آخری دن سندھ حکومت کی لوٹ سیل

عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والی سندھ حکومت کو عوام کے جائز مطالبات پورے کرنے کے لیے مکمل پانچ سال ملے ۔ان پانچ سالوں میں منتخب حکومت نے جو عوام کو دیا وہ سب کے سامنے ہے،آئے دن مختلف قسم کے مسائل سے عوام کو دو چار کیا جاتا رہا۔شاید ہی کسی دن عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہوا ہو،لیکن حکومت نے خود مزے لوٹنے اور عیاشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا، حکومت کی مدت ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے بھی سندھ حکومت کو اپنے ارکان کی ہی فکر رہی،حکومت نے سوچا کہ شاید پھر کبھی دوبارہ موقع نہ ملے، اس لیے موجودہ وقت کو ہی غنیمت جانتے ہوئے، اپنے لیے جتنے فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں سمیٹ لیے جائیں، لہٰذا سندھ اسمبلی نے منتخب حکومت کے آخری دن بھی ارکان سندھ اسمبلی کے لیے ذاتی مفادات اور تاحیات مراعات کے بل منظور کیے۔ چند گھنٹے کی مہمان اسمبلی کے ارکان نے جاتے جاتے اپنی تنخواہوں اورمراعات میں ساٹھ فیصد تک اور تاحیات ذاتی مفادات ومراعات کے بل منظورکرلیے۔ اپوزیشن کی مراعات سے متعلق بلوں کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظوری دی گئی۔

جمعرات کے روزسندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر نثار احمد کھوڑو کی صدارت میں شروع ہوا۔ قانون سازی کے دوران ایوان نے صنعتی تعلقات بل دو ہزار تیرہ کی منظوری دی۔ مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلزپارٹی کے اراکان نے سندھ کے جزائر وفاق کو دینے کے خلاف قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی، انہیں اس کی اجازت نہیں ملی جس پر اپوزیشن ارکان نے احتجاج کرتے ہوئے شور شرابہ شروع کردیا، اس دوران وزیر قانون ایاز سومرو نے سندھ صوبائی اسمبلی اراکان کے استحقاق کا ترمیمی بل دو ہزار تیرہ پیش کیا۔ جس کے تحت تما م سابق ارکان اسمبلی مدت ختم ہونے کے بعد بھی سرکاری مہمان خانے، آرام گاہیں، سندھ ہاو ¿سز اسلام آباد، گوادر سرکاری نرخوں پر استعمال کرسکیں گے۔ عمر بھر کے لیے سندھ اسمبلی سیکرٹریٹ، لائبریری اور اسپیکر گیلری کے پاسز حاصل کرسکیں گے۔ تمام ائیرپورٹس پر وی آئی پی لاونج استعمال کرسکیں گے۔ تمام عمر سرکاری گرین پاسپورٹس اپنے اور اہل خانہ کے لیے حاصل کرسکیں گے اور چار ہتھیاروں کے لائسنس، ان کی تجدید سرکاری ملازمین کی فیس پر کراسکیں گے۔ مسلم لیگ فنکشل اور نیشنل پیپلزپارٹی کے ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے احتجاج کرنے لگے تو وزیر قانون ایاز سومرو اپوزیشن کے احتجاج کو ڈرامہ قرار دیتے رہے۔ اپوزیشن ارکان بعد میں واک آؤٹ کرگئے۔ وزیر قانون نے سندھ کے وزرا کی تنخوہوں الاو ¿نسز اور استحقا ق سے متعلق بل پیش کیا جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ اس بل کی متحدہ قومی موومنٹ اور نیشنل پیپلزپارٹی اور فنکشنل لیگ کے ارکان نے مخالفت کی۔ ایوان نے سندھ خصوصی اسسٹنٹ (مقرری، اختیارات، کام، تنخواہیں الاؤنسز اور استحقاق) ترمیمی بل دو ہزار آٹھ، سندھ اسمبلی اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہیں الاؤنسز اور استحقاق ترمیمی بل دو ہزار نو بھی کثرت رائے سے منظورکرلیے۔ پیپلزپارٹی کے اراکان بلوں کی منظوری کیلئے ہاں اور ایم کیو ایم کے اراکان نہ کرتے رہے۔ مسلم لیگ فنکشنل کے اراکین ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔

یاد ہے کہ پرویز مشرف ایک عرصہ تک ملک کے صدر رہے اور جب ان کی صدارت کے آخری ایام تھے تو انہوں نے بھی اس وقت کو غنیمت جانتے ہوئے تاحیات اپنے لیے مراعات منظور کروالیں تھیں۔ جس کے مطابق ہرسابق صدر کو تاحیات سیکورٹی فراہم کرنا حکومت کے ذمہ ہوگی۔ انہوں نے تمام زندہ صدور کے لیے یہ بل اس لیے منظور کیا تھا، تاکہ ان پر یہ الزام نہ آئے انہوں نے صرف اپنے لیے ہی فوائد حاصل کیے ہیں بلکہ دوسروں کا بھی بھلا ہوا ہے۔ اب سندھ حکومت نے اسی آمر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے لیے مفادات کی لوٹ سیل لگائی۔ اسی طرح سابق حکومت میں بھی حکومت چھوڑنے سے پہلے وزیر اعظم نے اپنے لیے تاحیات مراعات حاصل کرنے کا بل پیش کیا تھا، جس کے مطابق ایوان وزیراعظم کی پرتعیش رہائشگاہ چھوڑنے کے بعد سابق ہوجانے والے وزیراعظم کے لیے تاحیات تنخواہ کا 80 فیصد بطورپنشن، ڈیوٹی فری کار، اپنے بیوی اورزیرکفالت بچوں کے لیے سفارتی پاسپورٹ، ہتھیاریاگولہ بارود رکھنے سے متعلق پاکستان آرمزآرڈیننس 1965ءیا اس وقت نافذ قانون کی دفعات سے استثنٰی، ملک بھر میں سرکاری مہمان خانوں، ریسٹ ہاؤس اورسرکٹ ہاؤس تک بلامعاوضہ رسائی، سرکاری خرچ پر ذاتی مکان میں ٹیلی فون کی تنصیب اور مالی سال کے دوران 60ہزار روپے تک کی مفت کال کی سہولت، گریڈ 18کے ایک پرائیوٹ سیکرٹری کی خدمات،1سیکورٹی گارڈ، ڈرائیور، باورچی کی تاحیات سہولت، اپنے بیوی اورزیرکفالت بچوں کے لیے ملک اوربیرون ملک تاحیات مفت طبی سہولت، تاحیات مفت سرکاری رہائش اور اگر سرکاری رہائش دستیاب نہیں ہے تو 50 ہزار روپے ماہوارکرایہ، 2ہزاریونٹ تک ماہانہ بجلی اور10ایچ ایم 3تک گیس کی سہولت، گھریلواشیاءاورکاغذات وکتابوں کی منتقلی کے لیے ایک لاکھ روپے، 20ہزار روپے ماہانہ کارالاؤنس یا وہ رقم جو اس مقصد سے وفاقی حکومت وقتاًفوقتاً منظورکرے بشمول ان تمام مراعات پر کسی قسم کا انکم ٹیکس ناقابل ادائیگی ہوجیسی بے مثال مراعات اور فوائد کی منظوری کا بل پیش کیا تھا۔ حتٰی کہ وزیراعظم کی” بیوہ“کے لیے بھی ان تمام فوائد ومراعات کی تجویز دی گئی اوراس میں خاوند یعنی سابق وزیراعظم کی موت کی صورت میں پنشن بھی شامل تھی۔ سابق وزیراعظم کے لیے ان تمام بھاری اخراجات کی ادائیگی وفاقی حکومت کے کنسولیڈیشن فنڈ سے کی جانے کی تجویزدی گئی تھی۔

