مرکزی وزرائے داخلہ اور مسلمان

صرف اور صرف مسلمانوں ہی کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی سرکاری پالیسی میں (2014ء یا اس سے قبل ہونے والے عام انتخابات کی قربت کے باوجود) تا حال کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہونے کا ثبوت دلسکھ نگر میں دھماکوں کے بعد مختلف تحقیقاتی اداروں کا رجحان اور طرز عمل ہے۔ حسب روایت بلکہ حسب معمول مسلمان ہی نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ دھماکوں کے بعد ٹی وی چیانلز نے ایک گھنٹے کے اندر اعلان کردیا کہ شک کی سوئی انڈین مجاہدین پر آکر ٹک گئی ہے۔ اس کا جواز یہ بتایا گیا کہ امونیم نائٹریت کا استعمال بم سازی میں ہوا ہے اور بموں کو سائیکلوں پر رکھا گیا تھا‘‘۔

مرکزی وزیر داخلہ شنڈے خود کو یہ کہہ کر بری الذمہ کرلیا تھا کہ افضل گرو کی پھانسی کے بعد دہشت گردی متوقع تھی اس لئے تمام ریاستوں کو اس کی اطلاع دے کر ’’الرٹ‘‘ (مستعداور چوکس رہنے کے لیے کہہ دیا گیاتھا ۔ اس طرح انہوں نے ) خود کو اور مرکزی حکومت کو بری الذمہ کرلیا۔ لیکن مسلمانوں کو نشانہ بنانے یا بنائے جانے کے لئے موصوف نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ قصاب اور افضل گرو کو پھانسی کے بعد گڑ بڑ اور پرتشدد احتجاج کا خطرہ تھا اس لئے چوکسی اختیار کی گئی تھی ۔ شنڈے کا یہ بیان بھی ان کے دوسرے بیانات اور اقدامات کی طرح ہی نہ صرف متنازع ہے بلکہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی تائید کرتا ہے۔ مسلمانوں کی قصاب سے ہمدردی اور اس کی پھانسی پر افسوس اور ناراضگی کا سوال نہیں پیدا ہوتا ہے تو احتجاج، گڑ بڑ یا تشدد دور کی بات ہے۔ آزادی کے بعد مسلمانوں نے پرتشدد احتجاج شائد ہی کبھی کیا ہو ( جموں و کشمیر کی بات اور ہے کیونکہ اٹوٹ انگ زور دے کر کہے جانے والے علاقہ کے مسلمان باشندوں کو اپنا نہیں سمجھا جاتا ہے اسی لئے وہ ضرور تشدد کو اپنائے ہوئے ہیں) ملک بھر کے مسلمان پرتشددتو دور رہا پرامن احتجاج بھی کم ہی کرتے ہیں۔ بابری مسجد کے بارے میں بے شما ر نا انصافیاں عدالتی فیصلوں کے نام پر روا رکھی گئیں ۔ حد تو یہ ہے کہ عقیدے کے نام پر قانون کو بالائے طاق رکھ دیا گیا لیکن مسلمان نے اف تک نہ کیا۔ افضل گرو کو جب عدالت عظمیٰ نے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے سزائے موت دے دی تو تب بھی مسلمانوں نے عدالت عظمیٰ سے یہ سوال نہیں کیا کہ اجتماعی ضمیر سے کیا مرادہے؟ اور یہ کیسے معلوم کیا گیا کہ وہ اپنی تسکین کے لئے کیا چاہتا ہے؟ تو پھانسی دے دینے پر مسلمان بھلا کیا کرلیتا؟ شنڈے صاحب کا یہ بیان اپنی غلطیوں اور نااہلی کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے اور ساتھ ہی اس طرح شنڈے نے بلاکسی جواز کے نہ صرف غلط بات کی بلکہ فتنے اٹھانے والی بات کہی ہے ۔ کوئی محب وطن قصاب کی پھانسی پر اعتراض نہیں کرسکتا ہے۔ اعتراض و احتجاج کرنے والا ملک کا وفادار نہیں ہے اور یہ بات تو نہ صرف بعید از قیاس بلکہ بعید از امکان ہے کہ کوئی غیر مسلم قصاب سے ہمدردی کرے یہی صورت مسلمان کے لئے بھی ہے۔ سنگھ پریوار مسلمانوں کی وفاداری پر جس طرح شک کرتا ہے اسی طرح مرکزی وزیر داخلہ نے یہ بات بالراست کہی ہے جو احتجاج کے متقاضی ہے۔

