مالی: اسلامی ریاست کے قیام کا منصوبہ منظر عام پر آگیا

1240192 مربع کلومیٹر رقبے پرمشتمل شمالی مغربی افریقہ کے اس ملک کی آبادی14517176 ہے۔اسی فیصد سے زیادہ مسلمان، دوفیصدعیسا ئی اور اٹھارہ فیصدمظاہرپرست ہیں۔مالی میں ایک عرصے سے امریکا و فرانس سمیت متعدد ممالک اسلام پسندوں کے خلاف اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جن کے مقابلے میں اسلامی قوتیں بھی مالی میں اسلام کے دفاع کی جنگ بڑی شدومد سے لڑ رہی ہیں۔ 6اپریل2012ءکوشمالی مالی میں سیکولر تنظیم نیشنل مومنٹ فار لبریشن آف اوزاد نے آزادی کا اعلان کیا۔ جبکہ اسلام پسندوں نے اس اعلان آزادی کو مسترد کرتے ہوئے مالی کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے اپنی جہادی سرگرمیوں کا اعلان کردیا۔یکم اپریل کو مجاہدین نے مالی کے ایک بڑے شمالی شہر گاؤ پر قبضہ کرلیا۔ دو اپریل کو ایک دوسرے اہم شہر ٹمبکٹو پر بھی قبضہ ہوگیا۔ مجاہدین کے کمانڈر نے واضح کیاکہ ہماری جدوجہد صرف اسلام کی سربلندی کے لیے ہے۔ ہم کسی عرب کو مانتے ہیں نہ تو آرگ(قبیلہ)کو، سفیدکونہ کالے کو،بلکہ صرف اور صرف اللہ کو ہی مانتے ہیں۔مالی کی اکثریت نے مجاہدین کی حمایت کی اور بڑے شہر مجاہدین کے کنٹرول میں آگئے۔ مجاہدین نے مالی میں شریعت کے نفاذ کا عہد کرلیا اورمالی کو اسلامی امارت قرار دے دیا۔

مجاہدین کے خلاف فرانس سمیت متعدد ممالک نے حملہ کردیا، ان پر بے تحاشہ بمباری کی لیکن فرانس کی فضائی بمباری کے باوجود مجاہدین نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے جنوب مالی کے شہر کلیکرو تک پہنچ گئے، جو دارالحکومت باماکو سے صرف 60 کلو میٹر دور واقع ہے۔ فرانسیسی وزیر دفاع جان ایف لو دوریان نے اعتراف کیا کہ مجاہدین نے فرانس کے چار دن کی بمباری کے باوجود پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے وسطی مالی کے شہر دیابالی کا کنٹرول حاصل کیا اور مخالف فوج کو شکست دے کر وہاں سے نکال باہر کردیا۔ میڈیا نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ مالی کے شمالی شہر گاؤ میں فرانس کی قیادت میں پر حملہ آور افواج پر اسلام پسندوں نے اچانک حملہ کر کے انہیں شدید حیرت میں مبتلا کر ڈالا۔ عینی شاہدیں کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان جھڑپوں کے دوران اسلام پسندوں کو کھلے عام شہر کی سڑکوں پر گھومتے دیکھا گیا۔ اسلام پسند کالے لباس میں ملبوس تھے اور وہ مسلح ہو کر موٹر سائیکلوں پر شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر پھر رہے تھے ۔ ایک خودکش بمبار نے شہر میں داخل ہونے والے راستے پر واقع فوج کی چوکی پر حملہ کیا۔ جس کے بعد مسلح اسلام پسندوں کے گروہ شہر میں داخل ہو ئے اور افریقی و یورپی افواج پر حملہ کردیا۔ اسلام پسندوں کے اس اچانک حملے سے جارح افواج میں کھلبلی مچ گئی، انہوں نے خوف زدہ ہو کر بھاری توپ خانے سے فائر کرنے شروع کردے اور فرانس کے گن شپ ہیلی کاپٹر اور جیٹ لڑاکا جہازوں نے پروازیں شروع کر دیں۔مجاہدین نے مخالف فوج سے ہی ہتھیار چھین کر ان کو شکست دے دی۔ایک سابق امریکی سفیر نے انکشاف کیا کہ مالی میں فرانس جن اسلام پسندوں کے خلاف لڑ رہا ہے انہوں نے لڑائی کے لیے وسائل فرانس سے ہی ہتھیائے ہیں۔ سابق امریکی سفیر وکی ہڈلسٹن نے بتایا کہ فرانس نے 2010ءمیں نائجر میں یورنیم کی ایک کان سے پکڑے گئے یرغمالوں کو رہا کروانے کے لیے ایک کروڑ 17 لاکھ ڈالر ادا کیے تھے۔ جرمنی سمیت دوسرے یورپی ممالک نے بھی تاوان کی رقوم ادا کی ہیں، جن کی مالیت نو کروڑ ڈالر تک پہنچتی ہے۔ مالی کے اسلام پسندوں نے ہتھیاروں کے حصول کے لیے اس رقم کو استعمال کیا اور اس قدر قوت حاصل کر لی کہ مالی کے ایک حصے پر قبضہ کر کے وہاں اسلامی شرعیت نافذ کر دی تھی۔ جن کے خلاف اب اقوام متحدہ کی اجازت سے فرانس کی زیر قیادت کثیر الملکی افواج نے کاوائی کی۔ مالی مجاہدین کے مقابلے میں امریکی کمانڈر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم مالی فوج کو صحیح طرح سے ٹرینگ نہیں دے سکے۔افریقہ میں امریکی فوج کے کمانڈر نے کہا کہ مالی فوج کی ٹریننگ میں پینٹاگون سے غلطی ہوئی ہے۔امریکی افریکوم کے جنرل کارٹر ہیم نے کہا ہے کہ امریکی فوجی مالی کے فوجیوں کو ’اخلاقی اور فوجی قدروں‘ کی سطح پر تربیت دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ’ہم لوگوں نے اپنی تربیت کو بطور خاص حربی اور تکنیکی معاملوں تک مخصوص رکھا تھا اور ہم نے شاید زیادہ وقت اخلاقیات اور فوجی قدروں کی تربیت پر نہیں دیا۔ ’ہمیں جس سطح پر اس طرح کی ٹریننگ دینی چاہیے تھی اس سطح پر ہم نہیں دے سکے۔

