قصور وار کنڈا کا غنڈہ نہیں سماج وادی پارٹی اور ملائم ہیں

ہندوستان میں مسلمانوں کو صرف فٹبال کی گیند کی حیثیت حاصل ہے جب جس کے جی میں آیا ایک کک مار دی ۔ کبھی کانگریس کے پالے ، میں تو کبھی بی ایس پی کے پالے میں تو کبھی سماج وادی پارٹی کے پالے میں۔ ہر پارٹی اپنے فائدے اور مقصد کے لئے انہیں استعمال کرتی رہی ہے۔ ہندوستان میں سیاست اور جرائم ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں ۔ مجرموں کا سکہ سیاست میں ہمیشہ سے چلتا رہا ہے۔ جب بھی کوئی افسر کسی مجرم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اس کا صفایا کردیا گیا۔ یوپی بہار اس معاملے میں کافی آگے رہا ہے ۔ اس طرح کے واقعات پورے ملک میں پیش آتے ہیں لیکن کچھ برسوں میں اس میں کمی آئی تھی لیکن گزشتہ سال مدھیہ پردیش میں ایک آئی پی ایس افسر کو پتھرمافیاؤں نے جس طرح بے رحمی سے کچل کر قتل کردیا اس کے بعد یہ بات ابھر کر سامنے آلگی تھی کہ کیا ایماندار افسر کے لئے ہندوستانی نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ 2009بیچ آئی پی ایس افسر نریندر کمار کو مدھیہ پردیش میں کان اور پتھر مافیاؤں کے اشارے پر 9مارچ 2012 کومورینا ضلع کے چمبل علاقہ بانمور میں قتل کردیا گیاتھا۔ اس قتل میں کان مافیا اور سیاست داں شامل تھے جن کا تعلق وہاں کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تھا۔ ٹریکٹر ٹرالی ڈرائیور کے علاوہ اب تک کسی سیاست داں پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ ایک عشرہ قبل بہار میں شہ زوروں کے ہاتھوں ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا قتل ہوا تھاجس میں لولی آنند کو سزا ہوئی تھی۔ ہندوستان میں رشوت اور بے ایمانی پر بہت شور مچایا جاتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا یہ چیزیں یہاں کے معاشرہ کے خون میں سرایت کرچکی ہیں۔ یہاں کے بارے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہاں کے بیشتر لوگ پیدائشی طور پربے ایمان ہوتے ہیں بہت سے وہ لوگ رہ جاتے ہیں جنہیں موقع نہیں ملتا۔ اگر موقع مل جائے تو وہ بھی بے ایمانی کی گنگا میں ہاتھ دھونے سے کبھی پرہیز نہیں کریں گے۔ملک کے عوام کے بارے میں جسٹس کاٹجو کی کہی گئی ہر بات سو فیصد درست لگتی ہے۔ ہم آئے دن اس کامعائنہ کرتے ہیں ۔ جب یہاں انصاف کی دیوی کی آنکھ پر پٹی بندھی ہوتی ہے تو انصاف کیسے ممکن ہے۔ایماندار پولیس افسران ہمیشہ پریشان حال رہتے ہیں جہاں ان پر اپنے ساتھوں کی تلوار لٹکتی رہتی ہے وہیں وہ سیاسی لیڈروں کے نشانے پر بھی ہوتے ہیں۔ اسی لئے ہر افسر رشوت لینے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ اکھلیش یادو کے اقتدار سنبھالتے ہی ریاست میں امن و قانون کا مسئلہ زبردست طریقے سے کھڑا ہوا ہے خصوصاً مسلمانوں کے حوالے سے حالات بہت دگرگوں ہوئے ہیں۔ ایک سال کے کم عرصہ میں مسلمانوں کے خلاف 9بڑے فسادات ہوئے ہیں۔ جس میں یکطرفہ طور پر مسلمانوں کی جان و مال کا نقصان ہوا ہے۔ ان فسادات میں استھان کا فساد بھی شامل تھا جس میں رگھو راج پرتاپ عرف راجابھیا کے غنڈوں نے چن چن کر مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگایا تھا مسلم خواتین کی آبروریزی کی تھی۔ اس کی تفتیش سی اواور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ضیاء الحق کر رہے تھے۔ اپنی تفتیش کی رپورٹ وہ 12 مارچ کو پیش کرنے والے تھے۔ انہوں نے راجا بھیاکے ڈھائی سو قریب غنڈوں کی شناخت کی تھی لیکن رپورٹ پیش کرنے قبل ہی انہیں انصاف کے راستے سے ہٹادیاگیا۔ یہ پہلے افسر نے نہیں تھے جنہیں راجا بھیا نے قتل کروایا ہے۔

