حکومتی لونڈی اوگرااور وزارتِ
پیٹرولیم کی ہٹ دھرمی عروج پر... پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم نہ
ہوناصدر،وزیراعظم کی ملی بھگت یابے بسی
یہ زندگی کی بُہت بڑی اور اِنتہائی تلخ حقیقت ہے کہ بعض بے حس اور گھمنڈی
لوگ(اِن میںخواہ کسی مُلک کے حکمران ، وزراءیا عام شہری ہی شامل کیوں نہ
ہوں) اپنی خُوشیوں کے لئے دوسروں کے ارمانوں کا خُون کردیتے ہیں اِن کا یہ
عمل اور عادت اِن کی فطرت کا ایساہی حصہ ہوتی ہے جیسے بچھوکا ڈنگ مارنا اِس
کی فطرت کا تقاضاہے اور بے شک قیامت کے دن بدترین حالت ایسے ہی لوگوں کی
ہوگی جنہوںنے اپنی دُنیا بنانے کے خاطر صرف دوسروں کو دُکھ دیئے بلکہ اِن
میں نئے نئے زختم لگانے کے بعداِن زخموں کو کُریدکرناسُوربھی خود ہی
بنادیااوراِن کی دنیابربادکرڈالی۔
پچھلے دِنوں عوامی خدمت کا نعرہ لگانے والی حکومت نے اپنے بینک اکاؤنٹس
بھرنے کے خاطرجاتے جاتے عوام پر مہنگائی کابم، پیٹرول ، ڈیزل اور مٹی کے
تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے گرادیاجس سے عوام گھائل ہوگئے ، اِن قیمتوں
کااطلاق یکم مارچ کی رات بارہ بجے سے ہوگیامگر جب اگلے ہی روز شدیدعوامی ردِ
عمل سامنے آیا،اور اپنے اِس عمل سے حکمرانوں کو اگلے عام انتخابات میں اپنی
ہار نظرآئی تو وزیراعظم راجاپرویزاشرف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
حالیہ اضافہ فوری طورپر واپس لینے کے احکامات جاری کئے جس کے بعد خیال
کیاگیاکہ اوگرا اور وزارتِ پیٹرولیم ،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی
کا اُسی طرح فوراََ نوٹیفیکشن جاری کردے گی جس طرح اِس نے اضافے کا جاری
کیاتھا مگرافسوس کی بات یہ ہے کہ آج تین مارچ ہے اور دن کے دوبجے کا وقت ہے
مگراَب تک تو حکومتی لونڈی اوگرا اوروزارتِ پیٹرولیم نے پیٹرولیم مصنوعات
کی قیمتوں میں کمی کا کوئی نوٹیفیکشن جاری نہیں کیااور عوام سستی پیٹرولیم
مصنوعات کے حصول کے خاطر دن بھر مکھی مچھر کی طرح کبھی ایک پیٹرول پمپ تو
کبھی دوسرے پیٹرول کے چکرلگاتے خوارہوتے رہے اور پمپس مالکان بھی شیطان کے
شاگرد کا حق اداکرتے ہوئے پمپس بندکرکے غائب ہوگئے۔
ہاں البتہ..!! اِس کے اِس عمل نے یہ ضرور ثابت کردیاہے کہ اِس کی ہٹ دھرمی
عروج پر ہے جبکہ وزارتِ پیٹرولیم جو اِس سارے معاملے کی اصل ذمہ دار ہے وہ
بھی بے حسی کا مظاہرہ کئے ہوئے ہے جس سے قوم یہ کہنے اور سمجھنے میں حق
بجانب ہے کہ ماضی کے راجہ رینٹل اور ہمارے موجودہ وزیراعظم راجاپرویز اشرف
نے دومار چ کی دوپہر ایک بجے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا جو
اعلان کیا تھا وہ محض ملی بھگت اور سیاسی حربہ تھا جس سے یہ قوم کو بے وقوف
بنارہے تھے اور اِسی کے ساتھ ہی اِن کے اِس عمل سے یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ
حکمرانوں کی حیثیت حکومتی لونڈی اوگراکی نظر میں کیا ہے...؟بہرحال ...!یہ
میرے ملک کا ایک مسئلہ ہے جو ایک دو، روز میں حل ہوہی جائے گا(جو کہ تین
مارچ کی شام کو اوگراکے ایک حکمنامے کے بعد حل ہوگیاہے رات بارہ بجے سے اِس
پر اطلاق کردیاگیا یوں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 28فروری کی پرانی حالت
میں بحال ہوگئی ہیں)مگرپھر بھی کیاہی اچھاہوتاکہ یہ بروقت حل کردیاجاتا،تو
کیا ہی اچھاہوتا...؟اور عوام کی جیبوں پر مہنگائی کا بوجھ نہ پڑتا.
