عوام کو عدم تحفظ کی اعصاب شکن اور روح فرسا کیفیت سے نجات کیسے ممکن ہو ؟

بد قسمتی سے سیاسی دانشواروں ، سماجی ،محققین اور سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ارباب اختیار کو ہمارے مضامین پڑھنے کا وقت بھی نہیں ہوگا بلکہ شائد ، اردو سے نابلد ہونے کی وجہ سے بھی ممکن نہیں ہے کہ قومی اخبارات میں دی جانے والی تجاویز کو درخواعتنا نہیں سمجھا جاتاہو۔وطن عزیز کے ہر ادروار میں حکمرانوں کی جانب سے اختیار کردہ بعض پالیساں نے متشددانہ رویوں اور انتہا پسندی کو فروغ چڑھانے میں بڑا اہم کردارادا کیا ہے۔جس کی وجہ سے دہشتگردی اور انتہا پسندی کی جو لہر ملک میں اٹھی ہے اس کے پیش نظر اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہوسکتا کہ ملک کی اندرونی صورتحال اور بین الاقوامی عوامل کے عمل دخل کی بنا پر ملکی سلالمیت کو داﺅپر لگا دیا ہے۔محض کسی ملک یا کسی تنظیم پر صرف الزام لگا دینے سے ، شدت پسندی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ، بلکہ ملکی سلامتی اور عوام کو عدم تحفظ کی اعصاب شکن اور روح فرسا کیفیت سے نجات دلانے کے لئے ہمیں خود ہمہ جہتی اور سیکورٹی کے ٹھوس اقدامات اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔موجودہ صورتحال میں ملک مشکلات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ عالمی برادری کو ہمارے خدشات دور کرنے کے بجائے ، اس تفکر میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کی سرزمین جس طرح دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہی ہے ، ایسے بھلا کس طرح اپنے ملک میں داخلے سے روکا جاسکتا ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہہ ہم اپنی طاقت کے درست استعمال کرنے سے ، سیاسی مصلحتوں کی بناءپر کتراتے ہیں ، یا پھر اپنی پالیسیاں بیرونی آقاﺅں کی منشا کے مطابق بنانے پر یکجا ہوجاتے ہیں۔ہمیں اپنے ذہنوں اور رویوں کو تبدیل کرنے کےلئے، کسی ٹھوس اور مربوط لا ¾ھہ عمل کو اپنانے کے بجائے وقتی مصلحت کوفوقیت دیتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ دہشت گردی ، انتہا پسندی اور خودکش حملے تہذیب حاضر کےلئے عالمگیر خطرہ بن چکے ہیں اور اس کی خوفناک تصویر پاکستان کی شکل میں دنیا میں پیش کی جاتی ہے تو یہ بجا نہیں ہوگا۔ملکی اقتدار پسند طاقتیں ہوں یا پھر غیر ملکی مفادات قوتیں اپنے نظریات اور ایجنڈے کی تکمیل کےلئے نوع انسانی کی ہلاکت کو ترجیح دےتے ہوئے ،اس قدر بزدلانہ پالیساں بنانے سے نہیں کتراتے کہ لاکھوں بے گناہ انسان کی جونوں کے بے دریغ ضیاع سے اللہ تعالی کی تخلیق کردہ معاشرے کا شیرازہ صرف مالی مفاات کے حصول کے بکھیر کر خوف و ہراس پیدا کیا جارہا ہے اور ملکی معیشت اور سماجی نظام کو تہہ وبالا کرکے ریاستی رٹ کو اس قدر مفلوج کردیا گیا کہ ، رہاستی مشنری ، سیکورٹی ادارے اور پوری قوم، ملکی کی مقتدر سیاسی جماعتوں کی وجہ سے ، دہشت گردوں کی دہشت گردی کو" دہشت گردی" کہنے سے بھی کتراتی ہیں۔اس مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں ، عوام کی جان ، مال اور آبرو کا تحفظ ، انصاف فراہم ، ملکی سلامتی اور قومی وقار کی سربلندی کےلئے کام کرنا ، سماجی و معاشی میدانوں میں پیشرفت کرنا اور ملک کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کا خواب ، نہ جانے کب شرمندہ ِ تعبیر ہوگا۔حکومت کے بھیانک پانچ سال پر خوشی کا اظہار کرنے کے بجائے ،عوام کو یوم نجات منانے کا اعلان کرنا چاہیے۔ کیونکہ حکومت کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نظر نہیں آیا جس میں گذ گورنس یا محض"گورنس"کا شائبہ بھی دکھائی دیتا ہو۔بنیادی حقوق کا تحفظ نہ کرنے والی حکومتیں ہمیشہ ناکام تصور کی جاتی ہیں۔گذشتہ 69سالوں میں پاکستانی عوام پر اتنا کڑا وقت کبھی نہیں گذرا ، جو جمہوریت کے نام پر آج پاکستانی عوام پر گذر رہا ہے۔کبھی غیر منتخب حکمران ایوان اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں تو کبھی ، آشیرباد لیکر ، عوام کو ان کے نمائندوں سے محروم کرکے ٹانگہ پارٹیوں کو مسلط کردیا جاتا ہے ، کبھی ، جاہ پرست سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملا کر اقتدار کو مذہبی جماعتوں کی اعانت حاصل کرکے ، اقتدار حاصل کیا جاتا ہے تو کبھی ، میثاق بنا کر" باریوں"کا کھیل ، کھیلا جاتا ہے۔