ایک نابینا حافظ کسی کے ولیمے
میں شریک تھا، اس نے برابر میں بیٹھے اپنے شاگرد کو کہا جب لوگ کھانا شروع
کردیں تو مجھے ہلکی سی کہنی ماردینا، تاکہ میں بھی بسم اﷲ کردوں۔ کھانا لگ
چکا لیکن ابھی لوگوں نے شروع نہیں کیا تھا کہ بے خیالی میں شاگرد کی کہنی
حافظ جی کو لگ گئی، وہ سمجھے ”کام“ شروع ہوگیا ہے، اس لیے وہ بھی کھانا
کھانے لگ گئے، شاگرد نے روکنے کے لیے کہنی ماری تو وہ سمجھے یہ کہہ رہا ہے
اسپیڈ پکڑو، لہٰذا انہوں نے 190 کی رفتار سے کھانا شروع کردیا،شاگرد نے
گھبراکر تیسری بار کہنی ماری تو حافظ جی نے استفسار کیا اب کیا لوٹ مچ گئی
ہے؟
یہ حکایت حکومت کے آخری چند گھنٹوں کے مناظر دیکھ کر یاد آئی ہے، یوں لگتا
ہے گویا ملک میں لوٹ مچ گئی ہے۔ آخری اجلاسوں میں زیادہ سے زیادہ مال
سمیٹنے اور مراعات کے لیے دھڑادھڑ بل منظور کیے گئے۔ پیپلزپارٹی کے بارے
میں کہا جاتا ہے یہ کھانے اور کھلانے والی پارٹی ہے۔ کھاتے تو دوسرے بھی
ہیں لیکن جس طرح یہ پارٹی جیالوں پر قومی خزانہ نچھاور کرتی ہے، اس میں اس
کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کے کزن
وزیراعلیٰ سندھ ممتازبھٹو کے دور میں بھی منظورنظر افراد کی جیبیں بھری
رہتی تھیں لیکن جب سے زرداری صاحب نے پارٹی سنبھالی ہے جیالوں کے وارے
نیارے ہوگئے ہیں۔ لوٹ مار کے ایسے ایسے ریکارڈ قائم کیے گئے، جنہیں توڑنا
چھوٹے موٹے چوروں اور ڈاکوؤں کے بس کی بات نہیں ہے۔
اور قصوں کو تو چھوڑیں پی پی حکومت نے تو حاجیوں کو بھی لوٹے بغیر نہیں
چھوڑا۔ بات کسی اور طرف نکلی جارہی ہے، کہہ یہ رہا تھا کہ پی پی نے جاتے
جاتے بھی قوم کو جی بھرکر چونا لگایا ہے۔ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی
حکومتیں بھی کرپشن میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں لیکن وہاں حکومت کے آخری
دنوں میں ایک سکون سا محسوس ہوا۔ اس کے برعکس اگر ہم سندھ کو دیکھیں جہاں
پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، وہاں ارکان اسمبلی اپنے اور اپنے دوست احباب کے
لیے فوائد سمیٹتے نظر آئے۔
سندھ اسمبلی نے جمعہ کو اپنے آخری اجلاس میں ایک ساتھ 7بلوں کی منظوری دی،
ان بلوں کے ذریعے نہ صرف وزرائ، معاونین خصوصی، ارکان سندھ اسمبلی، اسپیکر
وڈپٹی اسپیکر کی تنخواہوں، الاؤنسز اور مراعات میں اضافہ کیا گیا ہے بلکہ
سابق وزرائے اعلیٰ، سابق اسپیکر وڈپٹی اسپیکر اور سابق ارکان اسمبلی کو بھی
مراعات دی گئی ہیں۔ کسی رکن کے انتقال کی صورت میں اس کی بیوی یا شوہر کو
بھی تاحیات یہ مراعات حاصل رہیںگی۔ سابق ارکان سندھ اسمبلی سرکاری مہمان
خانوں میں رہ سکیںگے، ایئرپورٹوں پر انہیں وی آئی پی پروٹوکول ملے گا، سابق
ارکان، ان کے جیون ساتھی اور بچوں کو سرکاری پاسپورٹ ملے گا۔ 4اسلحہ لائسنس
بھی ملیںگے، جس کے لیے انہیں معمولی فیس ادا کرنا پڑے گی۔ وزراءکو اب
