ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیوں پر عوام
اور اقتصادی ماہرین کے تمام تر تحفظات کے باوجود قومی اسمبلی کی قائمہ
کمیٹی برائے خزانہ نے کالے دھن کو سفید کرنے کی ایک اور اسکیم ٹیکس قوانین
کے ترمیمی بل 2012ءکی صورت میں منظور کرالی۔حکومت کیجانب سے اپنی رخصتی کے
آخری ایام میں ایسی اسکیمیں منظور کی جا رہی ہیں جس کا سراسر فائدہ اُن با
اثر افراد کو پہنچ رہا ہے جو سالوں سال ، قومی دولت لوٹتے رہتے ہیں یا ٹیکس
چوری کرکے ملکی معیشت کو ملکی و غیر ملکی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں ،
پاکستان کو غلامی میں جکڑادےتے ہیں اور پھر ، حکومت سے ساز باز کرکے ،معمولی
جُرمانے کی ادائیگی کرکے مزید قومی خزانے کو لوٹنے کا سٹریفیکیٹ ،اداروں سے
حاصل کرلیتے ہیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر شعب سڈل نے جب ٹیکسوں کی ناکافی
وصولی کے ہوش ربا انکشافات کئے تو ، اس سے ہمارے پالیسی سازوں کی قلعی کھل
کرسامنے آگئی۔ان کے مطابق ملک کے ستر فیصد ارکان پارلمنٹ ٹیکس گوشوارے جمع
نہیں کراتے اور پاکستان میں سالانہ تیس کھرب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔وطن
عزیز کے اقتصادی مسائل کا بوجھ ،نظم حکومت کی خرابی ، وسائل پر قابض
اشرافیہ کی ہوس زر اور عوامی مسائل سے لاتعلقی کےساتھ حکمرانوں کی بے حسی
کا رویہ ہر گزرتا روز کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔یقینی طور پر ملک کے
پالیسی ساز ادارے ، گیس کی قلت ،بجلی بحران ، مہنگائی اور افراط زر کی
صورتحال کو حقیقی معنوں میں ، مربوط حکمت عملی اپنانے میں ناکام رہے
ہیں۔دانستہ حقائق سے چشم پوشی اور نا اہلی کے سبب ایک طرف عوام پر آئے روز
گیس ، بجلی ، پٹرولیم مصنوعات ، اناج اور دوسری ضروی اشیا ءکے نرخوں میں
اضافے کے تازنے برسائے جارہے ہیں تو حالیہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیوں کی منظوری
میں حکومت کےساتھ اپوزیشن جماعت کیجانب سے ساتھ دینے کے عمل نے ملکی وسائل
پر قابض ، اشرافیہ کے ٹھاٹھ بھاٹھ پر گرفت کرنے کے بجائے اضافے کےلئے
حکومتی اجازت کی چھتری دینے سے عوام کی قومی دولت کی لوٹ مار کا کوئی
پُرسان حال نہیں ہے۔اربوں روپے کے روزانہ نوٹ چھاپ کر حکومت اپنے اخراجات
پورے کرتے ہوئے ، ملکی کرنسی کی قدر کو گرانے میں تن من سے مصروف ہے۔سادگی
کے بجائے جس طرح پانچ سال حکومت میں رہنے والی جماعتوں نے شاہانہ انداز میں
گزارے ہیں ، یہ عوام ہی جانتے ہیں کہ ان کے شاہانہ اخراجات کی وجہ سے انھیں
، سیاسی جماعتوں کی مفاہمت اور فرینڈلی اپوزیشن سے کتنی بھاری قیمت اداکرنی
پڑ ی ہے اوریہ قیمت ، ان کی آئندہ نسلوں کو بھی ، کھایا پیا کچھ نہیں گلاس
توڑا بارہ آنے ،کے مصداق اتارنے ہونگے۔آئی ایم ایف کے ہاتھوں ملک کی آئندہ
نسل کو گروی رکھنے کےلئے آر جی ایس ٹی جیسے محصول کا نفاڈ اور ان کی دہمکی
