پیپلزپارٹی کی ”لوٹ مار“

2008ءمیں منتخب ہونے والی پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی۔ پی پی کے وزراءاور عہدے دار اس ’کارنامے‘ پر پھولے نہیں سمارہے، ایک دوسرے کو مبارک بادیں دی جارہی ہیں، تقریبات کا خصوصی اہتمام کیا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی نے مفاہمتی فارمولے کے تحت وفاق اور تین صوبوں میں 5 سال تک حکومت کرنے کا اعزاز تو حاصل کرلیا لیکن درحقیقت اس دور کو ملکی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

میڈیا کے مطابق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے پی پی حکومت کی 5 سالہ کارکردگی کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 5 سال میں بدترین کرپشن اور بدانتظامی ریکارڈ کی گئی اور اس سے قومی خزانے کو 18 ہزار ارب (180 کھرب) روپے کا نقصان ہوا جب کہ 2012ءمیں پاکستان کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 47 ویں نمبر سے ترقی کرکے 35 ویں نمبرپر آگیا۔ صوبائی حکومتوں کے حوالے سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ پنجاب، جسے 2008ءکے سروے میں انتہائی کرپٹ ترین قرار دیا گیا تھا، ان برسوں کے دوران کم کرپٹ صوبے کے طور پر سامنے آیا جب کہ تابڑ توڑ کرپشن کے واقعات صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں پیش آئے۔

یوں کہا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کا دور معاشی ترقی کے لحاظ سے ملکی تاریخ میں بدترین ثابت ہوا۔ کرپشن، امن و امان کی بگڑتی صورت حال اور توانائی بحران نے پاکستان کی معیشت کا حلیہ بگاڑ دیا۔ ملکی صنعتوں کو تالے لگتے رہے مگر پھر بھی بجلی کے بل دوگنا ہوئے، آئی ایم ایف سے لیے گئے ادھار کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچے مگر ادائیگیوں کی وجہ سے حکومت کے اختتام پر 13 ارب ڈالر سے بھی کم ہوگئے۔ مقامی اور غیر ملکی وسائل نہ ہونے سے حکومتی قرضے 8 ہزار ارب سے تجاوز کر گئے۔ اس کے باوجود حکومت اپنی ناکامی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مالی بحران کے باعث نگراں حکومت کو ریاستی معاملات چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

گزشتہ 5 برس میں پاکستان کی خارجہ پالیسی ماضی کی طرح بحران در بحران کا شکار رہی، اس دوران پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر انتہائی گھمبیر مسائل کا سامنا رہا۔ حکومت نے سیلاب زدگان کے لیے غیر ملکی اداروں سے امداد مانگی تو اِن اداروں نے حکومتی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ ممبئی حملے، پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کے الزامات، وکی لیکس، ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، ایبٹ آباد میں شیخ اسامہ کی شہادت، سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ، نیٹو سپلائی کی بندش اور بحالی، میمو گیٹ اسیکنڈل، سیاچن اور کشمیر پر پیش رفت نہ ہونا، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں اور عافیہ صدیقی کے معاملے پر پاکستان کی خارجہ پالیسی ناقدین کے طنز کا محور رہی۔ جہاں تک ڈرون حملوں کی بات ہے تو اسے روکنے میں بھی عوامی حکومت ناکام رہی۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں قبائلی علاقوں پر صرف 36 ڈرون حملے کیے گئے لیکن جمہوری دور حکومت میں 300 سے زاید بار قبائلی علاقے امریکی جارحیت کا نشانہ بنے۔ ہماری پارلیمنٹ قرار دادیں منظور کرنے تک محدود رہی اور اُدھر امریکی حملوںمیں شدت آتی گئی۔ ہمارے اربابِ اختیار مذمتی بیانات جاری کرنے پر اکتفا کرتے رہے لیکن کسی نے بھی ڈرون حملوں کے متاثرین کے آنسو پونچھنا تک گوارا نہ کیا۔

5 سال تک ملک و قوم کو لوٹنے کے بعد ان کی حرص، طمع اور لالچ میں کمی نہ آئی۔ جاتے جاتے بھی بجلی مزید مہنگی کرگئے، 5 سال تک قومی خزانے پر بوجھ بننے والے ارکان پارلیمنٹ نے جاتے جاتے بھی قوم کے خزانے کو مزید ٹیکا لگانا اپنا حق گردانا۔ اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے لیے تاحیات بھاری مراعات منظور کی گئیں، انہیں تاحیات پرائیویٹ سیکرٹری، ٹیلی فون آپریٹر، ویٹر، ڈرائیور اور نائب قاصد میسر ہوں گے، 16 سو سی سی کار، پیٹرول اور ایک لاکھ روپے ماہانہ جیب خرچ الگ ملے گا۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے بیرون ملک علاج کا خرچہ بھی حکومت برداشت کرے گی، ان مراعات پر کروڑوں روپے خرچ ہوں گے۔ اِن مراعات سے سابق اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان، فخر امام، حامد ناصر چھٹہ، سید یوسف رضا گیلانی، الٰہی بخش سومرو، چودھری امیر حسین بھی مستفید ہوں گے۔

