپنے مفاد ات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتے
ہیں اور انکی سوچوں کو کسی طور پنپنے نہیں دیتے یہاں تک کہ مارے ڈر کے کہ
کہیں رعایا انکے ساتھ شریکِ اقتدار نہ بن بیٹھے انھیں تعلیمی و سماجی
شعورکی ایک ہلکی سے بھی ہوا لگانامناسب نہیں سمجھتے ۔جس کی تازہ مثال آپ نے
ایک سنیئر وزیر کے معتصبانہ بیان کی صورت میں دیکھی ۔ قارئین اب آپ خود
اندازہ کریں جب حاکم اپنی رعایا کو صرف اس وجہ سے لاشعوری کی دلدل میں
دھکیلے رکھیں کہ کہیں شعورِ آگہی اس کے تخت و تاج کو زمیں بوس نہ
کردے۔سوچیں اس سے بڑا ظلم اس قوم پر کیا ہوگا۔لہذاتعلیم سے دوری کی بنا پر
آہستہ آہستہ یہ ظالمانہ غاصبانہ سوچ رعایا میں بھی منتقل ہو جاتی ہے جو
قوموں کے تصادم کی صورت میں سامنے آتی ہے اور پھر کل تک جو صرف حکمران ہی
اپنی رعایا پر ظلم و جبر کی بارش کرتے نہ تھکتے تھے بعد میں رعایا بھی آپس
میں مختلف گروپوں کی شکل اختیار کئے قوموں میں نسلوں میں بٹ کر ایک دوسرے
کے حقوق غصب کرتے پھرتے ہیں جس کی مثالیں ہمارے ملک کے چاروں صوبوں میں کسی
نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔جس کی حالیہ مثال سندھ میں بلدیاتی نظام کے
خاتمے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے کوئی کسی کے حقوق غصب کر کے خوش ہورہا
تھا تو کوئی مظلوم بن کر رورہا تھا ۔اور ظالم جابر عوام سے عوام کو لڑا کر
خوش ہورہا تھے اپنی حاکمیت کی نئی راہ ہموار کررہے تھے ۔لیکن ایسے حکمران
یہ جان لیں عوام کے حقوق کو کوئی کب تک غصب رکھ سکتا ہے ۔تاریخ اٹھا کر
دیکھ لیں جابر و ظالم کا انجام پڑھ کر دیکھ لیں اور کوئی ایسی تاریخ بتادیں
جس میں جابر نے شہنشاہیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے نام کر لیا ہو۔یاد
رکھیںجو قومیں اپنی تہذیب و تمدن کی خاطر ہم آواز ہونا جانتی ہیںوہ اپنے
مقصد و مرتبے کو ضرورپہنچتیں ہیں۔آخر میں میں اُن میڈیاکے ستاروں سے ریاستی
اداروں سے جمہوریت کے پرستاروں سے حکومت کے وفاداروں سے صرف اتنا پوچھنا
چاہونگا کہ جو لوگ جمہوریت کا نورانی قائدہ پڑھنے کو تیار نہیں انہیں
کیونکر جمہوریت کا فلاسفربنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ جمہوری فلاسفر پچھلے
پانچ سالوں کے دوران جمہورت کے سہانے گیت تو گاتے رہے لیکن پاکستان کے کسی
حصے میںحقیقی جمہوریت کی ایک نرسری لگانے کو تیار نہیں ہوئے۔قارئین آپ خود
فیصلہ کریں جمہوریت کی نرسری کہلانے والیں مقامی حکومتوں کا خاتمہ۔۔۔ کیا
جمہوریت کا قتل نہیں۔۔۔؟ |