بدعنوان عناصر کا پارلیمنٹ میں داخلہ ہر صورت روکنا ہوگا وگرنہ

تحریر : محمد اسلم لودھی

دنیا بھر میں جعلی ڈگری رکھنا نہ صرف فراڈ کے زمرے میں آتا ہے بلکہ مہذب ملکوں میں ناقابل ضمانت جرم ہے یہی وجہ ہے کہ جعلی ڈگری کے حامل لوگ کسی بھی عہدے پر اگر کام کررہے ہوں نہ صرف ان کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے بلکہ حاصل شدہ تنخواہوں اور مالی مراعات کی واپسی کے ساتھ ساتھ آٹھ دس سال کی قید بھی بھگتنی پڑتی ہے اتنی سخت سزا اس لیے رکھی گئی ہے کہ آئندہ کسی بھی شخص کو قومی مفادات سے کھیلنے ، دھوکہ دہی اور فراڈ کرکے ناجائز فائدہ اٹھانے اور حق داروں کا حق مارنے کی دوبارہ ہمت نہ ہو لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اراکین پارلیمنٹ کی بڑی تعداد فخریہ انداز میں جعلی ڈگری ہونے کا نہ صرف اعتراف کرتی ہے بلکہ جعلی ڈگریوں پر ہی الیکشن لڑنے پر اصرار بھی کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلی اسلم ریئسانی تو اس حد تک کہہ چکے ہیں کہ ڈگری ، ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی ۔ تعلیم اور دیانت داری کا اس سے زیادہ مذاق اور کیسے اڑایا جا سکتا ہے پاکستان میں الیکشن زیادہ دور نہیںر ہے نگران حکومتوں کی تشکیل ہونے کو ہے الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے متوقع الیکشن میں ہر صورت بدعنوان ، ٹیکس اور بنک ڈیفالٹر ، جعلی ڈگری کے حامل امیدواروں کا راستہ روکنے کی جستجو کررہا ہے اس مقصد کے لیے اس نے کاغذات نامزدگی کا جو فارم تجویز کیا تھا اسے دانستہ ایوان صدر میں دباکر یہ تاثر دیا گیا کہ حکومت کو الیکشن کمیشن کے تجویز کردہ فارم پر تحفظات ہیں۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے عبوری حکم میں کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات سے متعلق عدالتی فیصلہ قانون بن چکا ہے عملدرآمد میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی ۔بظاہر تو چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے راستے میں حکومت کی جانب سے چنے گئے کانٹے صاف کردیئے ہیں اس کے باوجود الیکشن کمیشن کے اقدامات کے بارے میں حکومت اور بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارلیمنٹ میں جس قسم کے خیالات کا اظہار کیاگیا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ شرمندگی اور ندامت کی بجائے اب بھی جعلی ڈگریوں پر انتخاب کو اپنا حق تصور کررہے ہیں ایک رکن پارلیمنٹ نے تو واشگاف الفاظ میں کہا کہ بھارت میں اگر پھولن دیوی ( جو مشہور زمانہ ڈاکو ہے ) پارلیمنٹ کی رکن بن سکتی ہے تو ہم پارلیمنٹ کے رکن کیوں نہیں بن سکتے گویا ان کو شک ہے کہ وہ کسی ڈاکو سے ابھی کم ہیں ویسے ڈاکو تو صرف ایک مرتبہ لوٹ کر رفوچکر ہوجاتا ہے لیکن اراکین اسمبلی کی شکل میں یہ ڈاکو پورے پانچ سال سے سرکاری خزانے کو جوقوں کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ایسے اراکین اسمبلی کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ گزشتہ پانچ سال کی بدترین کارکردگی کی وجہ جعلی ڈگریوں والے نااہل اور کرپٹ اراکین اسمبلی ہی ہیں جن کے مفاد پرستانہ فیصلوں نے پاکستان کو نہ صرف ناکام ریاست کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے بلکہ کرپشن کے میدان میں بھی اتنی ترقی کرلی ہے کہ پانچ سال پہلے پاکستان دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں 44 نمبر پر تھا تو اب 12ویں نمبر پرآچکا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اگر 2008 کے الیکشن میں ایسے اقدامات کرلیے جاتے تو شاید پاکستان کی یہ حالت نہ بنتی جو آج دکھائی دے رہی ہے لیکن اس وقت جبکہ چیف جسٹس کی ولولہ انگیز قیادت میں سپریم کور ٹ ، جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں پاک فوج ، فخر الدین جی ابراہیم کی قیادت میں الیکشن کمیشن ، اور غیر جانبدار میڈیا ،پاکستان میں دیانت دار قیادت کے لیے کوشاں ہیں تو راستے میں روڑے اٹکانے کی بجائے ، جعلی ڈگریوں والوں کے حق میں دلائل دینے کی بجائے ، بنک اور ٹیکس ڈیفالٹر ، سرکاری خزانہ لوٹنے والے کے حق میں بات کرنے کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو الیکشن کمیشن کے جرات مندانہ اقدامات کی کھل کرحمایت کرنی چاہیئے تاکہ پاکستان کو ہمیشہ کے لیے نااہل اور کرپٹ قیادت سے محفوظ رکھتے ہوئے بحرانوں سے نکالاجاسکے ۔ افسوس کہ حقیقت میں ایسا دکھائی نہیں دے رہا بلکہ حکومتی ایوانوں سے شاطرانہ چالبازیوں کا سلسلہ تو ایک طرف جاری ہے جبکہ دوسری طرف ن لیگ ، ایم کیو ایم ، اے این پی اور ق لیگ کی جانب سے بھی مخالفانہ رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو قابل ستائش بات نہیں ہے -اگر حقیقت میں پاکستان کو کرپٹ مافیا سے بچانا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو ایک آواز ہوکر نہ صرف جعلی ڈگری ہولڈر ، ٹیکس ، بنک ڈیفالٹر افراد کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی بلکہ الیکشن میں ایسے امیدواروں کو منتخب کرنا ہوگا جو آئین کی شق نمبر 62,63 پر پورے اترتے ہوں خدانخواستہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا یہ موقعہ بھی مصلحتوں کا شکار ہوکر اگر ہم نے ضائع کردیا تو پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا ۔یہ وقت ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنے کا ہے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں دوسرے ملکوں کے بنکوں میں جمع پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر واپس لاکر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی شق بھی شامل کرنی چاہیئے تاکہ پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہوکر ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن ہوسکے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 116661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.