دوسری جانب سندھ اسمبلی کے ارکان نے آخری روز اپنی تنخواہوں اور مراعات میں 60 فی صد تک اضافے اور تاحیات ذاتی مفادات و مراعات کے بل منظور کیے۔ جس کے بعد تمام سابق ارکان اسمبلی مدت ختم ہونے کے بعد بھی سرکاری مہمان خانے، آرام گاہیں، سندھ ہاﺅس اسلام آباد سرکاری نرخوں پر استعمال کرسکیں گے جب کہ انہیں تمام ہوائی اڈوں پر وی آئی پی پروٹوکول ملے گا۔ علاوہ ازیں سندھ حکومت نے جانے سے قبل الوداعی نوکریوں کا بازار بھی لگایا، تعلیم، خزانہ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکموں میں ہزاروں افراد بھرتی کرلیے۔ الیکشن کمیشن کے نوکریوں سے متعلق احکام کی دھجیاں اڑادی گئیں، منظور نظر افراد میں نوکریاں ٹوکریاں بھر بھر کر بانٹی گئیں۔ پی پی حکومت کے ان اقدامات کا خمیازہ نئی حکومت کو بھگتنا پڑے گا....

اب 5 سال پورے کرنے کے بعد پیپلزپارٹی نے پانچویں بار انتخابات میں حصہ لے کر برسر اقتدار آنے کے لیے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کیا ہے جس کا عنوان ہے ’روٹی، کپڑا اور مکان.... علم، صحت اور سب کے لیے کام، دہشت سے محفوظ عوام اونچا ہو جمہور کا نام‘۔ اس منشور سے عوام کو تو کچھ نہ ملا لیکن پی پی وزراءاور ارکان اسمبلی نے ضرور یہ سب کچھ حاصل کرلیا ہے جس کی واضح مثال سندھ اسمبلی کے آخری اجلاس میں منعقد ہونے والی قرار داد ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اسی منشور کا ایک ایک لفظ پیپلزپارٹی کے پچھلے چار ادوار کی مکمل ناکامی کا حوالہ ہے۔ آخری دور میں اس پارٹی کو جتنی حمایت، اختیارات اور بھر پور وقت ملا، ان کا درست استعمال کیا جاتا تو یہ ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتی تھی لیکن یہی دور اس کے لیے سب سے زیادہ ناکامی اور رسوائی کا باعث بنا۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے والی جماعت آج ایک بار پھر 46 سالہ پرانے نعرے کے ذریعے قوم کو بے وقوف بنانے نکلی ہے۔ لیکن عوام کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں کہ اسے بھول سکیں۔ پی پی کی جانب سے یہ نعرہ دہرانا اپنے ووٹروں کے ساتھ مذاق یا ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے.... اپنے منشور میں مزدوروں کو 18 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دینے کا اعلان کرنے والی، پارٹی کے دور حکومت میں مزدوروں کا سب سے زیادہ استحصال کیا گیا۔ الیکشن میں ووٹ کے حصول کے لیے بلند بانگ دعوے کرنے والی جماعت نے اپنے 5 سالہ دور میں مزدور کی ماہانہ تنخواہ کیوں نہیں بڑھائی؟ اس کے دور میں کراچی سمیت ملک بھر میں بدامنی کا بازار گرم رہا، مزدوروں کے آشیانے جلتے رہے، گاڑیاں اور دیگر املاک نذر آتش کی جاتی رہیں، انسانی جانوں کو مفاہمتی سیاست کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہا مگر ارباب اقتدار و اختیار خاموش تماشائی بنے رہے۔، کیوں؟

مدارس کے طلبہ، علماءاور دین دار طبقے کو چن چن کر مارا گیا۔ کلمہ گو انسانوں پر عرصہ حیات تنگ اور ان کا جینا محال کردیا گیا۔ مگر پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی سیاسی جماعتیں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتی رہیں، کیوں؟ قتل و غارت کا بازار گرم کرکے روزانہ درجنوں انسانی لاشیں گرائی جاتی رہیں لیکن پی پی حکومت نے اس پر کبھی بھی سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور اس کے عمل سے ہمیشہ یہی محسوس ہوا جیسے اسے لوٹ کھسوٹ سے فرصت ہی نہیں۔

موجودہ دور میںجن گھرانوں کے چشم و چراغ گُل ہوئے اور کسی کا سہارا چھنا، کیا کبھی پی پی حکومت نے پلٹ کر اُن کی خبر گیری کی؟ جن گھرانوں میں نوبت فاقوں تک جاچکی ہے انہیں آج ایک بار پھر روٹی، کپڑا اور مکان جیسے نعرے سنانا اور علم صحت سب کے لیے کام جیسے سہانے خواب دکھانا ہے۔ لیکن اس بار قوم ان کے جھانسے میں نہیں آئے گی۔
Usman Hasan Zai
About the Author: Usman Hasan Zai Read More Articles by Usman Hasan Zai: 111 Articles with 86284 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.