واضح رہے کہ مجاہدین نے مالی کو اسلامی ریاست بنانے کا مکمل منصوبہ تیار کرلیا تھا جس کا اندازہ گزشتہ روز آنی والی میڈیا اطلاعات سے ہوتا ہے جن کے مطابق مالی کے شمالی علاقے میں اسلامی مغرب میں القاعدہ نے مغربی اورعلاقائی طاقتوں کی نظروں میں آئے بغیر ایک ”لوپروفائل“ اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس بات کا انکشاف مالی کے تاریخی شہر ٹمبکٹو سے ملنے والی ایک دستاویز سے ہوا ہے۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی اس تحریر پر اسلامی مغرب میں القاعدہ کے لیڈر عبدالمالک کدوال کے دستخط ہیں۔ اناسی صفحات پر محیط اس دستاویز پر 20 جولائی 2012ءکی تاریخ درج ہے۔ اس میں القاعدہ کے لیڈر کے ازواد کے علاقے میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے منصوبہ کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس میں القاعدہ لیڈر نے شمالی مالی میں تاریخی مزارات کی مسماری اور لوگوں کو سنگسار کرنے کے واقعات کی مذمت کی ہے۔ یہ دستاویز ٹمبکٹو پر فرانسیسی فوجیوں کے حملے کے بعد ملی تھی اور اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کو خود عبدالمالک دروکدال نے لکھا تھا۔ اس میں انھوں نے شمالی مالی میں جنگ سے متعلق ایشوز کا احاطہ کیا ہے ۔ اس میں دروکدال نے اپنے منصوبے کے مطابق ایک نئی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ پیش کیا تھا اور یہ روایتی طور پر اسلامی جنگجوؤں کے اختیار کردہ موقف کے برعکس ہے۔ القاعدہ کے لیڈر نے اس تحریر میں اپنے ساتھی جنگجوؤں سے سرزد ہونے والی غلطیوں پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ خاص طور پر اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر فوری حدود کے نفاذ پر انھوں نے غصے کا اظہار کیا ہے۔