، عوام کےلئے سوہان روح ہے کہ آئی ایم ایف طے کرچکا ہے کہ پاکستان کو اس کی
تمام کڑی شرائط کو ماننا ہوگا ۔معیشت و عمرانیات کے ماہرین ، تاجروں و
صنعتکاروں کے نمائندوں اورصاحبان دانش کے تمامتر تجزیے واشگاف کہہ چکے ہیں
کہ پاکستان میں غربت کی شرح 80فیصد تک عملی طور پر گر چکی ہے۔ٹیکسوں کا
ایسا نظام پاکستان میں رائج ہے جس میں صرف مڈل کلاس طبقہ اور غریب عوام کو
ضروری اشیا ءکی خریداری میں مہنگائی کے نام پر، بھتہ ، چارونا چار ادا کرنے
پڑتے ہی ہیں۔اور توقع یہی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں محصولات کی وصولی کا
یہ بوجھ غریب کے کندھے پر ہی رکھا جائے گا۔زراعت ملک کا ایک اہم شعبہ ہے کہ
اس جانب ٹیکس وصولی کے دائرے میں لانے کےلئے کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی
جاتی ، جبکہ زراعت کی ترقی کے شعبے میں حکومتی غیر سنجیدگی نے بھی بڑے
مسائل پیدا کئے ہیں۔ جبکہ تونائی بحران نے ملکی صنعتی اداروں اوردوسرے
شعبوں کی حالت زار کو درست اقدامات نہ کرنے سے بھی محصولات کی کمی میں ملکی
مالیاتی اداروں کی نا اہلی نے ، تماشہ بنا دیاہے۔اور ان منفی اثرات سے
صنعتی بحران اور کاروباری زندگی میں پڑنے والے منفی اثرات نہایت مایوس کن
حدتک بڑھتے جارہے ہیں۔گو کہ ایک جانب کچھ حلقے ریفارمڈ جنرل سیلز ٹیکس
لگانے کو قابل اعتراض نہیں سمجھتے ، لیکن ان کا مطالبہ ہے کہ پہلے حکومت
ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر کرے،ماہرین ور عالمی مالیاتی ادارے اس پر دو
رائے نہیں رکھتے کہ ٹیکس سسٹم سے باہر رہنے ولا ، زمینداروں اور جاگیرداروں
کو ملکی ٹیکس نظام میں لایا جانا انتہائی ضروری ہے۔مگر آر جی ایس ٹی میں
متوسط طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی مجبوری کی تکرار اور دانستہ طور پر
اس معاملے کو صوبائی مسئلہ قرار دیکر زرعی آمدنی کوٹیکس دائرے میں لانے کے
بجائے کبھی ٹریکٹروں وغیرہ کی زرعی محصولات کو زرعی ٹیکس قرار دیکر اربوں
روپے کی انکم کوٹیکس سے مستثنی قرار دینے کی ضد پر مصر ہیں، اور بدقستی سے
اب یہی روش ٹیکسٹائل سیکٹر ، شوگر انڈسٹری ، حصص کے کاروبار اور جائداوں کی
صنعت کو ٹیکسوں کے دائرے میں لانے سے گریز کی راہ میں بڑی رکاﺅٹ ثابت ہورہے
ہیں۔حکومتی مشنری موجودہ ٹیکس سسٹم کے تحت ہی ٹیکس وصولی کے اہداف کو
کماحقہ وصول کرنے میں ناکام نظر آتی ہے تو اور محصولات میں کرپٹ عناصر
اربوں روپوں کی خرد بُرد کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب جنرل ٹیکس کے نام
پرصارفین سے جبری و مجبوری میں وصول کی گئی اربوں اور کھربوں روپوں کو دن
رات ہڑپ کرنے میں مصروف ہیں اور انھیں پوچھنے ولا کوئی نہیں ہے۔سالانہ تیس
کھرب روپے کی ٹیکس چوری سے چشم پوشی اور غریب متوسط طبقے سے اُن کی محنت کی
کمائی کو نچوڑنے سے ملک اقتصادی بحران سے نہیں نکل سکتا۔ٹیکس ایمنسٹی
اسکیموںکے ذریعے ، ٹیکس چوروں کو مراعات دینے سے ،،وقتی طور پر پر محض چند
