سیاسی جماعتوں کی مقبولیت ۔۔۔۔سروے خود کریں

سب سروے ایک فریب ہیں۔ میں نہیں مانتا اور دوستوں کو بھی ہمیشہ ان نتائج کو نہ ماننے کا مشورہ دیتا ہوں۔ پانچ سال تک جو لوگ اس ملک کے وسائل کو لوٹتے رہے۔ دلفریب نعروں اور جھوٹی باتوں کے ساتھ لوگوں کے جذبات سے کھیلتے رہے۔ ان پانچ سالوںمیں انہوںنے عوام کو لوڈ شیڈنگ ، مہنگائی ، بیروزگاری ، دہشت گردی،عدم تحفظ اور لاتعدا دمسائل سے دو چار کیا ۔ کیسے ممکن ہے کہ وہ عوام میں پھر مقبولیت حاصل کر لیں؟ کیا عوام بہت سادہ ہیں؟ کیا عوام کو کوئی شعور نہیں کہ پانچ سال تک اپنا لہو نچوڑنے والوں کو معاف کر دیں اور لا تعداد جرائم کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو دوبارہ قبول کر لیں ۔۔۔۔ نہیں کبھی نہیں۔۔۔۔یہ ممکن ہی نہیں۔۔۔۔ یہ پارٹیاں ووٹ ضرور لیں گی لیکن اب ان کا ووٹ بنک تقریبا ً خالی ہوتا جا رہاہے۔ کسی کو غلط فہمی ہے بھی تو الیکشن میں دور ہو جائے گی۔ سروے اُن کو تسلی دینے کے لیے ہیں۔ حقیقت سے اُن کا کوئی تعلق نہیں۔ زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔

نومبر 2012ءمیں IRIکا سروے آیا جس میں پورے پاکستان میں مقبولیت کے اعتبار سے مسلم لیگ (ن) 32فیصد کے حصہ کے ساتھ سرفہرست تھی۔ پاکستان تحریک انصاف 18فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ، پاکستان پیپلز پارٹی 14فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر اور مسلم لیگ (ق) 2فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر تھی۔ یہ تمام صوبوں کا مجموعی تجزیہ تھا جبکہ سندھ میں ایم کیو ایم 16فیصد کے ساتھ مقبولیت میں دوسرے نمبر پر تھی۔ ANPخیبر پختونخواہ میں صرف 3فیصد کے ساتھ چوتھے اور بلوچستان میں بالکل ناپید تھی۔

فروری 2013ءمیں صرف تین ماہ بعد گیلپ کا سروے نتیجہ آیا تو کایا پلٹ گئی ۔ میں پہلے سروے کے نتائج کی حقیقت پر ماتم کناں تھا مگر نئے سروے نے تو کمال کر دیا۔ پورے پاکستان کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے مسلم لیگ(ن) کی مقبولیت میں9فیصد اضافہ ہوا اور اس کا حصہ 41فیصد ہو گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں تین فیصد اضافہ ہوا اور اُس کا حصہ مجموعی طو پر 17فیصد ہو گیا۔ صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم تین فیصد کے اضافے سے 19فیصد پر آگئی۔ ANPصوبہ خیبر پختونخواہ میں قدرے بہتر ہوئی لیکن بلوچستان میں یکایک صفر سے تیرہ فیصد پر پہنچ گئی۔ حیران کن بات کہ اگر مقبولیت میں کمی آئی تو سروے کے مطابق صرف اور صرف تحریک انصاف کے حصے میں آئی جس کی مقبولیت 18فیصد سے کم ہو کر 14فیصد پر آگئی۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ ہر صوبے میں وہ مقبولیت میں انحطاط کا شکار رہی۔

چند دن پہلے میڈیا کے ایک گروپ کا سروے بڑا عجیب تھا کہ عمران خان کو اتنے فیصد لوگ پسند کرتے ہیں مگرووٹ اُن میں سے صرف چند دیں گے بقیہ صرف پسند پر ہی قناعت کریں گے۔ ہر آدمی کا اپنا ایک مزاج ہے۔ وہ کسی کو کیوں بتائے کہ وہ کس کو ووٹ دے گا اور اُسے بتانا بھی نہیں چاہیے ۔ یہ سروے میرے نزدیک ایک احمقانہ سروے تھا اس سروے کے مقاصد کچھ اور ہوں گے جو یقینا سروے کروانے والوں نے حاصل کر لیے ہوں گے۔ عام آدمی اس سے کچھ اثر نہیں لے گا۔