کنڈا میں تعینات ڈی ایس پی ضیاء الحق کا شمار بہت ہی ایماندار افسر میں ہوتا تھا وہ ذاتی طور پر سرکاری گاڑیوں کے استعمال سے پرہیز کرتے تھے۔ کہیں کہیں تو وہ کسی تقریب میں سائکل چلاکر پہنچ جایا کرتے تھے جب کہ اس دور میں معمولی درجے کانسٹبل بھی موٹر سائیکل سے کم استعمال نہیں کرتا۔2008 میں جب ضیائالحق پی پی ایس امتحان پاس کیا تو پروین آزاد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم مکمل کر چکی تھیں۔ بہار کے ضلع سیوان کے بابودین آزاد کی بیٹی ڈاکٹر پروین آزاد سے ضیاء الحق کی نومبر 2011 میں کی منگنی ہو ئی تھی اور پھر 21 جنوری 2012 کو شادی ہوئی تھی۔ ضیاء الحق اور ڈاکٹر پروین آزاد کی شادی کا سفر محض 384 دن کا ہی رہا۔گزشتہ ۳ مارچ کوضلع پرتاپ گڑھ کے کنڈا علاقے بلی پور میں جس طرح بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیااور اس کی حفاظت کے لئے تعینات پولیس اہلکار جس طرح انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے جب کہ ان کا کام حفاظت کرنا تھا ۔ یہ کوئی اچانک پیش آنے والا واقعہ نہیں تھا۔ جو کچھ بھی ہوا اس کی اسکرپٹ پہلے ہی تیار کی جاچکی تھی۔ پرتاپ گڑھ میں گرام پردھان کے قتل کے بعدجائے واردات کا معائنہ کرنے کے لئے ڈی ایس پی ضیاء الحق گئے تھے۔ جس بھیڑ نے ان پر حملہ کیا وہ کوئی اور نہیں رگھوراج عرف راجیہ بھیا کے حامی تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے اس قتل کی سازش رچنے والے اور اپنے حامیوں کے ذریعہ انجام تک پہچانے والے مجرم کو اب تک آزاد چھوڑ دیاگیا تھا۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی اکھلیش یادو نے کنڈا میں جا کر کہا تھاکہ پولیس افسر ضیاء الحق سمیت تین افراد کے قتل کے معاملے کی پوری طرح جانچ کی جائے گی جس میں تمام باتیں نکل کر سامنے آئیں گی۔وزیر اعلی نے بعد میں ننہے یادو اور اس کے خاندان والوں کو بھی پرسہ دینے گئے اور امدادی رقم کا چیک بھی دیا۔ سماج وادی پارٹی کے مقامی رہنماؤں نے بھی وزیر اعلی پر دباؤ ڈالا تھاکہ گرام پردھان کے خاندان کو نظر انداز سے غلط سیاسی پیغام جا رہا ہے اور اس سے سماج وادی پارٹی کو سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔ اکھلیش یادو نے اس کنبہ کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سی بی آئی جب جانچ کرے گی تو منصفانہ باتیں سامنے آجائیں گی۔ انہوں نے کہا تھاکہ جو ذمہ داری حکومت کی طرف سے ادا کی جانا چاہئے، وہ ادا کردی گئی ہے۔ پولیس افسر ضیاء الحق کے لواحقین ان کے قتل میں کنڈا کے ممبر اسمبلی رگھوراج پرتاپ سنگھ عرف راجہ بھیا کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔اکھلیش یادو نے کہا کہ اس واقعہ پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ پروین آزاد کے مطابق وہ بہت بہادر اور ایماندار تھے۔ ہمیشہ ایمانداری کی بات کرتے تھے۔ جب ہم لوگوں کی بات ہوتی تھی تو میرے شوہر گاؤں میں ایک اچھا اسکول اور اسٹیڈیم بنوانے کی بات کرتے تھے تو میں گاؤں میں ہسپتال کھول کر سماجی خدمت کی بات کرتی تھی تو وہ قہقہے مار کر ہنستے ہوئے بولتے تھے تمہارا اور میرا خیال اور مقصد ایک دوسرے سے کافی ملتا جلتا ہے۔ اللہ چاہیں گے تو یہ خواب جلد ہی شرمندہ تعبیر ہوگا۔ جب ان کی تعیناتی کنڈا میں گزشتہ سال اگست ماہ میں ہوئی تھی ایک دن کے لئے ہاسٹل سے مجھے وہاں لے گئے تھے۔ رات میں کھانے کے وقت ہی اپنے آپ کو غیر محفوظ ہونے کی بات بتائی تھی۔ شہید ضیاء الحق کی بیوی ڈاکٹر پروین کو اپنے اور اپنے خاندان کے تحفظ کا خوف ستا رہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہیں۔ڈبڈبائی آنکھوں سے ڈاکٹر پروین بتاتی ہیں کہ جس طرح سازش کے تحت ان کے شوہر کو قتل کیا گیا ہے اس سے وہ اپنے اور اپنے خاندان کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں کوئی لڑائی نہیں لڑ رہی ہوں اور نہ ہی کوئی مہم چھیڑ رکھی ہے بلکہ انصاف کے لئے آواز اٹھا رہی ہوں تاکہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہ ہواورہمارے لیڈر اور افسر سوچنے کے لئے مجبور ہوجائیں۔

اس قتل کے لئے مکمل طورپر ذمہ دار جرائم پیشہ سیاست داں رگھوراج پرتاپ سنگھ عرف راجا بھیاکوجرم وارثت ملا ہے۔ صرف ان پر ہی درجنوں مقدمات درج نہیں ہیں بلکہ ان کے والد پر بھی درجنوں مقدمات کنڈا تھانہ میں درج ہیں لیکن پولیس ا ب تک ان کا بال بھی باکا نہیں کرپائی ہے۔ سولہ سال پہلے 1996 اترپردیش کے سابق وزیر اعلی کلیان سنگھ نے پرتاپ گڑھ ضلع کے کنڈا کے غنڈہ کے خلاف قصبے میں ہنکار بھری تھی اور صفحہ ہستی سے ختم کرنے کی بات کہی تھی لیکن جب مایاوتی نے حمایت واپس لی تو کلیان سنگھ نے صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات فراموش کرتے ہوئے پہلی بار رگھو راج کو کابینہ میں شامل کیا تھا۔ پندرہ سال پہلے کنڈاکے تھانے کے ریکارڈ میں راجا بھیا اور ان کے والد ادے پرتاپ سنگھ کے خلاف دھوکہ دہی سمیت قتل کے کئی مقدمات درج تھے اور ان کا نام علاقے کے "ہسٹری شیٹروں" میں شامل تھا۔"ان کے والد کے بارے میں پولیس ریکارڈ میں درج ہے کہ وہ 20 ارکان والا مجرم گروہ کے سرغنہ ہے۔ دستاویز کے مطابق ادے پرتاپ سنگھ خطرناک ہتھیاروں سے خود کو آراستہ کرنا پسند کرتے ہیں اور آج کے اس آزادی کے دور میں اپنے سماج مخالف خیالات کی بنیاد پر "الگ ریاست" قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کنڈا کے ایک مسلم گاؤں میں 1991-92میں ہونے والے مسلم کش فساد کا بھی راجا بھیا کو ماسٹر مائنڈ تسلیم کیا جاتاہے۔" ادے پرتاپ سنگھ خود دون سکول سے تعلیم یافتہ تھے لیکن انہیں راجہ بھیا کو رسمی تعلیم دیئے جانے پر اعتراض تھا۔ ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرنے سے راجا بھیا بزدل ہوجائیں گے۔ راجہ بھیا نے صرف 24 سال کی عمر میں سیاست میں ہاتھ آزمایا اور آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب جیت لیاتھا۔ مایاوتی نے جب کلیان سنگھ حکومت سے حمایت واپس لی تھی تب راجا بھیا نے حکومت بچانے میں کلیان سنگھ کو بھرپور مدد دی تھی۔ مایاوتی کے دور حکومت میں ان پر پوٹا قانون کے تحت مقدمہ درج کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن سماج وادی پارٹی کے جیتتے ہی وہ پھر اتر پردیش کی سیاست کے مرکز میں آگئے تھے۔ ملائم سنگھ نے 2003 میں اپنی حکومت کا سب سے پہلا کام جو انجام دیا تھا وہ راجا بھیا کی رہائی کا حکم تھا اور ان کے خلاف پوٹا کے تحت الزام واپس لے لئے تھے تاہم سپریم کورٹ نے پھر بھی راجہ بھیا کو رہا کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ راجا بھیا کو گرفتار کرنے والے پولیس افسر آریس پانڈے نے شکایت درج کروائی کہ راجا بھیا انہیں پریشان کر رہے ہیں۔کچھ وقت بعد آر ایس پانڈے ایک سڑک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے ۔دوبار2007 میں ہ مایاوتی برسراقتدار آئیں تو راجا بھیا کو دبارہ جیل جانا پڑا۔ 