ارب قومی خزانے میں خیرات سمجھ کر لوٹائے تو ضرور دئےے جاتے ہیں لیکن ماضی
میں اپنانے واالی یہ ایسی تمام اسکیمیں ناکام رہی ہیں لیکن ، حکومت کےلئے
اور سرمایہ دار اور ٹیکس چوروں کےلئے کسی جنت کی خوش خبری سے کم نہیں ہوتی۔
انتظامیہ انتہائی کرپٹ ، نااہل اور ٹیکس چوروں کی سرپرست بنی ہوئی ہے جو ہر
تین سال بعد انھیں معمولی رقم کے عوض ، کھربوں روپوں کو بیرون ملک ،بھیجوانے
کا ایک اورسنہراموقع فراہم کردیتی ہے۔قومی خزانے کو کھربوں روپوں کا سالانہ
نقصان مختلف مددات میں ہورہا ہے اور کرپٹ اہلکاروں کی تطہیر کا عمل خود
جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس لئے ضروری ہے کہ عوام ایسے ٹیکس چوروں کا
راستہ پارلیمنٹ میں جانے سے روکے ، ٹیکس چوروں کی جائیدایں ضبط کرکے قومی
تحویل میں لی جائیں ، ٹیکس چور کے تمام خاندان کو پاکستان میں کسی بھی سطح
کے الیکشن میں پابندی ہو ،ان سب کا نام این ایل سی میں ڈال کر بیرون ملک ،
پورے خاندان کو باہر ملک فرار ہونے کے تمام راستے مسدود کرے، لائیو اسٹاک
سمیت تمام ضروری اشیاءکی افغانستان ،بھارت ، ایران کے لئے اندھادھند بر آمد
اور اسمگلنگ روک کر ملکی ضرورت کی پہلے تکمیل کو یقینی بنایا جائے ،نقد
رقوم سے خریداری کے بجائے ڈیبٹ کارڈ سسٹم کو رائج کیا جائے، تمام سرکاری و
غیرسرکاری اداروں اور تمام خرید و فروخت کو بنک ادروں کے ذریعے ادائیگی ،کے
ذریعے ممکن بنایا جائے۔تما م سرکاری افسران کو مراعات کی صورت میں لامحدود
اخراجات کرنے پر پابندی کرائے جائے ، پڑوسی ہم خیال ممالک سے اپنی ملکی
کرنسی کے ذریعے ، اخراجات کی ادائیگی کو ممکن بنا ئی جائے۔سودی نظام کو ختم
کرنے کےلئے ،ملکی ذرائع پر تکیہ کیاجائے ، متوقع انتخابات کے موقع پر ایسے
امیدوارن کوکامیاب کرایا جایا ، جو ملکی معیشت کو بیرونی بیساکھی کے بغیر
کاکھڑا کرانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔بیرونی امداد و قرضوں پر انحصار کم کیا
جائے ، دفاعی بجٹ کو کم کرایاکیا جائے ،رینجرز کو واپس بیرکوں میں بھیج کر
اضافی اخراجات کم کئے جائیں۔مراعات اور بیرون ملک دوروں میں شاہانہ لاﺅ
لشکر کو ختم کیا جائے، ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کو رائج کرنے کے بجائے ٹیکس
وصولی کے نظام کو مضبوط وسخت اور بلا متیاز ممکن بنانے کی حکمت اپنائی جائے۔
صدر و زیراعظم سمیت تمام گورنرز اورصوبائی وزرائے اعلی سمیت تمام خفیہ اور
صوابیدی فنڈ فوری ختم کردئےے جائیں۔تو پھرممکن ہے کہ ان پالیسوں سے ٹیکس
چوروں کی حوصلہ شکنی ہو اور ،قانون کی عملدر آمد سے اضافی اخرجات جہاں کم
ہونگے ، تو دوسری جانب ،کالے قانوں کی صورت میں ٹیکس چوروں کو تحفظ بھی
نہیں مل سکے گا ۔ٹیکس چوروں کو جب تک بلا امتیازسخت سزائیں نہیں دیں جائیں
گی ،اُس وقت تک ٹیکس ادائیگی کو فروغ اور کالے دھن کوسفید کرنے کی حوصلہ
شکنی ممکن نہیں ہے۔ |