مرکزی حکومت کے وزرائے داخلہ میں سے بہت کم نے مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے۔ سردار پٹیل سے لے کر شنڈے نے ایک ہی قسم کا رویہ اختیار کیا ہے۔ شنڈے کے پیشرو چدمبرم نے بھی مسلمانوں کو شدید مایوس کیا۔ انہوں نے منموہن سنگھ کے سابق مشیر قومی سلامتی نارائنن نے جو فرمایا تھا کہ بٹلہ ہاؤس میں پولیس کے غیر قانونی اقدامات پر سوال اٹھانے والے دشمن ملک و قوم ہیں۔ چدمبرم نے اسی کو آگے بڑھایا اور بٹلہ ہاؤس معاملے کو دبانے اور حقاؤ کو چھپانے میں چدمبرم نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ چدمبرم سے پہلے شیوراج پاٹل تھے۔ موصوف اپنے رہن سہن کے ساتھ اپنے لباس اور اپنی شخصیت پر جتنی توجہ دیتے تھے وہ اگر اس کا تھوڑا سا حصہ بھی اگر مسلمانوں پر لگائے جانے والے الزامات (بہ سلسلہ دہشت گردی) کی غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیق پر مرکوز کرتے تو بات اتنی زیادہ بگڑتی نہیں۔ سردار پٹیل (ملک کے پہلے وزیر داخلہ) سے لے کر شنڈے تک تمام وزرائے داخلہ کے مسلمانوں کے ساتھ رویہ اور سلوک میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے تاہم ان میں بی جے پی کے اڈوانی کو بے شک منفرد مقام حاصل ہے۔

وزیر داخلہ کی حیثیت سے اڈوانی سے قبل تمام وزرائے داخلہ کسی معاملہ میں مسلمانوں کی بے شک مدد نہیں کی تھی لیکن مسلمانوں پر راست الزام تراشی بلکہ بہتان لگاتے رہنے کی جرأت سب سے پہلے اڈوانی نے ہی کی۔ 9/11سے پہلے دراندازی ، جاسوسی، تخریب کاری (دہشت گردی کی اصطلاح مقبول ہونے یا 9/11سے قبل دہشت گردی کو ہی تخریب کاری کہا جاتا تھا)۔ اڈوانی نے ہندوتوا کے منصوبے کے مطابق 9/11سے قبل مسلمانوں کو پاکستان سے آنے والے درانداز، تخریب کار، جاسوس، ایجنٹ کہنا شروع کیا اور عام مسلمانوں کو پاکستانی جاسوسوں، ایجنٹوں کو پنا دینے والے کہا۔ شہر حیدرآباد کے مسلمانوں کے قدرے بہتر حالات ہندو توا اور دیوں کو اچھے نہ لگتے تو بھلا اڈوانی کو کیسے لگتے؟ حیدرآباد کو انہوں نے پاکستانی دراندازوں، تخریب کاروں ، جاسوسوں اور ایجنٹوں کی پناہ گاہ بلکہ مرکز یا اڈہ ہی قرار دیا تھا چنانچہ این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کے وزرائے اعلیٰ کروناندھی، جیہ للیتا، چندرا بابو نائیڈو اور مرلی منوہر نے ٹاملناڈو، آندھراپردیش اور مہاراشٹرا وغیرہ کی پولیس این ڈی اے کے دور میں ہی مسلم دشمن بن گئی۔ جعلی پولیس مقابلے بھی اسی دور کی یادگار ہیں کیونکہ تب ہی سے ان کا زور ہوا۔