غیرمعمولی حکمت عملی عبدالمالک دروکدال نے جنگجوو ¿ں کو مخاطب ہوکر لکھا ہے کہ ”آپ نے غلطی کی ہے۔ لوگ ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں اور ہم لوگوں کے ساتھ نہیں لڑ سکتے۔ آپ نے شاید ہمارے تجربے کو موت سے ہم کنار کردیا ہے، ہمارے بچے، ہمارے خوبصورت درختوں کو کاٹ دیا ہے“۔ انھوں نے ازواد کے علاقے میں ایک اعلیٰ آزاد اسلامی اتھارٹی کے قیام پر زوردیا ہے جو اپنے زیرنگیں علاقے میں اسلامی قانون (شریعت) کا نفاذ کرے گی۔ انھوں نے اپنے گروپ پر زوردیا کہ وہ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے مالی کی ازواد تحریک آزادی اور انصارالدین تحریک کی مدد حاصل کرے۔ عبدالمالک دروکدال نے اس دستاویز میں انصارالدین کے لیڈر غالی کو نئی ریاست میں عبوری حکومت کا وزیراعظم بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس میں انھوں نے وضاحت کی تھی کہ نئی ریاست میں عبوری حکومت صرف عبوری دور کے لیے نظم ونسق چلائے گی اور نئی ریاست کا آئین مرتب کرے گی۔ ایاد آغ غالی کو ان کے مشن کی تکمیل اور آزاد شہروں میں نظام چلانے کے لیے جہادی مہیا کیے جائیں گے۔ انھوں نے اس دستاویز میں اپنے جنگجوؤں کی جانب سے سیکولر قومی تحریک برائے آزادی پر دباؤ ڈالنے کی روش پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ ہم اس تحریک کے ارکان کو راتوں رات سلفی بننے اور انصارالدین کی صفوں میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ نئی حکومت کی ہئیت ترکیبی سے متعلق انھوں نے لکھا کہ اس میں مذہبی امور، انصاف اور تعلیم کی وزارتیں انصارالدین کو دی جائیں۔ وزارت دفاع کو ایک ایسی تنظیم میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی ہے جس میں خطے کی تمام تنظیموں کے ارکان شامل ہوں تاکہ ہر کسی کی سیکورٹی کو یقینی بنایا جاسکے۔ انھوں نے لکھا کہ ”اتحاد بہت ضروری ہے۔ اس سے ہمیں تین فوائد حاصل ہوں گے۔ اگر ہم پر حملہ ہوگا، تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم اکیلے نہیں ہوں گے۔ نیز عالمی برادری صرف ہم پر ہی دباؤ نہیں ڈالے گی بلکہ ہمارے اتحادیوں پر بھی اس کا دباؤ ہوگا اور سب سے اہم بات یہ کہ ہم کسی بھی ناکامی پر صرف اکیلے ہی ذمے داری قبول نہیں کریں گے“۔ ان کے بہ قول اتحادی بھی اس کے ذمے دار ہوں گے۔“

مالی میں اب بھی کئی ممالک کی افواج مجاہدین کے خلاف لڑ رہی ہیں ، بلکہ گزشتہ روز تو اوباما نے مالی میں بھی ڈرون حملے کرنے کا حکم جاری کردیا ہے، اوباما نے مالی کے لیے ڈرون بیس تیار کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔اس کے باوجود مالی مجاہدین ابھی بھی بہت ہمت سے لڑرہے ہیں،یہاں تک کہ فرانسواں اولاند نے کہا ہے کہ ’افوغاص کے پہاڑوں میں شدید لڑائی ہو رہی ہے جہاں ہمارا خیال ہے کہ القاعدہ اسلامک مغرب کے کارکن چھپے ہوئے ہیں۔‘فرانس کے ایک اعلیٰ فوجی عہدے دار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مالی کے دیگر شہروں کے قریب واقع صحرا میں بھی اسلام پسند موجود ہیں جو کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اب وہ ایک گوریلا جنگ لڑنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ ’مغربی افریقہ میں تحریک وحدت اور جہاد کے ترجمان ولید صحراوی نے کہا کہ ’ہم فرانس اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مزید حملے کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ فرانس کے وزیِر دفاع ڑاں یویس لا دریاں کا کہنا ہے کہ مالی میں اب فرانسیسی فوج ’اسلام پسندوں‘ کے ساتھ ’باقاعدہ جنگ‘ میں مصروف ہے۔ اسلام پسندوں کا صفایا ہوگیا تھا لیکن ابھی تک میں جھڑپیں جاری ہیں۔حکومتِ فرانس کے ترجمان کے مطابق صدر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق رہا تو مارچ کے مہینے سے مالی سے فرانسیسی فوج کو کم کرنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ دوردراز قصبوں میں ابھی تک لڑائی جاری ہے۔فرانس کے وزیر دفاع نے بتایا کہ منگل کو اسلام پسندوں نے فرانس اور مالی کی فوجوں کے ساتھ لڑائی میں راکٹوں کا استعمال کیا۔یاد رہے کہ فرانس نے ملک کی مشرق کی طرف باغیوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے مالی میں گیارہ جنوری کو فوجی مداخلت کی تھی۔چند دن قبل بھی فرانس نے خبردار کےا تھا کہ مالی میں مخدوش صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شدت پسند خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی حکمت عملی تیز کر رہے ہیں اور الجیریا سمیت تمام ہمسایہ ممالک کو اس خطرے سے نمٹنے کےلئے اقدامات کرنا ہوں گے، فرانسےسی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمیں خطرہ ہے کہ مالی میں خراب صورتحال سے القاعدہ فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو مستحکم کرے گی جو کہ خطے کےلئے ایک خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631962 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.