غریب عوام کو ہمیشہ مقتدر ایوانوں سے دور رکھنے کی پالیساں بنائی جاتیں ہیں، خدمت کے جذبے سے سرشار ، قیادت کا تصور ہی پاکستان کی ڈکشنری سے ختم ہوگیا ہے۔ان تمام حالات میں عوامی حمایت نہ رکھنے والے گروہوں اور تنظیموں کو مضبوط کرنے کا موجب بھی عوام ہی بنتے ہیں کہ ان کے سامنے ،کھلی حکمت عملی سے غریب عوام جو انتخابی عمل اور امور مملکت چلانے میں شراکت کے احساس سے بھی دور رکھ کر عوام کو بتا دیا جاتا ہے کہ وہ اقتدار کے بجائے ، نعرے بازی کےلئے طالع آزمائی کریں ۔ہمیں اپنی نسلوں کو امان ، جمہوریت ، انصاف ، آسودگی ، بقائے باہمی اور خوش حالی کا ورثہ عطا کرنا ہے تو ، اپنی صفوں سے ایسے نمائندوں کو باہر نکالنا ہوگا جو مملکت کو درپیش مسائل سے نکالنے کےلئے ، مخلص ہوں۔کیونکہ دہشت گردی ہی پاکستان کا پہلا اور آخری مسئلہ بن چکا ہے۔ دہشت گردی کو روکا نہیں گیا تو ، شدت پسندی ہر چیز کو نگل لے گی، جمہوریت پر کبھی بھی شب خون مارا جاسکتا ہے ، نیا جمہوری اور سیاسی و معاشی نظام دہشت گردی کے خاتمے کے بعد اس کے ملبے پر ہی قائم ہوسکتا ہے۔دنیا بھر میں سیاسی پارٹیوں کی جمہوری اقدار سے وابستگی کا اندازہ اس کی کارکردگی سے لگایا جاتا ہے، جو عوامی مسائل حل کرنے کےلئے ورکنگ پیپرز اور ملک کو ترقی کی راہ میں گامزن کرنے کی منصوبہ سازی کرتی ہے، انتخابی عمل میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنا منشور پیش کرتی ہے تو اس کے پاس واضح لائحہ عمل اور نظام الاوقات ہوتا ہے اس لئے ، الیکشنوں میں کسی بھی حکومت کے عہد اقتدار کو بڑی اہمیت اور باریکی سے دیکھا جاتا ہے۔لیکن بد قسمتی سے پاکستانی عوام میں سیاسی شعور کی کمی ہے ، اور اسی کمی کی وجہ سے جہاں ایک طرف ملک میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے انتہا پسند رویوں کو اقتدار کے حصول کے خاطر ،عوام کو غیر ملکی طاقتوں کا باجگزار بنا کر رکھ دیا گیا ہے تو حکمرانی حاصل کرنے کےلئے ، ان کی ہربات کو بلا چوں و چراں ماننے سے بھی عار نہیں برتتے ۔گو کہ عوام کے لئے درست نمائندوں کا انتخاب کا عمل دشوار گذار ہے لیکن اب بھی کچھ ا یسی سوچیں ہیں جن کے ذریعے ، اگر عوام کوشش کریں تو ، فکری تبدیلی کے انقلاب کے ساتھ ، ملکی ترقی کے مشکل ،طویل راستے کو قومی بقا کےلئے اختیار کرنے سے آنے والی نسلوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں ۔یقینی طور پر موجودہ سیاسی انتخابی عمل مہنگا ، اور غریب عوام کے تصور سے بھی باہر ہے ۔ لیکن ، جس طرح متحدہ قومی موومنٹ نے ایک روایت ڈالی ہے کہ ان کے امیدواران کو ، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، وڈیروں کی طرح انتخابات کےلئے خزانے کے دروازے اس نہیں کھولنے پڑتے ، جبکہ اشرافیہ کا نظریہ سیاست ، ڈبل شاہ سے بھی ٹرپل شاہ ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے بھی ، قابل نوجوانوں کےلئے ، جو انتخابات لڑنے کی مالی استعداد نہیں رکھتے ، مالی معاونت کرنے کا اعلان ، خوش کن ہے۔ ملک کی دیگر جماعتوں کو بھی ان کی تقلید کرنی چاہیے ، سیاسی جماعتوں کے کارکنان کا نظریاتی اختلاف اپنی جگہ ، کوئی بھی سیاسی جماعت فرشتہ نہیں ہے ، لیکن اگر ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کے لئے ، کوئی جماعت چاہتی ہے کہ ایسے نوجوان سامنے آئیں ، جو دولت کی فروانی کے بجائے خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں تو ، میرے نزدیک انھیں بھی آزمانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اگر ان کا یہ منشور اخلاص پر مبنی ہے تو ، تمام لائق ، باصلاحیت نوجوانوں کو آگے بڑھ کر ، ملکی سیاست میں تبدیلی پیدا کرنے کےلئے ، اپنی فکری سوچ میں تبدیلی پیدا کرنا ہوگی ۔ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والوں سے بہتر ہے کہ گلی کوچوں میں آپ اپنی سیاست خود کریں ۔بھیانک خواب کی کیفیت سے باہر نکل آئیں ۔آزمالیں ، آپ کے کون سے پیسے خرچ ہونے ہیں کہ نقصان کا ڈر ہوگا۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 264091 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.