ماہانہ 78ہزار کی بجائے ایک لاکھ9ہزار 200روپے ملیںگے جبکہ ارکان اسمبلی کی
تنخواہ مےں 60فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ جس کے بعد ان کی تنخواہ اور الاو ¿نسز
بڑھ کر ماہانہ 65 ہزار روپے ہوگئے۔ سفری اخراجات کی مد میں 40 ہزار کی
بجائے اب ایک لاکھ 20 ہزار جبکہ ریکریشن الاو ¿نس بھی 30ہزار سے بڑھاکر ایک
لاکھ روپے کردیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ، اسپےکر اور ڈپٹی اسپیکر کو بھی خوش کیا
گیا ہے۔ انہیں ان کی تنخواہ اور مراعات کا 70فیصد ساری زندگی ملتا رہے گا۔
تاحیات پولیس سیکورٹی، لینڈلائن اور موبائل فون کی سہولت، پرائیویٹ
سیکریٹری، اردلی، ڈرائیور، باورچی، مالی اور ایک سنیٹری ورکر بھی عمربھرکے
لیے حکومت سندھ کی طرف سے مہیا کیا جائے گا۔
یہ مراعات کا معاملہ تھا، سندھ حکومت نے جاتے جاتے پورے صوبے کا انتظامی
ڈھانچہ بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ تقریباً تمام ڈویژنوں کے پولیس سربراہان کو
تبدیل کرکے ان کی جگہ من پسند افسران کو بٹھادیا گیا، یہی کچھ دوسرے محکموں
میں ہوا ہے۔ حکومت کی اس ساری مشق کو انتخابات کے تناظر میں دیکھا جارہا
ہے۔ لگتا یہی ہے پیپلزپارٹی ان افسران کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے
گی۔ نگران حکومت کے آنے سے محض چند گھنٹے قبل اتنے بڑے پیمانے پر
بیوروکریسی کی یہ الٹ پلٹ کھلی دھاندلی ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس کا نوٹس
لیتے ہوئے تمام تبادلے اور تقرریاں منسوخ کردینی چاہئیں۔
آخر میں یہ خبر بھی پڑھتے جائیں کہ اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا
اور ان کے چہیتے درجنوں ارکان اسمبلی نے صرف ایک سال کے دوران امریکا اور
ےورپی ملکوں کے دوروں پر کروڑوں روپے اڑا دیے اور قومی اسمبلی کی مدت ختم
ہونے سے محض دو روز قبل فہمیدہ مرزا نے فنانس کمیٹی کے آخری اجلاس کی خود
صدارت کرکے غیرملکی دوروں پر اٹھنے والے ان بھاری اخراجات کی منظوری دے دی۔
اسی اجلاس میں اسپیکر صاحبہ نے امریکا میں اپنے کینسر کے علاج پر خرچ ہونے
والے 20لاکھ روپے کی بھی منظوری دی۔ صرف اسی پر ان کا جی نہیں بھرا، محترمہ
نے اپنے لیے تاحیات سرکاری خرچ پر علاج کی سہولت بھی منظور کرالی ہے۔
سندھ اسمبلی اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے جو مراعات منظور کی ہیں وہ سب کیمرے
کے سامنے ہوئی ہیں، آپ اندازہ لگاسکتے ہیں حکومت کے آخری دو یا چار روز میں
پس پردہ کیا کچھ ہوا ہوگا۔ ارکان اسمبلی نے کروڑوں روپے کے ٹھیکے من پسند
افراد کو دلوائے ہیں۔ برسوں سے رکی ہوئی سمریوں کو بھی کمیشن وصول کرکے
منظور کرانے کی اطاعات ہیں، اسی طرح بتایا جارہا ہے کہ ارکان پارلیمان نے
پیسے لے کر درجنوں افسران کو اِدھر اُدھر کرایا ہے۔ اسے کہتے ہیں ملک وقوم
کی بے لوث خدمت! یہ لوگ مال کمانے آئے تھے، کماکر چلتے بنے، پیسا ہضم،
تماشا ختم۔ |