گیلپ ایک انتہائی مستند ادارہ ہے جس کی ایک بین الاقوامی ساکھ بھی ہے۔ میں ذاتی طور پر بھی برادرم اعجاز شفیع گیلانی کا بہت معتقد ہوں مگر اُن کی وہ ٹیم جس نے سروے کیا کچھ ٹھیک نہ تھی کیونکہ لگتا ہے (SAMPLE)اس ٹیم نے اپنی مرضی کے منتخب کیے تھے جو مخصوص نتائج حاصل ہوئے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ مسلم لیگ (ن) کی تین ماہ میں مقبولیت 32فیصد سے 41فیصد کیسے ہوگئی؟ کیا مسلم لیگ (ن) نے قبضہ مافیا سے ناطہ توڑ لیا ہے؟ کیا پنجاب میں لوٹ مار ختم ہو گئی ہے؟ کیا ایلیٹ فورس کے 1000جوان جو عوام کی حفاظت کے لیے بھرتی کیے گئے تھے مگر تمام شریف فیملی کی ذاتی حفاظت پر مامور ہیں واپس عوام کی حفاظت پر متعین ہوگئے ہیں؟ کیا جوزف کالونی جیسے واقعات کا مکمل سد باب ہو گیا ہے؟ اگر ان سب باتوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر یہ مقبولیت کی ترقی کیسے ہے ؟

پیپلز پارٹی جس سے نجات کی لوگ رو رو کر دعائیں مانگتے رہے۔ جس کے عہد میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب ختم ہونے کی بجائے بڑھتا گیا ہے۔ بیروز گاری ، کرپشن ، ہیرا پھیری ، لوٹ مار ، بد انتظامی جس کی حکومت کا خاصہ تھا۔ کیسے 14فیصد سے بڑھ کر 17فیصد مقبول ہو گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سندھ میں ایم کیو ایم کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ۔شاید بھتہ خوری بند ہو گئی ہے ۔ بوری بند لاشیں اب نہیں ملتیں۔ ٹارگٹ کلنگ ختم ہو گئی ہے۔ کراچی میں ہر سو چین ہی چین ہے۔ ANPکی مقبولیت میں خیبر پختونخواہ میں 8فیصد اضافہ ہوا اور بلوچستان میں تین ماہ پہلے نظر نہ آنے والی ANPنے یکایک تیرہ فیصد مقبولیت حاصل کر نے کے لیے یقینا کوئی کمال کیا ہو گا۔

پاکستان بھر کی سیاسی پارٹیوںمیں صرف تحریک انصاف ہی ایسی پارٹی ہے جس کی مقبولیت کا گراف ہر صوبے میں کم ہوا۔ پنجاب میں وہ 19سے 14پر آئی ۔ سندھ میں 9سے 7پر۔ خیبر پختونخواہ میں 32سے 28پر اور بلوچستان مین 8سے 3فیصد پر پہنچ گئی۔ کون سی کرپشن میں تحریک انصاف ملوث تھی؟ کونسا اقتدار ااس کے پاس تھا کہ کچھ منفی چیزیں اُس سے منسوب ہوئیںاور اُسے داغ داغ کر گئیں ۔ پھر چاروں میں سے کوئی صوبہ بھی ایسا نہیں کہ وہ اپنی مقبولیت برقرار رکھ سکتی۔ اس طرح کے سروے کو میں کیسے ٹھیک مان لوں۔

بہت سے دوست پوچھتے ہین کہ اگر یہ سروے غلط ہیں تو صحیح اور سچ کا اندازہ کیسے کیا جائے۔ کسی بھی جماعت کی مقبولیت کا اندازہ کیسے کیا جا ئے۔ تو میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ خود سروے کریں۔ اپنے علاقے میں مقبول جماعت کا پتہ خود لگائیں۔ طریقہ کار میں بتاتا ہوں اور جو کام میں بتاؤں اُسے جس قدر وسیع کر لیں گے۔ اُسی قدر زیادہ علاقے کے بارے میں حقیقت آپ کو پتہ چل جائے گی ۔

چوتھی سے ساتویں تک کے بچے عملی طور پر پوری طرح باشعور مگر سادہ ہوتے ہیں۔ لگی لپٹی بغیر پوری بات بتا دیتے ہیں۔ اپنے علاقے کے کسی پرائمری یا مڈل سکول میں چلے جائیں اور ان کلاسوں کے بچوں سے پوچھیں کہ اُن کے والدین کسے ووٹ دے رہے ہیں۔ یہ سادہ دل بچے کچھ چھپا نہیں سکتے۔ اپنے گھر کے بارے ہر بات بتا دیتے ہیں۔ علاقے کے چند سکولوں کا سروے آپ کو پورے علاقے کی صورتحال سے آگاہ کر دے گا۔ میں نے ذاتی طور پر لاہور اور اُس کے مضافات کے سکولوں میں ایسا سروے کیا۔ مسلم لیگ (ن ) جو لاہور کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے ۔ ہر جگہ تحریک انصاف کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر تھی۔ میرے ذاتی سروے کے مطابق تحریک انصاف 45فیصد ، مسلم لیگ (ن) 32فیصد ، پاکستان پیپلز پارٹی دس فیصد اور جماعت اسلامی جس کا گیلپ سروے میں کوئی ذکر نہیں 5فےصد۔ مسلم لیگ (ق) 2فیصد اور 6فیصد ووٹ مختلف جماعتوں کے تھے۔ اور میں دعوے سے کہتا ہوں آنے والے الیکشن تک تحریک انصاف کے گراف میں کافی اضافہ متوقع ہے۔ کسی سروے پر اعتبار نہ کریں۔ یہ رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ایک ناکام سعی ہے۔ اپنا سروے خود کریں۔ تاکہ سچ اور حقیقت کا علم ہو۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 448364 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More