2012 میں سماج وادی پارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی اور باہر سے کسی کی حمایت کی ضرورت باقی نہیں تھی اس کے باوجود آزاد امیدوار کے طور پر فتح حاصل کرنے والے راجا بھیا کو ملائم سنگھ نے اکھلیش حکومت میں شامل کروایاتھا۔اس سے راجا بھیا اور ملائم سنگھ کے رشتے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور اتنے جرائم کرنے کے باوجود وہ آزاد کیوں گھوم رہے ہیں۔ ڈاکٹر پروین آزاد کی نامزد ایف آئی آر درج کرانے کے باوجود رگھو راج پرتاپ کی گرفتاری نہ ہوناسماج وادی پارٹی سے ان کے گہرے رشتے کا بین ثبوت ہے۔

ڈی ایس پی ضیاء الحق کا بہیمانہ قتل، کوسی کلاں میں تین مسلمانوں کا قتل (دو کو زندہ جلاکر)ٹانڈا میں ابھی حالیہ مسلمانوں کی دکانوں اور مکانوں کو آگ لگانا، فیض آباد کا فساد، استھان میں مسلمانوں کے گھر جلانے اور مسلم خواتین کی عصمت تار تار کرنے کے واقعات سمیت نو سے زائد مسلمانوں کے خلاف فسادات اکھلیش یادو حکومت میں تقریباَ ایک سال کے دوران پیش آئے ہیں۔ اس میں اب کوئی شبہ اور گنجائش نہیں رہ گئی ہے کہ ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہی راہ پر چل رہی ہے۔ جہاں وہ ہندوؤں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ عام ہندؤں کو پریشان تو کیا خاطی ہندو کو بھی سزا نہیں دیں گے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ کوسی کلاں فسادات میں نامزد قاتل کو کھلے عام گھوم رہے ہیں جن کے (مسلمان) گھر کو جلایا گیا انہیں ہی قومی سلامتی ایکٹ کے تحت بند کردیا گیا۔ سماج وادی پارٹی مسلمانوں کے خلاف جرائم کے تئیں کتنا حساس ہے اس کا ثبوت 9 مارچ کو میرٹھ میں دئے گئے سماج وادی پارٹی کے جنرل سکریٹری پروفیسر رام گوپال یادو کا بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ڈی ایس پی ضیاء الحق کا قتل کوئی بڑا معاملہ نہیں ہے میڈیا خواہ مخواہ اسے طول دے رہاہے۔ جس دن میڈیا اسے چھوڑ دے گا وہ ختم ہوجائے گا۔ ایک مسلمان پولیس افسر کا قتل کوئی بڑا واقعہ کیسے ہوسکتا ہے۔ سماج وادی پارٹی کی مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچ ہے یہ رام گوپال یادو کے بیان سے ظاہر ہے۔سماج وادی پارٹی حکومت میں منصفانہ تفتیش کی امید کرنا سوئی کے ناکے سے اونٹ نکالنے کے مترادف ہے۔ جن پانچ شہ زوروں کا نام آتا ہے ان میں تین مسلمان شہاب الدین (سیوان)، مختار انصاری(اعظم گڑھ)، عتیق احمد ا (الہ آباد)،. راجہ بھیا (کنڈا)اور ڈی پی یادو ہیں۔ تینوں مسلمان جیل میں ہیں لیکن راجہ بھیا اور ڈی پی یادو آزاد ہیں کیوں ؟۔ دراصل سماج وادی پارٹی حکومت اکثریتی فرقہ کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ خواہ زبان سے جتنی بھی مسلمانوں کی بھلائی کی بات کریں لیکن ان کی زندگی اجیرن کرنے اور انہیں جیل میں ڈالنے میں وہ کسی بھی پارٹی سے پیچھے نہیں ہے۔ یہ تمام تیاریاں 2014 کے پارلیمانی الیکشن کے سبب ہے۔ کابینی وزیر اعظم خاں نے صحیح کہا ہے کہ اس واقعہ سے سماج وادی پارٹی کو نقصان ہوگا۔ ملائم سنگھ یادو 2014 میں وزیراعظم بننے کا خواب سجائے ہوئے ہیں وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا کیوں کہ مسلمان بہت بے وقوف بن چکے ہیں اب نہیں بنیں گے۔ ملائم سنگھ یو سوچتے ہیں چند لاکھ روپے دینے سے زخم مندمل ہوجائیں گے تو احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔
Abid Anwer
About the Author: Abid Anwer Read More Articles by Abid Anwer: 132 Articles with 77220 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.