وہاں لوگوں کا ایک جم غفیر تھا
جس کے جذبات اور غصہ آسمان کو چھو رہا تھا ،لگتا تھا کہ یہ لوگ آج خود مر
جائیں گے یا اپنے دشمنوں کو نیست و نابود کر دیں گے،پاکستان کے کونے کونے
سے روتے پیٹتے کہیں پبلک ٹرانسپورٹ توکہیں ریلوے میں دھکے کھاتے اور کہیں
اپنی نجی گاڑیوں میں بھوکے پیاسے سینکڑوں ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے بال
بچوں سمیت اور کچھ اپنی اولادوں کو اللہ کے حوالے کر کے یہاں جمع تھے۔ہر
ایک کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا اب ہمارا ایک ہی کام انتقام انتقام،شہید
رانی ہم تیرے خون کا حساب لیں گے،رانی کا خون رنگ لائے گا انقلاب آئے گا،تم
کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا،ہم بیٹے کس کے بھٹو کے، ہم بھائی
کس کے بی بی کے،ظالمو جواب دو خون کا حساب دو،پرویز مشرف مردہ باد،آمر کے
حواری مردہ باد،قاتل لیگ مردہ باد،معاً کسی جذباتی شخص نے کثرت غم کی وجہ
سے آواز لگائی ہمیں ایسا ملک ایسا پاکستان نہیں چاہیے جہاں ہمارے لیڈروںکو
قتل کیا جائے جہاں ہمارے قائدکو پھانسی دی گئی اس آواز کا لگنا تھا کہ بے
کراں ہجوم نے پاکستان کے خلا ف بھی نعرے بازی شروع کر دی،کیوں کہ لوگوں کا
یہ جم غفیر سندھ کی دھرتی گڑھی خدا بخش میں جمع تھا اس لیے اس میں سب سے
زیادہ تعداد سندھ کے باسیوں کی تھی اس لیے جو آواز نمایاں ہو کے لوگوں کی
سماعتوں تک پہنچ رہی تھی وہ نہ کھپے نہ کھپے پاکستان نہ کھپے تھی،یہ آواز
تیز سے تیزتر ہوتی جا رہی تھی اول جن کو سمجھ نہ آئی وہ خاموش رہے جب سمجھ
آئی تو یہ آواز باقاعدہ ایک کورس کی شکل اختیار کر گئی اور اس سے پہلے کہ
یہ آواز اور مطالبہ کوئی عملی شکل اختیار کرتا سٹیج پہ بیٹھے جناب آصف علی
زرداری صاحب نے کمال کی دانشمندی اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہجوم
کو یقین دلایا کہ ان کی لیڈر ان کی بہن اور بہت سے نوجوانوں کی ماں کے
قاتلو ں کو گرفتار کریں گے اورا ب کی بار پھانسی کا پھندا قاتلوں کی گردن
میں فٹ ہو گا،میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں مگر یہ جو نعرہ لگ رہا ہے کہ
پاکستان نہ کھپے میں اس سے اتفاق نہیں کرتا ،آپ کے لیڈروں نے اپنا خون اسی
پاکستان کے لیے ہی تو دیا ہے اگر پاکستان نہ کھپے تو پھر ان شہیدوں کی
قربانی کا کوئی فائدہ نہیں ،پاکستان ہمارا ملک ہے یہ ہے تو ہم ہیں یہ نہیں
تو ہم بھی نہیں،آپ کے عظیم قائدین نے اس کے لیے اپنی جانیں قربان کیںہم بھی
اس ملک کے لیے اپنی جان قربان کریںگے جب بھی ضرورت پڑی،میں آپ لوگوں کے
جذبات کی قدر کرتا ہوں مگر اس ملک کی خاطر اپنی لیڈر کی عظیم جدجہد کی خاطر
میںآپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ لوگ پر امن رہیں اور اب یہ نعرہ نہ لگائیں
بلکہ میں کہتا ہوں پاکستان کھپے پاکستان کھپے ،ہجوم نے ان الفاظ کو سنتے ہی
یک دم اپناانداز بدلا اور فضا پاکستان کھپے کھپے کے نعروں سے گونج اٹھی،اس
مدبرانہ لیکچر کے دوران لوگوں نے قاتلوں کے خلاف نعرے بازی کی اور کچھ نے ق
لیگ کے خلاف نعرہ لگایا ادھر شاید کسی صحافی نے کوئی سوال پو چھا جس میںق
لیگ کا ذکر کیا تو جناب زرداری صاحب نے درمیان میں ٹوک دیا اور کہا قاتل
لیگ،صحافی نے پھر کہا ق لیگ تو جناب زرداری صاحب نے پھر کہا قاتل لیگ،اور