مگراُدھر دوسری جانب کوئی کچھ بھی کہئے مگرمیرااِس پر پورایقین اور ایمان
ہے کہ آج پاکستان کا دوسرابڑامسئلہ امریکاجیسے بچھونما دوست کاہے ، جو اپنے
مفادات کے خاطر ہم سے دوستی کاڈھونگ بھی رچاتاہے تووہیں ہمیں اپنی فطرت کے
مطابق ڈنگ بھی مارتاہے اوراندر ہی اندرہماری سالمیت اور استحکام کو بھی
نقصان پہنچارہاہے ، اور یہی ہے جوہماری ترقی اور خوشحالی میں سب سے بڑی
رکاوٹ بناہواہے یہ بات جو مجھ جیساایک عام پاکستانی بھی خُوب جانتاہے
،مگرآج افسوس تو اِس بات کا ہے کہ معلوم نہیں اتناسانقطہ ہمارے حکمران
سمجھنے سے کیوں قاصرہیں ...؟جبکہ امریکادوستی کی آڑ میں ہمیں تو اپنے
مفادات کے لئے استعمال کررہاہے مگر جب ہم اپنے کسی معاملے میں اِس سے تعاون
کی بھیک مانگتے ہیں تو یہ بھارت کی جانب دیکھتاہے اور پاکستان دشمنی میں
بھارت جیسامشورہ اِسے دیتاہے یہ ویساہی اِس پر عمل کرتاہے اور پاکستان کی
تعاون کی درخواست پر اِسے انگوٹھادِکھاکر آگے چل پڑتاہے اور ہم اِس کی جانب
سے ٹکاسا جواب ملنے پر بغلیں جھانکتے اور کھسیانی بلی کے مافق کھمبابجاتے
رہ جاتے ہیں،یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستان توانائی کے
کس شدیدبحران سے دوچار ہے،ایسے میں امریکا کو یہ چاہئے تھاکہ یہ اپنے دوست
پاکستان کی ہر صورت میں مددکرتا،کیوں کہ پاکستان سے اِس کے بھی مفادات
وابستہ ہیں مگراِس نے اِس بحران سے نکالنے کے لئے کوئی مدد نہیں کی کیوں کہ
اِسے بھارت نے نہیں کہاکہ وہ اِس معاملے کے حل کے لئے پاکستان کی مددر کرے
۔
ایسے میں آج جب پاکستان اپنے یہاں پیداہونے والے توانائی کے بحران کو حل
کرنے کے لئے ایران سے مدد لینے کا خواہشمند ہے اور پاکستانی اور ایرانی
صدور 7.5ارب ڈالر مالیت کی گیس پائپ لائن کا افتتاح ماہِ روان یعنی 11مارچ
کو کرنے جارہے ہیں تو اِس پاک ایران گیس منصوبے پر امریکی تحفظات کُھل کر
سامنے آگئے ہیں نہ صرف یہ بلکہ اِس منصوبے پر عمل درآمد کی صُورت میں
امریکا نے پاکستان کو توانائی کے درپیش مسائل کو ایک طرف رکھ دیاہے اور پاک
ایران گیس منصوبے پر پاکستان کو پابندیوں کی بھی دھمکیاں دینے شروع کردی
ہیں، امریکی محکمہ خارجہ کے شاطر دماغ ترجمان پیٹرک وینٹرول نے تویہاں تک
کہہ دیاہے کہ پاکستان پابندی کے زد میں آنے والی سرگرمیاں کرنے کے بجائے
توانائی کی ضررویات پوری کرنے کے لئے دیگرآپشنز پر غورکرے اور پیٹروک
کاکہناہے کہ امریکاپاک ایران گیس منصوبے کا بغورجائزہ لے رہاہے اور دھمکیاں
دینے کے بعد ذرایہ سوچ کر کے کہیں پاکستان ضد میں نہ آجائے اور ایران سے
حقیقی معنوں میں ایران سے معاہدہ نہ کرلے وینٹرول نے دنیادکھانے کے خاطر
جان دباکر پاکستان سے کہا کہ امریکا پاکستان کو درپیش توانائی کا پورابحران
توختم نہیں کرسکتاہے مگرامریکااپنے تعاون سے پاکستان کوصرف نو سو میگاواٹ
بجلی دے سکتاہے جس سے ساڑھے 19کروڑ پاکستانیوں کو تو نہیں ہاں صرف 20لاکھ
پاکستانی ہی اِس امریکی تعاون سے فائدہ حاصل کرسکیںگے۔ اِس سے قطع نظر
