انسان اس قدر سنگ دل اور بے حس
بھی ہوسکتا ہے کہ ہزاروں انسانی لاشوں کو روندتا ہوا صرف اور صرف اقتدار کا
اسیر ہوکر ایوان صدر ، وزیراعظم ہاﺅس یا پھر انتخابی جوڑ توڑ میں بھاگا چلا
جارہا ہے، ایسا صرف تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہوتا تھا جب اپنے اپنے وقتوں
کے حکمران جنھیں عوام یا عوامی مفادات سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی فقط اپنے
اقتدار یا اقتدار کو طول دینے کے نت نئے نسخے تلاش کیا کرتے تھے ۔ انسانی
کھوپڑیوں کے مینار بنایا کرتے تھے ۔آج بھی کچھ ایسا ہی منظر دکھائی دیتا ہے
، خود کش حملوں ، بارودی گاڑیوں اور ٹائم بموں کے ذریعے بے گناہ انسانوں کے
قتل عام کا یہ سلسلہ شدت پکڑتا جارہا ہے لیکن ہمارا حکمران طبقہ ، ہماری
بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں ، پاکستانیوں کے اس شرمناک قتل عام کے خطرناک
مضمرات سے آنکھیں بند کئے انتہائی بے شرمی ، ڈھٹائی اور خود غرضی سے
انتخابی گٹھ جوڑ اور اقتدار حاصل کرنے کی شدید خواہش یعنی انتخابات میں بھر
پور حصہ لینے کے لئے پرتول رہی ہیںاور چرچا یہ کیا جارہا ہے کہ ملک میں امن
و استحکام کا واحد حل محض انتخابات کا انعقاد اور ایک جمہوری حکومت کا اپنی
باری سنبھال لینا ہے۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت بھی تو پانچ برس
پہلے شفاف انتخابی عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی ، تو ان گزشتہ پانچ
برسوں میں اس جمہوری حکومت نے کونسا تیر مار لیا ، سوائے مدت پوری کرنے
کے۔ہمارے سیاسی اور مذہبی اکابرین دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے نام
پر ہونے والی بربریت سے جنم لینے والے طوفان سے یا تو نا آشنا ہیں یا پھر
اپنی اقتدار کی بھوک کی خاطر اس ملک کے مستقبل پر منڈلانے والے مایوسیوں ،
بدامنی اور دہشت گردی کے سیاہ بادلوں کو خاطر میں لانے کوتیا ر نہیں
ہیں۔دہشت گردی کے کارروائیوں کے خلاف عوامی احتجاج میں اب بے بسی کا عنصر
غالب آتا جارہا ہے۔لوگ اپنے پیاروں کے جنازے کئی کئی روز سڑکوں پر رکھ کر
اپنی آواز ، اپنا احتجاج اور اپنی بے بسی ایوان اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں
تک پہنچانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ہمارے بے حس حکمرانوں نے محض مذمتی بیانات
جاری کرنا ، واقعے کا نوٹس لے لینااور دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کے
دعوے کرنا اپنی عادت بنالیا ہے۔ حکومتی بے حسی اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ
سندھ کے وزیر اعلیٰ ابھی تک سانحہ عباس ٹاﺅن کے متاثرین کے پاس جا کر
ہمدردی کے دو بول بولنے کی فرصت نہیں نکال پائے، وزیراعلیٰ سندھ نے تحصیل
ساکروکے 8 دیہاتوں میں بجلی کی فراہمی کے منصوبے کے افتتاح اور اپنے اعزاز
میں دیئے جانے والے ظہرانے میں شرکت کو سانحہ عباس ٹاﺅن سے زیادہ اہم سمجھا
۔ یہی نہیں بلکہ حکمرانوں کے اپنے محلات کے نہ صرف چاروں اطراف بلکہ کئی
کلومیٹر دور ہی سے حفاظتی حصار کا جال پھیلادیا گیا ہے ، عوامی تحفظ کی
