ڈیفنس سوسائٹی میں واقع ڈیفنس
اتھارٹی کریک کلب کے 13سو ممبرز کراچی یا پھر ملک ہی سے منتقل ہوچکے ہیں ۔اس
خبر نے حساس دل رکھنے والے شہریوں کو مزید فکر مند کردیا۔فکر اس بات کی کہ
کیاصرف کریک کلب کی ممبر شپ میں ہی کمی آئی ہے یا پھر کراچی، کلب، کراچی
جیم خانہ کلب ، اور دیگر کلبس سے بھی لوگ لاتعلق ہورہے ہیں؟فکر اس لیے کہ
یہ افراد کوئی عام نوکری پیشہ نہیں تھے بلکہ یہ تمام کاروباری تھے ان کے
فیکٹریاں ، کارخانے اور مختلف اقسام کے کاروبار ہونگے ۔ اللہ نے کئی لوگوں
کے روزگار کا ذریعہ ان کو بنایا ہوگا۔جو کراچی کو خیرباد کہہ کر چلے گئے
کراچی کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح کاکردار ادا کرتے ہونگے ۔ ریڑھ کی
ہڈی جس پر پورے جسم کا دارومدار ہوتا ہے۔ ان کاروباری حضرات کاشہر چھوڑنا
انتہائی غیر معمولی بات ہے یقینا وجہ بھی غیر معمولی ہوگی ۔ ان کی شہر سے
منتقلی سے عروس البلاد کی معاشی صورتحال بری طرح متاثر ہوسکتی ہے،
بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے ۔جان بچانے کا خوف سب ہی کو ہوتا ہے
لیکن بے روزگاری کا خدشہ لوگوں کی نیندیں اڑادیتا ہے اور اگر بے روزگار
ہوگئے تو جیتے جی موت واقع ہوجاتی ہے۔خبر تو ایک کلب کے حوالے سے سامنے آئی
لیکن حقیقی صورتحال اس سے کہیں زیادہ تشویشناک ہے۔
ایک بڑے روزنامے میں چھپنے والی اس غیرمعمولی سرگرمی کو سہیل افضل نے خبر
کی شکل دی تھی ،سہیل افضل کراچی کا نامورکامرس رپورٹرہے ۔سہیل افضل سے
میراتعلق صحافی ساتھی سے کہیں زیادہ کا اور دیرینہ ہے ۔میں نے سہیل کو اس
وقت بھی شہر کے حوالے سے احساس کرنے والا پایا جب ہم اپنے دفاتر سے فارغ
ہوکر آئی آئی چندریگرروڈ سے برنس روڈ تک ٹہلتے ہوئے آیاکرتے تھے تاکہ وہاں
سے بسوں میں بیٹھ کر اپنے اپنے گھروں کی طرف جاسکیں۔اس وقت حالات ایسے نہیں
تھے جس طرح کے اب ہیں۔اس وقت ہم راتوں کو اکثر بغیر کسی ڈر و خوف کے سڑکوں
پر چہل قدمی کیا کرتے تھے ۔ کھارادر اور کبھی برنس روڈ پر ہی کسی ہوٹل میں
گپیں مارنے بیٹھ جایا کرتے تھے۔لیکن اب ہم زیادہ فون پر ہی بات کیا کرتے
ہیں۔
ڈیفنس کے کلب کی خبر کے حوالے سے میں نے سہیل سے بات کی ۔ سہیل نے بتایا کہ
صورتحال بہت خراب ہے ۔شہر میں ٹارگٹ کلنگ ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ
وصولی نے تاجروں کو اپنا کاروبار اور رہائش تک کراچی سے منتقل کرنے پر
مجبور کردیا ہے۔سہیل کا کہنا ہے کہ کراچی میں تاجروں اور صنعتکار وں میں
خوف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملیر ، لانڈھی ، کورنگی بلدیہ
ٹاﺅن کے علاقوں میں موجود کارخانوں اور فیکٹریوں کے مالکان خود اپنی
فیکٹریوںمیں جانے سے گریز کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کراچی میں چنیوٹی ،
میمن اور پنجابی سودگران سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف بزنس سے وابستہ
ہیں۔ لیکن اب خوف کی وجہ سے تینوں ہی کراچی سے ہجڑت کرنے پر مجبور ہوچکے
ہیں۔متعدد یو اے ای منتقل ہوچکے ہیں جو زیادہ سرمایہ نہیں رکھتے تھے وہ
پنجاب کے شہروں کا رخ کررہے ہیں ۔ چھوٹے تاجر اپنا کاروبار بند کرچکے ہیں