امریکااور اایران کے اختلافات کچھ بھی ہوں مگرامریکا کواپنی ایران کے ساتھ
جاری رہنے والی لڑائی میں پاکستان کو ہزگز ہزگز شامل نہیں کرنی چاہئے اور
ایران پر عالمی پابندی کی زد میں پاکستان کو نہیں گھسیٹناچاہئے کیوں کہ
پاکستان اور ایران مذہبی اور سرحدی لحاظ سے قربت رکھتے ہیں اِن دونوں نقطہ
نگاہ سے اِن کے اپنے اپنے مفادات وابستہ ہیں دنوں ممالک کی تاریخ گواہ ہے
کہ اِن دونوں ممالک نے اکثرمعاملات میں ایک دوسر ے کی بڑھ چڑھ کر مد د کی
ہے ایک گیس منصوبہ ہی کوئی پہلا منصوبہ نہیں ہے پاکستان اورا یران نے ایک
دوسرے کو درپیش دیگر مسائل کے حل کے لئے بھی آپسمیں تعاون کیا ہے ۔
جبکہ گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران متعددمرتبہ صدرِمملکت آصف علی زرداری اور
وزیراعظم سمیت حکومتی وزائے مملکت بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ قوم سے شفاف
انتخابات کا وعدہ پوراہوگا، آئین کے مطابق عام انتخابات شفاف ہوں گے، آئین
کی آرٹیکل 62اور 63پر عمل سے شفاف اُمیدوارسامنے آئیں گے، پاکستان دنیا کا
ایک آزاد اورخُودمختار ملک ہے، دنیا کی کوئی طاقت پاک ایران گیس پائپ لائن
کا منصوبہ نہیں روک سکتی ہے،جمہوریت قائم رہے گی، کوئی طاقت جمہوریت چھین
سکتی ہے اور نہ ہی عام انتخابات میں تاخیرہوگی “ اِس حقیقت سے انکار ممکن
نہیں کہ اِن سب نے یہ جملے بغیرکسی اندرونی یا بیرونی قوت اور خفیہ ہاتھ
کانام لیئے سیاسی استعارے کے طورپرتو اداکردیئے ہیں مگرکیا ہی اچھاہوتاکہ
ہمارے یہ لوگ بہادری اور بے باکی کا مظاہرہ کرتے اور اُن طاقتوں کا بھی کسی
موقع پر اظہارکردیتے جن کا یہ بار بار تذکرہ سیاسی استعارے کے طورپر
استعمال کررہے ہیں ، ہمارے حکمران اور سیاستدان کھل کر اُن طاقتوں اور خفیہ
ہاتھوں کا تذکرہ نہ بھی کریں تو ویسے بھی آج کوئی بات نہیں، پاکستانی عوام
کو آزاد میڈیا نے اتناباشعورضروربنادیاہے کہ یہ سمجھ سکیں کہ ہمارے حکمران
، وزراءاور سیاستدان مندرجہ معاملات اور بالخصوص پاک ایران گیس لائن منصوبے
میں رکاوٹ ڈالنے والے ملک امریکا کا نام دیدہ دانستہ نہیں لیناچاہتے ہیں
اور پاکستانی عوام یہ بھی خُوب جانتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں
نے کسی بھی معاملے میں امریکا کا نام اپنی زبان سے لے لیاتو یہ ناراض
ہوجائے گااور اِس طرح اِن کے اِس ذراسے عمل سے آئندہ انتخابات میں اِن کے
لئے مشکلات بھی پیداہوسکتی ہیں ہمارے حکمران اور سیاستدان اِس وجہ سے
امریکا کا نام اپنی زبان سے خُودلیناگوارہ نہیں سمجھتے ہیں، جبکہ امریکاکھل
کر پاک ایران گیس منصوبے کی مخالفت کررہاہے اَب ایسے میں پاکستانی قوم کو
ایسالگتاہے کہ جیسے میرے ملک کے حکمران ایک امریکا ہی سے کیا ...؟بلکہ
اوگراسے بھی ڈرتے اور اِس کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں ۔ یہ تب ہی تو اِن
کے اشاروں پر اُلٹے سیدھے اقدامات کرتے رہتے ہیں جوکہ اِنہیں نہیں
کرناچاہئے جس سے اِن کی اپنی قابلیت خطرے میں پڑجاتی ہے۔ |