خاطربھرتی کئے گئے ، عوامی ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں پانے والے ہزاروں
پولیس اہلکار، عوام کے جان و مال کے تحفظ کے بجائے حکمرانوں کی حفاظت پر
مامور ہیںاور عوام سڑکوں ، بازاروں ، گلیوں ،دفتروں حتٰی کہ گھروں تک میں
محفوظ نہیں ہیں۔ سانحہ عباس ٹاﺅن جس کے بعد ہر جگہ آگ، خون ،دھویں ، انسانی
جسموں کے ٹکڑے، بجلی بند ہونے سمیت اندوہناک اور دلدوز مناظر دیکھنے کو ملے
، جمہوری حکمرانی میں کوئی پہلا دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہے جس کے نتیجے
میں درجنوں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہو۔انسانی زندگیوں کے چراغ بجھانے اور
خاندانوں کو المیوں کے اندھیروں میں دھکیلنے والے عناصر کو کوئی بھی نام
دیں، انہیں کسی بھی تحریک ، کسی مسلک یا کسی قوم کا نمائندہ نہیں کہا
جاسکتا۔ ایسے عناصر انسانیت کے نام پر بدنما داغ ہیں اور ایسے داغوں کو
دھونے کی ضرورت ہے۔ان کی ہرسطح پر جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ سب جو
کچھ ہمارے ملک میں برپا ہے وہ سب اس نام نہاد جمہوریت کا تحفہ ہے جس
جمہوریت نے غریب سے دو وقت کی روٹی تک چھین لی ہے۔ لوگ غربت کی لکیر سے
نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ خودکشیاں اور اپنے بچے فروخت کرنا
معمول بن گیا ہے۔ مگر ہمارے حکمران نوکریاں بانٹنے کے دعوے کرتے ہیں۔ آنے
والے انتخابات میں ووٹوں کے حصول کی خاطر نوکریاں ڈومیسائل دیکھ کر بانٹی
جارہی ہیں۔ اس ملک میں شیعہ ،سنی ،ہندو، سکھ، عیسائی اور نہ جانے کتنی ہی
قومیں بستی ہیں جن میں عوامی سطح پر کہیں کوئی اختلاف کوئی جھگڑا نہیں ہے
سب پاکستانی ہیں مگر سازشی عناصر نے اپنی مذموم و گھناﺅنی کارروائیوں کے
ذریعے تمام مسالک و مذاہب کے لوگوں میں دہشت پھیلادی ہے ہر گھرانہ چاہے وہ
شیعہ کا ہو یا سنی کا ، ہندو کا ہو خواہ عیسائی یا سکھ کا ، ہر گھرانے میں
اس دہشت گردی کے اثرات و نقصانات نظر آتے ہیں۔حکومت یا حکومتی عملداری کہیں
دکھائی نہیں دیتی ، پر امن شہریوں کی حفاظت کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے
جاتے ۔ ہر سو وحشت، بربریت اور بدامنی کا راج ہے ۔ امن کی چڑیا عرصہ ہوا اس
چمن سے پرواز کرچکی، مہنگائی کا ایک سیلاب بلاخیز ہے جس میں غریب غوطے
کھارہے ہیں، ملکی معیشت کی کشتی لوڈ شیڈنگ کے طوفان میں بغیر ناخدا کے
ہچکولے کھارہی ہے، جان و مال تو ایک طرف اب تو عزتیں بھی محفوظ نہیں رہیں،
مگر ہمارے بے حس و بے ضمیر حکمران ہیں جن کا راوی چین ہی چین لکھتا ہے کہ
ملک میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں ، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی رہے
ہیں۔اب جبکہ انتخابات کی آمد آمد ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت
سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کا جائزہ لے اور اس کا مﺅثر حل تلاش کرے تاکہ
انتخابات کے لئے پرامن فضاءقائم کی جاسکے اور عوام کو بھی زہنی سکون میسر
آسکے۔ دہشت گرد اور ملک دشمن عناصر انتخابات کے التواءکے لئے ہر ممکن ستم