9/11کے بعد تو مسلم دشمنی کے لئے استعمال ہونے والی تمام اصطلاحات کی جگہ صرف دہشت گردی کا نفاذ ہوا۔ دہشت گردی کو مسلمانوں سے نہ صرف موسوم بلکہ مخصوص کرنے میں اڈوانی نے زبردست کردار ادا کیا ہے۔ اڈوانی سے سردار پٹیل تک بہتر تھے۔ مسلمانوں کے لئے آزاد ہندوستان میں اڈوانی اور مودی سے زیادہ خراب صاحب اقتدار شائد ہی کوئی اور ہو! 9/11کے امریکی و صیہونی ڈرامے سے قبل گجرات میں نریندر مودی کی درندگی اور مظالم کے سب سے بڑے مدد گار اور سرپرست اڈوانی ہی تھے۔ اڈوانی کی وجہ سے ہی واجپائی نریندر مودی کی برطرفی یا ہٹائے جانے سے کی۔ اپنی تجویز پر عمل نہ کرسکے تھے۔ مسلمانوں کو ساری دنیا میں دہشت گردی کا ذمہ دار بتاکر ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے میں مغربی دنیا اور صیہونیوں کا ہندوستان میں سب سے بڑا ساتھی حلیف اور مدد گار سنگھ پریوار سے بڑھ کر بھلا کون ہوسکتا تھا؟ چنانچہ جس طرح 9/11 کا ڈرامہ مسلم دشمنوں نے کرکے الزام مسلمان پر لگایا گیا۔ اسی کی تقلید ہندوتوا وادیو ں نے کی اور خود دہشت گردی کی اور الزام مسلمانوں پر عائد ہوا۔ اڈوانی نے ایسے بے شمار ڈراموں کی نگرانی و سرپرستی کی اور ’’کس کی خطا تھی کس کے سر گئی‘‘کاچلن عام ہوا۔ اڈوانی کے ان کالے کرتوتو پر بی جے پی کی حلیف جماعتیں نہ صرف خاموش رہیں بلکہ اکثر مواقع پر ان کی مدد گار بن گئیں۔ گودھرا میں سابرمتی اکسپریس کی ایک بوگی میں آگ لگانے کا الزام نریندر مودی نے مسلمانوں پر لگایا۔ وزیر ریلوے کی حیثیت سے نتیش کمار نے بغیر تحقیق کے تسلیم کرلیا اور اپنی ذمہ داری کو بالائے طاق رکھ کر ’’قاتل مودی کا آلہ ٔ قتل‘‘بن جانا پسند کیا اور مسلم دشمنی میں مودی کا بڑا ساتھ دیا۔

اڈوانی کے ہندوتوا کے علمبردار ہونے کے ناطے جو کچھ بھی کیا وہ کسی طرح بھی حیرت کا سبب نہیں ہے۔ حیرت و تعجب بلکہ انتہائی افسوس کا مقام تو کانگریسی اور یو پی اے کے وزرائے داخلہ کے رویہ پر ہے جنہوں نے نہ صرف اڈوانی اور ان کے ساتھیوں کی تقلید کی بلکہ بعض معاملوں میں آگے ہی رہے اور اپنے نرم ہندوتوا سے وہی کیا جو بی جے پی اور اس کے حلیفوں نے کیا تھا بلکہ کسی حدتک آگے ہی رہے۔

نریندر مودی کو ان کے کالے کرتوتوں اور مودی پر عدالت عظمیٰ کے ریمارکس کی روشنی میں مودی برطرف کیا جاسکتا تھا۔ 2008ء میں مہاراشٹرا پولیس کے ہیمنت کرکرے نے ہندوتوا کے علمبرداروں کی دہشت گردی کے خلاف ثبوت اکٹھے کئے تھے لیکن کرکرے کی پر اسرار موت کے بعد مہاراشٹرا پولیس نے اس پر توجہ دینا تو بڑی بات ہے اس کو ٹھپ کردیا۔ مرکزی حکومت مہاراشٹرا کی کانگریسی حکومت پر دباؤ ڈال کر کرے کے کام کو آگے بڑھاسکتی تھی لیکن مرکزی حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ سب ہی جانتے ہیں کہ دہلی، راجستھان، آندھراپردیش، آسام اور مہاراشٹڑا کی کانگریسی حکومت نے مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگاکر بی جے پی سے زیادہ مسلم دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھ لیں کہ دلسکھ نگر دھماکوں کے بعد دہشت گردی کے الزام میں جیل میں بند ہندودہشت گردوں کے بجائے دہشت گردی کے الزام سے بری کئے گئے مسلم نوجوانوں کو پوچھ کچھ کے بہانے ہراساں کیا جارہا ہے۔

کانگریس کی حکومت کا کمال یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے ملزم کرنل پروہت جیل میں بند رہ کر فوج سے تنخواہ لے رہے ہیں جبکہ مختصر مدت کے لئے زیر حراست رہنے والا ملازم فوراً معطل کیا جانا چاہئے۔

ہندو توا سخت ہو یا نرم مسلم دشمنی میں برابر ہے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166710 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.