دوسری جانب حکومت سندھ نے آئندہ انتخابات میں اپنا ووٹ بنک بڑھانے اور بچانے کے لیے حکومت کے آخری دن نوکریوں کی لوٹ سیل لگائے رکھی۔الیکشن کمیشن کے احکامات نظرانداز کرتے ہوئے چند گھنٹوں کی مہمان سندھ حکومت نے جاتے جاتے کئی ہزار افراد کو بھرتی کیا۔ تعلیم، خزانہ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکموں میں لوگوں کی لاٹریاں نکل آئی ہیں۔ انتخابات میں چند ہی دن اورحکومت جانے میں کچھ ہی گھنٹے باقی رہ گئے تھے تو ایسے میں نوکریوں کو ٹوکریوں میں بھربھر کر بانٹا جاتا رہا۔ جاتی ہوئی حکومت بھرتیوں کے نام پر ایسی بندربانٹ کرتی رہی کہ نہ جانے نئی حکومت کو کب تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے تقرریوں پر پابندی کی ایسی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں کہ سننے والے کا ن اوردیکھنے والی آنکھوں کو یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ پنجاب حکومت نے ایک لاکھ کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کااعلان کیا، سندھ حکومت اس سے بھی آگے نکل گئی، ڈیڑھ لاکھ ملازمین کو مستقل کرنے کی نوید دے ڈالی۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں 250 بھرتیاں، محکمہ خزانہ میں 126 ملازمتیں جبکہ ملک کی ایک اعلیٰ شخصیت کے پاس تو پورے 2700 آفر لیٹرز منظور نظر لوگوں کے لیے موجود ہیں۔ محکمہ تعلیم سندھ کے زیر انتظام چلنے والے بیورو آف کریکولم میں 400 ایسے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کے لیے پھرتی دکھائی جاتی رہی جو اکتوبر 2012ءسے فارغ بیٹھے ہیں۔ حکومت سندھ میں محکمہ خزانہ توشاید خالی ہوگیا ہو لیکن درجنوں جیالوں کو نوکریوں کے آرڈرز کھلے دل سے جاری کیے جاتے رہے۔ گریڈ 12 کی ڈیٹا پروسیسنگ اسسٹنٹ کی اسامیوں پر تقرر ہونے والے جیالوں میں وزیر کے عزیزبھی شامل جن کاتعلق دادو سے ہے۔ سندھ حکومت میں محکمہ صحت نے تو حد ہی کردی جہاں محض ڈھائی ماہ میں چوتھی من پسند شخصیت کو چانڈکا میڈیکل کالج ٹیچنگ ہسپتا ل لاڑکانہ کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ لگا دیا گیا۔ بدھ کی شام ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے گریڈ 19 کے ڈاکٹر ذوالفقار سیال کو گریڈ 20 کے عہدے پر متعین کرنے کا حکم جاری کیاگیا اور اس عہدے پر 3 ہفتے قبل مقرر ہونے والے گریڈ 19 کے ڈاکٹر انصاف مگسی کو ہیڈکوارٹر رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا۔

موجودہ حکومت نے جاتے جاتے اپنا یہ وعدہ پورا کیا تو سندھ اسمبلی میں موجود پیپلز پارٹی کے ارکان کے ساتھ ساتھ مہمانوں کی گیلریوں میں موجود سرکاری افسران اور ملازمین نے بھی زبردست نعرے بازی کی۔ اس ضمن میں سندھ اسمبلی نے جمعرات کو ”سندھ ریگولرائزیشن آف ایڈہاک اینڈ کنٹریکٹ ایمپلائز بل ۔2013“کی اتفاق رائے سے منظوری دی۔ اس بل کے تحت گریڈ1سے گریڈ18 تک کے ایڈہاک اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا گیا ہے، تا ہم ڈیلی ویجز اور ورک چارجز کی بنیاد پر کام کرنے والے ملازمین مستقل نہیں ہوں گے۔ مذکورہ قانون کے نفاذ سے قبل سندھ حکومت کے انتظامی کنٹرول میں آنے والے محکموں، خودمختار اور نیم خودمختار اداروں اور منصوبوں میں کام کرنے ایک لاکھ سے زاید ایڈہاک اور کنٹریکٹ ملازمین مستقل ہو جائیں گے۔ جب یہ بل ایوان میں پیش کیا گیا تو پیپلز پارٹی کے ارکان نے ڈیسک بجا کر زبردست خیر مقدم کیا۔ وزیر قانون ایاز سومرو نے بل متعارف کرایا تو اپوزیشن لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ اس بل پر غور ایک دن کے لیے مو ¿خر کر دیا جائے کیونکہ یہ بل غیر قانونی ہے۔ اس بل کے تحت لا محدود ملازمین کو تحفظ دیا گیا ہے۔اس دوران پیپلز پارٹی کے ارکان نے ”بے نظیر آئے گی، روزگار لائے گی“ کے نعرے لگائے۔ سید سردار احمد نے ایک بار پھر واضح کیا کہ انہیں لوگوں کو مستقل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور کہا کہ ہر پارٹی چاہتی ہے کہ لوگوں کو روزگار دیا جائے لیکن یہ طے کر لیا جائے کہ کل کتنے ملازمین ہیں،کس تاریخ سے کس تاریخ تک ملازمین کو مستقل کیا جانا ہے اور کس گریڈ میں ہیں، اگر بل ایک دن کے لیے موخر کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ پیپلز پارٹی کے ارکان نے ”نو نو“ کے نعرے لگائے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 633211 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.