سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی
میں نئی حلقہ بندیوں کا حکم موخر کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی
درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مردم شماری حلقہ بندیوں کے عمل میں
رکاوٹ نہیں۔ الیکشن کمیشن جب اور جیسے چاہے مردم شماری کا انتظار کیے بغیر
حلقہ بندی تبدیل کرسکتا ہے، عدالت مانتی ہے کہ 1998ءکے بعد سے ملک میں مردم
شماری نہیں ہوسکی لیکن اس کے باوجود نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہے۔ یہ حلقہ
بندیاں مساوی آبادی کی بجائے متناسب آبادی کی بنیاد پر ہونی چاہئےں۔ عدالت
نے اپنے فیصلے میں آبزرو کیا ہے کہ بدقسمتی سے تمام متعلقہ اداروں نے کراچی
میں امن وامان سے متعلق عدالتی احکام پر عمل کرنے سے گریز کیا جس کی وجہ سے
عدالت کو دوبارہ سماعت شروع کرنا پڑی۔ بادی النظرمیںالیکشن کمیشن عدالتی
حکم پر عمل نہیںکرنا چاہتا، ایک سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود الیکشن
کمیشن حلقہ بندی نہ کرنے کا جواز پیش نہیں کرسکا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ
الیکشن کمیشن میں کراچی میں حلقہ بندی کے لیے نیت، ارادے اور لگن کی کمی ہے۔
حلقہ بندی کے حکم کے خلاف دائردرخواست میں حقائق چھپانے اور عدالت کو گمراہ
کرنے کی کوشش کی گئی۔
ہفتے کے روز جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی
لارجر بینچ کا 27 فروری 2013ءکا 11صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا
گیا جس کے ساتھ جسٹس خلجی عارف حسین کا 6 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی
منسلک ہے۔ سپریم کورٹ نے آبزروکیا کہ اس عدالت نے 6 اکتوبر2011ءکو کراچی
بدامنی ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس کا ہر مکتبہ فکر نے خیرمقدم
کیا لیکن بدقسمتی سے متعلقہ اداروں نے اس پر عملدرآمد نہیںکیا۔ بینچ نے
الیکشن کمیشن کے رویے کے متعلق اپنے فیصلے میںکہا کہ 28نومبر2012ءکو
سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد اور چیف سیکرٹری سندھ نے بھی بیان ریکارڈ
کرایا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل منیر احمد پراچہ نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کے
بیان کو رد نہیں کیا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ نئی حلقہ بندی کے لیے
الیکشن کمیشن کے مختلف اجلاس بھی منعقد ہوئے ہیں۔ عدالت نے قراردیا کہ
الیکشن کمیشن نے آئین کی دفعات 51(3),5اور حلقہ بندی ایکٹ 7کا حوالہ دیا
اور موقف اختیار کیا کہ یہ دفعات نئی حلقہ بندی میں رکاوٹ ہیں۔ الیکشن
کمیشن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے اپنے حکم میں”آبزرویشن“ ،”ڈیکلیریشن“
اور ”ڈائریکشن“کا لفظ استعمال کیا ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن عدالت کی
آبزرویشن پر عمل درآمد کا پابند نہیں۔ 5رکنی بینچ نے قراردیا کہ تینوں
اصطلاحات عدالتی حکم کے زمرے میں آتی ہیں اور عدالت کے مکمل فیصلے پر عمل
درآمد کیا جانا چاہیے تھا۔
عدالت نے توجہ دلائی کہ جب الیکشن کمیشن کے وکیل کو آئین کی دفعات
51(3),5اور حلقہ بندی ایکٹ 7 پڑھنے کی ہدایت کی گئی تو وہ بھی اپنے موقف
پراصرار نہیں کرسکے کیوں کہ یہ دفعات محض قومی اسمبلی کی نشستوں کی ترتیب
اور تقسیم سے متعلق ہیں۔ عدالت نے قراردیا کہ حلقہ بندی ایکٹ کی دفعہ10-Aکے
تحت الیکشن کمیشن کسی بھی مرحلے پر ووٹرلسٹوں میں ترمیم یا تبدیلی کرسکتا
ہے، اس کام کے لیے بھی مردم شماری کی کوئی ضرورت نہیں۔ بینچ کے رکن جسٹس
خلجی عارف حسین نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ عدالت کے حکم کی روح یہ تھی
کہ کراچی میں مختلف لسانی گروپوں کے مابین ہم آہنگی پیدا ہو، قبضے کی جنگ
ختم ہوسکے اور ایسے حلقے تشکیل دیے جائیں جن سے لسانی تقسیم ختم ہوسکے۔
حقیقی جمہوری حکومت کے قیام کے لیے لازم ہے کہ ہر ووٹر اپنے ووٹ کا آزادانہ