ادھر سے ہجوم سے زبردست نعرے بازی ہوئی جس میں قاتل لیگ قاتل لیگ کا شور
واضح اور نمایاں ہو گیا،بعد ازاں ق لیگ کے لیڈران نے اس پر شدید اعتراضات
کیے اور جناب زرداری صاحب کو دماغی مریض قرار دیالیکن پیپلز پارٹی کے جیالے
نے ق لیگ کو بطور قاتل لیگ اپنے دل کے اندر راسخ کر لیاا ور جب الیکشن کا
بگل بجا تو پاکستانی عوام نے قاتل لیگ سے بے نظیر بھٹو کے قتل کا بھرپور
بدلہ لے لیامیں نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد کے وقت گڑھی خدا بخش کی منظر
کشی کی ہے یہ کوئی زیادہ دور کی بات نہیں ہر شخص کو یہ منظر بڑی ہی اچھی
طرح یاد ہو گااور میری طرح سب کو آصف علی زرداری کے ساتھ بلاول کے وہ الفاظ
بھی یاد ہوں گے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور پھر پاکستانی قوم سے وہ
شاندار انتقام لیا گیا کہ یہ قوم اور اس کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی،گن گن
کر اس قوم سے ان گناہوں کے بدلے لیے گئے جو اس بے چاری قوم سے کبھی سرزد نہ
ہوئے،ہاں یہ گناہ ضرور سرزد ہوا کہ عوام نے ان کو اپنا مسیحا اور مظلوم بی
بی کا وارث سمجھ کر اس امید پر ووٹ ضرور دیے کہ یہ نہ صرف ہماری حالت
سدھاریں گے بلکہ ہمارے جذبات کی بھی قدر کریں گے اور ہماری لیڈر کے قاتلوں
کو کٹہرے میں کھڑا کریںگے،اقتدار میں آنے کے فوری بعد بڑی گرم جوشی سے
قاتلوں کا کھرا ناپنے کی کوشش کی گئی اور اور تو اور اقوام متحدہ سے اپیل
کر کے اسکاٹ لینڈ یار ڈ کے ماہرین سے بھی پنڈی کی گلیوں کی پیمائش کروائی
گئی مگر حیران کن طور پر نجانے کس مصلحت کے تحت نہ تو بی بی شہید کے قتل کی
باقاعدہ ایف آئی آر درج کروائی گئی اور نہ ان لوگوں سے کسی بھی قسم کی باز
پرس کرنے کی قطعاً کوئی کو شش کی گئی جن کو بی بی شہید متوقع طور پر نامزد
کر گئی تھی ،اقتدار کے ابتدائی تین سال تک پوری قو م اور پی پی پی کے
جیالوں کو بھرپور انداز میں بے وقوف بنایا گیا،پھر پہلی برسی پر صدر مملکت
نے فرمایا ہمیں تمام قاتلوں کا پتہ ہے اور عنقریب ایک ایک کا نام پبلک کے
سامنے لے آئیں گے،پھر ایک سال گذرنے کے بعد سارا ملبہ اٹھا کر چیف جسٹس آف
پاکستان پہ ڈالنے کی کوشش کی گئی اور اگلی دفعہ نوجوان چیئرمین کو باقاعدہ
سمجھا بجھا کر عدلیہ پر وار کروایا گیا کہ آپ کو سبزیوں چینی اور گیس کے بل
اور مہنگائی تو نظر آتی ہے،لوڈشیڈنگ اور ٹریفک پہ بھی سوموٹو لے لیتے ہیں
مگر آپ کو میری ماما کے قاتل نظر نہیں آتے آپ ان کے خلاف سو موٹو کیوں نہیں
لیتے ،سبحان اللہ، انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند،معصوم اور بھولے بھالے
چیئرمین کو سمجھ ہی نہ آئی کہ چیف جسٹس کس کے خلاف نو ٹس لیں،ان کے خلاف جن
کو آپ کے بابا جانی نے گارڈ آف آنرز دے کر ان کے پسندیدہ ہتھیاروں طبلہ
سارنگی سمیت ان کے پسندیدہ ملک بھیج دیا یا سندھ کے ارباب صاحب کے خلاف یا
آپ کی پارٹی اور پارٹی کے وزیر اعظم کے نائب کے خلاف، بلاول بھٹو کو جوشیلے
انداز میں خطابت کم اور شوروگوغا زیادہ کی ٹریننگ دینے والے بقراط اسے یہ
بتانا یکسر بھول گئے کہ اس وقت ملک میں اس کی امی جان کے شوہر اس ملک کی
طاقت ور ترین شخصیت ہیں خود صدر ہیں وزیراعظم ان کا وزیر داخلہ ان کا
ایجنسیاں ان کی تمام تھانے کچہریاں اور پولیس ان کی آپ کس سے کس کے خلاف