ڈھارہے ہیں اس لئے حکومت کو ابھی سے اس کے تدارک کی فکر کرنی چاہئے۔کوئٹہ
کے بعد اب کراچی عباس ٹاﺅن میں دہشت گردی کا یہ بڑا سانحہ حکومت اور قانون
نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے۔
کراچی کو خون سے نہلانے، اس میں لاشوں کے انبار لگانے اور شہریوں کو لہو
رلانے کا یہ سلسلہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ برسوں سے جاری ہے۔ صدر مملکت،
وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور وفاقی وصوبائی وزرائے داخلہ کی سطح پر صرف اور صرف
نوٹس پر نوٹس لئے جاتے رہے ہیں۔ جامع لائحہ عمل بنائے جانے کی اطلاعات بھی
آتی رہی ہیں، ٹارگٹڈ آپریشن بھی ہوتے رہے ہیں۔ مصالحت کے پانچ برس بھی اس
شہر نے دیکھ لئے ہیں، آمریت کے طویل ماہ و سال سے بھی یہ شہر گزر چکاہے،
مگر یہ سارے طریقے اس شہر میں امن قائم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ وہ
شہر جس کا دامن ہر ایک کے لئے کھلا ہوا تھا ، جس کی راتیں روشنیوں سے
جگمگاتی تھیں، جہاں کے دن ایسے ہوتے تھے کہ بازاروں کی رونق دیکھ کر میلے
ٹھیلے کا گمان ہوتا تھا ، جہاں کارخانوں کی مشینیں دن رات چل کر ملک بھر کے
لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ بنتی تھیں اور جس کی کاروباری
سرگرمیاں ملکی معیشت کے پہیے کو ہردم رواں دواں رکھتی تھیں، اس کی رونقیں
آئے روز کی ہڑتالوں ، ٹرانسپورٹ کی بندش، کاروباری جمود، صنعتی سرگرمیوں کی
محدودیت کے باعث اجڑ چکی ہیں۔ اس وقت کراچی کو فرقہ واریت کی لڑائی ، سیاسی
برتری کی جنگ ، لینڈ مافیا کے تصادم ، زیرزمین دنیا سے تعلق رکھنے والے
گروہوں کے ٹکراﺅ سمیت ہر قسم کے آشوب کا سامنا ہے، دہشت گرد عناصر پوری
طاقت سے اپنی موجودگی کا احساس دلارہے ہیں ۔ شہر منتظر ہے کہ کوئی مسیحا
آئے اور اصلاح احوال کے لئے کام کرے، شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرے ،
روزگار کے بند ہوتے دروازے کھولے، گھروں کے بجھتے چولہے جلتے رہنے کا سامان
کرے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تاخیر کی صورت میں یہ معاملہ سیاسی قوتوں کے ہاتھ
سے نکل کر دوسرے ہاتھوں میں چلا جائے اور کوئی دوسرا حل مسلط کردیا جائے ۔
اے میرے دیس کے لوگوں ، شکایت کیوں نہیں کرتے ؟
تم اتنے ظلم سہہ کر بھی بغاوت کیوں نہیں کرتے ؟
یہ جاگیروں کے مالک اور لٹیرے کیوں چنے تم نے ؟
تم پر تم ہی جیسے لوگ حکومت کیوں نہیں کرتے ؟
یہ بھوک ، افلاس، تنگدستی ، تمہارا ہی مقدر کیوں ؟
مقدر کو بدلنے کی جسارت کیوں نہیں کرتے ؟
تمہارے حکمراں کرتے ہیں لاشوں پر سیاست جب
تم ان سے ان ہی جیسی پھر سیاست کیوں نہیں کرتے ؟
جہاں نہ خوف گولی کا، نہ ہو دہشت کا اندھیرا
طلب ان سے تم ایک ایسی ریاست کیوں نہیں کرتے ؟
شیعہ ، سنی، مسیح ، ہندو، مسلماں، ہیں امن والے
امن والوں پہ دہشت کی مزاحمت کیوں نہیں کرتے ؟
زرا سوچو، حصاروں میں گھرے یہ رہنما سارے
کبھی اپنی رعایاکی حفاظت کیوں نہیں کرتے ؟
جمہوری حکمرانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے
جمہوری طرز پر اپنے ندامت کیوں نہیں کرتے ؟ |