ڈرون حملے اور امریکی ہٹ دھرمی

آخر اقوام متحدہ کو تسلیم کرنا پڑا کہ جس کا اظہار مسلسل پاکستانی قوم کی جانب سے کیا جارہا تھا کہ ڈرون حملے ملکی خودمختاری کے خلاف ہیں۔پاکستانی عوام کی جانب سے ہر ڈرون حملے پر امریکہ سے احتجاج کیا جاتا رہا ہے کہ ان حملوں کی وجہ سے پاکستان کی پہاڑی قبائلی علاقوں کے عوام میںامریکہ کے خلاف نفرت آمیز جذبات میں شدت پیدا ہورہی ہے لیکن دوسری جانب سے اس کا مثبت ردعمل نہ ہونے کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اب صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پاکستان پر ڈرون حملوں کی تحقیقات کرنے والی اقوام متحدہ کی خصوصی ٹیم نے بھی چشم کشا رپورٹ جاری کرتے ہوئے تسلیم کرلیا ہے کہ امریکی ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں۔اقوام متحدہ کی ٹیم نے امریکی ابلاغ کے اس پروپیگنڈے کی بھی نفی کردی ہے جس میں پاکستان پر الزام لگایا گیا تھا کہ ڈرون حملے پاکستان نے بھی کئے ہیں۔اقوام متحدہ کی ہوش ربا رپورٹ کے مطابق سال 2004ءسے اب تک 330ڈرون حملوں میں 400شہریوں سمیت 2200افراد جان بحق اور 600شدید زخمی ہوئے۔قبائلی علاقے نو سال میں 371مرتبہ ان حملوں میں نشانہ بنے ۔امریکہ کی جانب سے فضائی جارحیت پر پاکستان سے کسی بھی قسم کی معافی مانگنے کے بجائے ، ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار رکھا گیا اور سی آئی اے کو لامحدود اختیارات تک دے دئےے گئے ، جس میں پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کی دھجیاں بکھرنے کےلئے ، ہر ناجائز اقدام کو قانونی اختیار فراہم کردیا گیا۔ڈرون حملوں کی فطری نتیجہ میں امریکہ کے خلاف قبائلی عوام کے جذبات مشتعل ہوئے اور انھوں نے بدلہ لینے کے اعلانات میںامریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان اور فدائین کے فتوی بھی جاری کئے گئے۔لیکن امریکہ نے پاکستانی قبائلی عوام کے جذبات کو مقدم سمجھنے کے بجائے ، ڈرون حملوں میں اس قدر تیزی پیدا کی کہ ڈرون حملوں کی غیر اعلانیہ اجازت دینے والے پرویز مشرف کے دور میں 33ڈرون حملے کئے گئے جبکہ 297حملے جمہوری دور میں ہوئے۔یقینا یہ بہت تشویش ناک صورتحال ہے کہ دہشتگردی کے خلاف لڑی جانےوالی فرنٹ لائن جنگ میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑاہو ، تو دوسری جانب اس کی خود مختاری کی دھجیاں بھی بکھیر دیں جائیں۔امریکہ نے ہمیشہ اس بات کو نظر انداز کیا کہ ان فضائی حملوں سے ، وہ پاکستان میں اپنے ہمنوا بنانے کے بجائے ، منفی اثرات مرتب کر رہا ہے جس سے امریکہ کےلئے اس خطے میںمشکلات میں اضافہ بڑھ رہا ہے۔ قبائل کی جانب سے حکومت کے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا تھا کہ ان حملوں میں ان کی حمایت ، امریکہ کو حاصل نہیں ہے ، اقوام متحدہ کی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستانی حکومت کی اجازت کی بغیر یہ حملے کئے گئے ، لیکن اس حقیقت کے باوجود حکومت پاکستان بری الزمہ نہیں ہوجاتی ، بلکہ اس کی ذمے داریوں میں یہ کوتاہی پائی جاتی ہے کہ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ، اپنی مملکت کی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کو کیونکر روکنے میں ناکام رہے۔ جب ایٹمی ٹیکنالوجی اور میزائیل تجربات پر کھربوں روپے خرچ کئے جاسکتے ہیں تو یقینی طور پر پاکستانی سائنس دان ، اتنی استعداد و قابلیت ضرور رکھتے ہونگے کہ ڈرون حملوں کے خلاف ، کوئی دفاعی حکمت اپنائی جاسکتی تھی۔پاکستان کو امریکی ہٹ دھرمی کی بناءپر داخلی سطح پر مسائل درپیش ہوئے ، لیکن امریکہ نے اپنی ہٹ دھرمی بر قرار رکھتے ہوئے ، پاکستان کی عوام میں جگہ بنائی ، لیکن یہ جذبات صرف نفرت ، اور دشمنی کے پیدا ہوئے۔ امریکہ کی جانب سے اربوں روپے کے اشتہارات دینے ، اور امدادی پروگراموں کی تفاصیل ، سے پاکستانی عوام کی زخموں پر مرہم نہیں رکھا جاسکتا ۔بلکہ منفی اقدامات کی بنا ءپر دنیا بھرمیں مسلم امہ کے جذبات امریکہ کے خلاف پیدا ہوئے ، جس کی وجہ توثیق ، اقوام متحدہ کی ٹیم کی چشم کشا رپورٹ نے کردی ہے۔ پاکستان کو انفرادی طور پر امریکہ کا اتحادی بننے کا دو طرفہ نقصان ہوا کہ ، ایک جانب تو خود اس کی عوام ، اپنی مملکت کے خلاف ہوئی ، اور فدائین کے حملوں میں پاکستان کی عوام کو ہی جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔تو دوسری جانب امریکہ سے بھی تعلقات کی نوعیت ، بہتر ی پر استوار ہونے کے بجائے ، دوریوں اور بد اعتمادی کی فضا پر آن کھڑے ہوئے ہیں۔پاکستان کی عوام اور مملکت کو اگر امریکہ اپنی طفیلی ریاست سمجھنے کے بجائے ، حقیقی معنوں میں اتحادی سمجھتا تو یقینی طور پر آج اس خطے میں امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو شکست کی ذلت بھی نہیں اٹھانا پرتی۔ یقینی طور پر اقوام متحدہ ، امریکی ریاستی اداروں کی ایک شاخ کا درجہ رکھتی ہے اور امریکہ کی جارحیت اور پاکستانی خود مختاری کی پامالی کرنے پر امریکہ کے خلاف ، کوئی ایکشن لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی ، لیکن اس مرحلے پر مسلم مماک کی نام نہادتنظیم او آئی سی کو سمجھ لینا چاہیے کہ ، جس دن مغربی ممالک نے تیل کا متبادل تلاش کرلیا ، اُس دن ان کی حیثیت رتی برابر بھی نہیں رہے گی ، لہذا بُرا وقت آنے سے قبل ، محض نما ئشی اجلاسوں کے بجائے اجتماعی قوت کے عملی اقدامات کو ترجیح دینی چاہیے۔پاکستانی عوام ڈرون حملوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کناں ہیں ، لیکن امریکہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ پاکستانی عوام کا رویہ ، مستقبل میں امریکہ مخالف ، خود امریکہ کی پالسیوں کی وجہ سے ہی ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے بعد پاک ، امریکہ تعلقات پھرنازک موڑ پر ہیں جس میں تبدیلی کےلئے فریقین کو مثبت رویہ اپنانا ہوگا۔جس میں بنیادی کردار امریکہ کا ہی ہے۔اگر امریکہ کو تعلقات میں بہتری لانی ہے تو پھر اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لانا ہوگی ۔امریکہ کو بس یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اپنی خود مختاری اور سرحدوں کی سلامتی کا خواہش مند ہے۔امریکہ کو اپنی فوج کی افغانستان سے واپسی میں اس نئی پیدا شدہ صورتحال کو بھی دیکھنا ہوگا کہ ، اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے بعد ، مغرب کی عوام کا دباﺅ ، بہرحال کچھ نہ کچھ بڑھے گا ،پاکستانی عوام تو یہ سمجھنے میں برحق ہیں کہ ان کی اجازت کے بغیر ، جہاں فضائی خلاف ورزیاں جاری ہیں تو ، زمینی حدود میں بھی امریکی افغان انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے ، شدت پسندوں کی پاکستانی علاقوں میں با آسانی رسائی میں بھی ، سازش کی بو سونگھیں جاسکتی ہے۔امریکہ سے زبانی کلامی احتجاج ماضی میں بھی فضول رہے ہیں اور مستقبل میں بھی یہی امید ہے کہ اگرامریکہ کو ، مسلم امہ کی ہمدردیاں درکار نہیں ہیںتو وہ اپنی پالسیوں میں تبدیلی پیدا نہیں کرے گا ۔ امریکہ اور اس کی اتحادیوں کی فوجیں اب بھی افغانستان میں پھنسی ہوئیں ہیں اور مستقبل میں طویل عرصے تک بزور طاقت ، کسی بھی ملک کی زمین پر قبضہ برقرار نہیں رکھا جاسکتا ، اس لئے توقع تو نہیں ہے کہ امریکہ ، اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجائے لیکن ، ہمارا دین ہمیں حسن ظن کی تلقین کرتا ہے۔اس لئے کسی امریکی روئےے کو دیکھتے ہوئے خوش فہمی بھی نہیں ہے ، لیکن خواہش بھی ہے کہ امریکہ اپنی روش پر نظر ثانی ضرور کرے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 264068 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.