سوموٹو نوٹس کا مطالبہ کر رہے ہیں سو مو ٹو تو آپ کے ابا جان کے خلاف ہونا
چاہیے کہ اتنا سب کچھ ہو نے کے با وجود آپ ایک انٹرنیشنل لیول کی لیڈر اور
اپنے بچوں کی ماں اور اپنی شریک حیات کے علاوہ کروڑوں پاکستانیوں کی راہنما
کے قتل کی باقاعدہ ایف آئی آر تک درج نہیں کر ا سکے، ادھر اقتدار کے بعد
اول اول چوہدری صاحبان نے میاں برادران کے خوب لتے لیے اور ساتھ ہی پیپلز
پارٹی پر بھی خوب گرجے برسے، جب عدلیہ بحالی کے لیے پی پی پی اور ن لیگ میں
معاہدہ ہوا تو جناب سابق وزیراعلیٰ پرویز الہیٰ نے فرمایا ن لیگ پیپلز
پارٹی میں ضم ہو چکی ہے اب ن لیگ کے ورکر اصلی مسلم لیگ یعنی مسلم لیگ ق
میں آجائیں اب ہم اصلی اپوزیشن کا کردار اد کریں گے اور ان دونوں پارٹیوں
کو کھل کر کھیلنے کا موقع ہر گز نہیں دیں گے پاکستانی قوم پریشان نہ ہو ہم
کسی بھی صورت حکمرانوں کو من مانی نہیں کرنے دیں گے،اکا دکا ق لیگیئے پیپلز
پارٹی سے اور تمام جیالے کھل کر ق لیگ سے اظہار نفرت کرتے رہے،مگر جیسا کہ
یہاں روایت ہے کہ نہ یہاں کوئی اخلاقیات ہیں نہ اعلیٰ اخلاقی قدریں نہ ان
کی پاسداری،اور اس نئے دور میں وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے کی نادرو نایاب
اصطلاح متعارف کروائی گئی اور اس نئی روایت کے مصداق اسی جماعت جسے ایک وقت
میںقاتل لیگ قاتل لیگ کا خطاب دیا گیا کو گود لے لیاگیا،ویسے تو زرداری
صاحب کے بے شمار کارنامے سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں مگر یہ فیصلہ
خصوصی طور پر آب زر سے لکھے جانے لائق ہے،اس فیصلے نے جہاں ایک طرف نظریاتی
اور حقیقی کارکنوں پر قیامت ڈھا دی وہیں دوسری طرف پارٹی کی کمر بھی تو ڑ
کے رکھ دی ،جیالے تلملا کر رہ گئے مگر شاید پارٹی ڈسپلن اور قیادت کا فیصلہ
سمجھ کر یہ کڑوی گولی نگل لی ہے،مگر ذوالفقار علی بھٹو کا ہر جانثاراپنے
اندر ہی اندرخون پی رہا ہے رہی سہی کسر مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی اتحاد
اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ نے نکال دی،کسی جیالے کے لیے پر ویز الہیٰ کو ووٹ دینا
ایسا ہی جیسا اسے کوئی انتہائی ناجائز اور غلط کام کرنے کو کہا جائے،یہ
اتحاد ہر لحاظ سے غیر فطری ،غیر روایتی اور غیر اخلاقی ہے کسی جیالے تو کجا
کسی عام سے پارٹی ورکر کے لیے بھی یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کو
ووٹ دے یا اس کے حق میں نعرے لگائے جسے محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی زندگی میں
اپنا ممکنہ قاتل قرارد ے چکی ہوںپیپلز پارٹی کا جیالا پارٹی کے لیے کچھ بھی
کر سکتا ہے مگر بھٹو اور بے نظیر کے دشمن سے مفاہمت اس کے خون میں شامل ہی
نہیں،یہ اتحاد جن لو گوں نے بھی کیا وہ یقینا عقل اور سوچ کے اندھے ہیں،اور
اس اتحاد کا انجام نوشتہ دیوار ہے،اگر کسی کو شک ہے تو صرف چند ماہ انتظار
کرے دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو جائے گااس وقت ملک کی بات تھی اور
لوگوں کا یقین واعتماد کچھ حد تک باقی تھا مگر اب صورتحال بالکل مختلف ہے
اب زرداری صاحب جتنا مرضی کہتے رہیں ق پی پی اتحاد کھپے مگر کوئی ایک بھی
آواز ان سے ہم آواز نہی ہو رہی ہر طرف ایک ہی صدا ہے یہ اتحاد نہ کھپے نہ
کھپے،،،،،،،،،،،،، |