استعمال کرے۔ انتخابی حلقے مختلف لسانی گروپوں پر مشتمل ہونے چاہئیں تاکہ
ہم آہنگی کو فروغ مل سکے۔ سپریم کورٹ نے کراچی کی انتخابی نشستوں میں اضافے
کا حکم نہیں دیا صرف حلقہ بندی کا حکم دیا تھا۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کا
موقف درست نہیں کہ تازہ مردم شماری کے بغیر حلقہ بندی ممکن نہیں۔ جسٹس خلجی
عارف حسین نے قراردیا کہ الیکشن کمیشن عدالتی حکم پر عمل درآمدمیں ایک سال
سے زائد عرصہ کی تاخیر کا جوازبھی پیش نہیں کرسکا۔ عدالت نے قراردیاکہ
آرٹیکل 51 کا سب سیکشن 2 قومی اسمبلی کی نشستیں مختص کرنے سے متعلق ہے
انتخابی حلقوں کی حدبندی سے متعلق نہیں۔ 1974ءکا حلقہ بندی ایکٹ نئی حلقہ
بندیوں پر کوئی پابندی عاید نہیں کرتا نہ ہی الیکشن کمیشن کے اختیارات پر
پابندی لگاتا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل ہی عدالت نے کہا تھا کہ کراچی میں حلقہ بندیوں سے
متعلق حکم پر عمل کیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کو نظر
انداز کیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ انتخابات ملتوی کرانے کے بارے میں
کوئی خواب میں بھی نہ سوچے۔ سپریم کورٹ آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے
تمام تر اقدامات اٹھائے گی۔ وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اگر اس کام
پر لگ گئے تو الیکشن ملتوی ہونے کا خدشہ ہے اس پر عدالت نے کہا تھا کہ اس
نے نئی حلقہ بندیوں کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ موجودہ حلقوں
میں رد و بدل کیا جائے اور ان کی نئی حد بندی کی جائے جبکہ نئے حلقوں کے
لیے مردم شماری کی ضرورت ہوتی ہے نئی حد بندی کے لیے ایسی کوئی ضرورت نہیں
ہوتی جس پر الیکشن کمیشن کی درخواست خارج کر دی گئی تھی۔ عدالت کا کہنا تھا
کہ اس کے احکامات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ 2011 ءسے لے کر اب تک
الیکشن کمیشن نے کیا کیا؟، اس بارے میں بھی عدالت کو بتایا جائے۔ جسٹس خلجی
عارف حسین نے کہا کہ ایسی حد بندی نہیں چاہتے کہ ایک میں 25 اور دوسرے حلقہ
میں پانچ لاکھ ووٹرز ہوں۔ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق عدالت کا حکم 2011 ءکا
ہے اب الیکشن کمیشن نیا موقف پیش کر رہا ہے حالانکہ سیکرٹری الیکشن کمیشن
عدالتی حکم پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ نئی حلقہ بندیاں انصاف
کی بنیاد پر ہونی چاہیں تاکہ تمام لوگوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا مساوی
موقع ملے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن حد بندیوں کے
عدالتی فیصلہ پر عمل ہی نہیں کرنا چاہتے۔ دل میں ہی کھوٹ ہے اسی لیے بہانے
کیے جا رہے ہیں۔
جبکہ اتوار کے روز چیف الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے حوالے
سے اجلاس جلد طلب کیا جائے گا جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو سامنے رکھ کر
فیصلے کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ساری دنیا کہہ رہی ہے کراچی میں
حلقہ بندیاں ہوسکتی ہیں، ہو سکتاہے میں ہی غلط ہوں، ان کا کہنا تھا کہ
وجیہہ الدین احمد ریٹائرجج ہیں ہمیں بتائیں حلقہ بندیاں کیسے ہوسکتی ہیں؟۔
وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے
حوالے سے سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ نئی حلقہ
بندیاں سارے ملک میں ہونی چاہیے، صرف کراچی میں نئی حلقہ بندیاں ناانصافی
ہے۔ پی پی کے رہنما شرجیل میمن نے بھی کہا ہے کہ کراچی میں فی الحال نئی
حلقہ بندیاں ممکن نہیں۔ان کے علاوہ متعدد دوسری سیاسی جماعتوں نے حلقہ
بندیاں کرنے کی حمایت کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں نئی حلقہ
بندیاں ضرور ہونی چاہیے، کیوں کہ کراچی میں بڑے پیمانے پر ووٹر لسٹوں میں
دھوکہ دہی ہوتی ہے، ممکن ہے نئی حلقہ بندیوں کے بعد اس دھوکا دہی سے بچا
جائے۔ |