ایک درجن سے زائد صنعتکار بنگلادیش بھی چلے گئے ہیں جو حیثیت رکھتے ہیں
انہوں نے امریکہ ، کینڈا اور ملائشیا میں اپنا کاروبار منتقل کرلیا۔ سہیل
افضل کی گفتگو تشویش کا باعث تھی۔
لیکن عمواََتاجروں کا یہ موقف بھی سامنے آرہا ہے کہ سالوں کی محنت سے کمائی
گئی آمدنی ایک ہی فون پر دینا پڑھ رہی ہے پولیس اور متعلقہ ادارے صرف
روایتی کارروائی کرکے خاموش ہوجاتے ہیں ۔ الیکٹرونکس کے سامان کا کاروبار
کرنے والے دو تاجر اپنی جانوں سے جا چکے ہیں ۔گزشتہ سال بلدیہ ٹاﺅن کی
فیکٹری میں خوفناک آتشزدگی کا واقعہ جس میں سینکڑوںافراد جاں بحق ہوگئے تھے
بنیادی طور پر بھتہ کی طلبی کا شاخسانہ تھا ۔ کاروباری حضرات کے لیے ضروری
ہوگیا ہے کہ اب جو جتنا بھتہ مانگے انہیں دینا ہے ورنہ جان سے ہاتھ دھونے
کا پیغام پہلے ہی موجود ہوتا ہے ۔
لیکن انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ سندھ پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل
فیاض لغاری کا کہنا ہے کہ کراچی میں قتل کی وارداتوں میں اضافہ تشویش کی
بات نہیںہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2011 میں دو ہزار 42افراد قتل ہوئے تھے
جبکہ2012میں2375افراد کو قتل کیا گیا اس طرح 333افراد زیادہ قتل ہوئے ۔پولیس
اور رینجرز کی دس موبائلز کے قافلے میں ایک مقام سے دوسرے مقام پر جانے
والے فیاض لغاری کو شائد یہ نہیں معلوم کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اس لیے ایسے
افسر کے بارے میں مزید بات کرنا فضول ہے کیونکہ یہ صاحب تو سیاسی آلودگی
میں پرورش پاکر انسانی جانوں کی اہمیت ہی بھلا بیٹھے ہیں۔کراچی اجڑرہا ہے ۔
جب بزنس مین اپنے کاروبار سمیت اس شہر سے کو چ کر جائیں گے تو پھر یہ کیسے
ترقی کرے گا؟جب غیر ملکی سرمایہ ملک میں نہیں آئے گا جب سرمایہ کاری کے
آسان ذریعے دستیاب نہیں ہونگے سب سے بڑھ کرجہاں انسانی زندگیوں کی کوئی
ضمانت نہیں ہوگی تو کیا ایسا شہر ترقی کرسکتا ہے یا اجڑ سکتا ہے؟۔ دکھ اس
بات کا ہے کہ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی حکومت میں رہنے والی
جماعتیںخود امن و امان کی خراب صورتحال کا رونا روتی رہیں۔سندھ میں تینوں
حکومتی اتحادی جماعتیںٹارگٹ کلنگ کا شکاربھی رہیں ۔اس کے باوجودجس اسلحہ سے
ان جماعتوں کے کارکنوں اور دیگر عام لوگوں کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا اس کو
برآمد کرنے کی بات کی گئی تو شور مچ گیا ،مضحکہ خیز باتیں کی جانے لگی
نتیجہ یہ ہوا کہ غیر قانونی اسلحہ کے خلاف آپریشن کی آواز ایسے دب گئی جیسے
ایک عام آدمی کے حق کی آواز گلے ہی میں دب کر رہ جاتی ہے۔یہ سچ ہے کہ کراچی
میں غیر قانونی اسلحہ کی موجودگی کی ذمہ دار اور جرائم کی خطرناک وارداتیں
ان ہی سیاسی جماعتوں کی آشیرباد کے باعث ہیں ۔جو جتنی زیادہ افرادی قوت
رکھتی ہے وہ اتنا ہی حصہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ادا کررہی ہیں۔ڈر ہے کہ یہ
سلسلہ فوری نہیں روکاجا سکا اور تاجروں کو انکے تحفظ کا یقین نہیں دلایا
گیا تو کراچی جو تجارتی شہر بھی کہلاتا ہے اپنی یہ شناخت کھو دیگا۔ |