حکومتی اراکین کی شاہ خرچیوں کے
لئے مسلسل بیرونی قرضے لینے کی روش وطن عزیز کو ایسے موڑ پہ لے آئی ہے جہاں
ہر پاکستانی اب تقریبا 80 ہزار 894 روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ کرے کوئی اور
بھرے کوئی کے مصداق عوام جو پہلے ہی ہوشربا مہنگائی کے بوجھ تلے نہ صرف دبے
ہوئے ہیں بلکہ روزمرہ کے اخراجات کو باآسانی پورا کرنے سے قاصر ہیں، اب
حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور اللے تللے کی نذر ہونے والے اندرونی و بیرونی
قرضوں کی ادائیگی کا بار بھی اٹھانا پڑیگا۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں
دہشت گردی کا عفریت انسانوں کو نگل رہا ہے، قوم کو توانائی کے بحران نے
گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیلا ہوا ہے،بنیادی ضرورتوں کے لئے انسانیت سسک
رہی ہے، حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہر طبقہ فکر سراپا احتجاج ہے، ملک داخلی و
خارجی خطرات میں گھرا ہوا ہے ، غریب گھرانوں کے واحد کفیل 32 ہزار بلدیاتی
ملازمین اور اس بے حس حکومت کی رعایا کے 22 ہزار بزرگ پنشنرز گزشتہ 3 ماہ
سے اپنی تنخواہوں اور پنشن سے محروم دہائیاں دیتے نظر آرہے ہیں، وہاںمشکلات
و مسائل کے شکار ملک کے صدر مملکت کا تمام صورتحال سے بے نیازی اور چشم
پوشی اختیار کرتے ہوئے کروڑوں روپے خرچ کرکے محض اپنے چند روزہ قیام کی
خاطر لاہور میں پر تعیش بم پروف رہائش گاہ تعمیر کرانا پاکستانی عوام کے
ساتھ دردناک مذاق ہی تو ہے۔ کیا ایک اسلامی ملک کے سربراہ کو ایسا ہونا
چاہئے ؟ ہمیں تو تاریخ بتاتی ہے کہ اسلامی مملکت کے ایک سربراہ صحابی رسول
ﷺ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ تو اپنے دور حکومت میں ساری ساری رات
رعایا کی خبر گیری کی خاطر مملکت کی گلیوں میں گھوما کرتے تھے اور فرماتے
تھے کہ اگر میری مملکت کی حدود میں ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو روز قیامت
اس کا خون میری گردن پر ہوگا۔ آج جب کے ایم سی کے 54 ہزار سے زائد ملازمین
گزشتہ 90 روز سے اپنی تنخواہوں اور پنشن سے محروم ہیں ، مہنگائی کے اس دور
میں اپنے اہل خانہ کے علاج ومعالجہ کے اخراجات، مکان کا کرایہ ، بچوں کے
ماہانہ تعلیمی اخراجات اور اشیائے خوردونوش کی خریداری کے لئے پریشان ہیں ،
خود وہ اور انکے بچے بھوکے سورہے ہیں مگر ہمارے حکمران اپنے پرتعیش محلوں
کے آرام دہ بستروں پر کس طرح پرسکون نیند سورہے ہیں ۔ کبھی ظہرانوں ، کبھی
عصرانوں ، کبھی عشائیوں تو کبھی مزید اقتدار کی ہوس میں منعقد کئے جانے
والے سیاسی جلسوں میں لذیذ و زائقہ دار کھانوں سے لطف اندوز ہوتے نظر آرہے
ہیں۔ کیا آج کی اسلامی مملکت کا انسان 1400 سال پہلے کی اسلامی ریاست کے
کتے سے بھی بدتر ہوگیا ہے ؟ آج 54ہزار گھروں کے چولہے بجھے ہوئے ہیں اور
حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کو آگ لگی ہوئی ہے۔ عدالت نے متعلقہ محکمے کو حکم
دیا تھا کہ ان ملازمین کو 7 دن کے اندر اندر تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی
کردی جائے لیکن بڑے میاںتو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کے مصداق متعلقہ
محکمے نے بھی عدالت کے حکمنامے کو اسی طرح سنی ان سنی کردیا جس طرح وفاقی
حکومت عدالت عظمیٰ کے کتنے ہی حکمناموں کے ساتھ کرتی چلی آرہی ہے۔ خوراک کے
عدم تحفظ کا شکار اور غربت کی شرح میں آبادی کے 58 فیصد تک پہنچ جانے والے
ملک پاکستان کے خوش قسمت حکمران پوری قوم کو تباہ حال معیشت کی دلدل میں
دھنسانے کے باوجود اپنی آسائشات اور لگژری طرز زندگی سے ایک انچ بھی پیچھے
ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اربوں روپے کی کرپشن کے اسکینڈلز میں ملوث حکمران
نہایت ہی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے نہ صرف اپنا دفاع کرتے ہیں بلکہ ٹیکس
گوشواروں میں بھی دھاندلیوں کے ریکارڈ قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ ذاتی طیاروں
، بلٹ پروف گاڑیوں اور اپنی شاہانہ طرز زندگی کو مزید چار چاند لگانے کے
خواہشمند یہ حکمران ترقی یافتہ ممالک سے اربوں ڈالر کے قرضوں پہ قرضے لئے
چلے جارہے ہیں۔ قرضے امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی لیتا ہے مگر وہ ان
قرضوں کو پیداواری مقاصد پر خرچ کرتا ہے ۔ زمین میں چھپے ہوئے تیل اور
معدنیات کے خزانے نکالنے ، زراعت کو ترقی دینے، صنعتی اور سائنسی میدانوں
میں تحقیق کے ذریعے نت نئی دریافتیں دنیا کے سامنے لانے، ناقابل علاج تصور
کئے جانے والے امراض کا علاج دریافت کرنے، کائنات کے چھپے ہوئے سربستہ
رازوں کا کھوج لگانے اور اپنے ملک کے شہریوں کی فلاح و بہبود اور انہیں
سہولتیں بہم پہنچانے کے لئے قرضے لئے جاتے تو آج پاکستان دنیا کا سپر پاور
ملک ہوتا مگر افسوس کہ یہ قرضے ملک پر استعمال ہونے کے بجائے ملک پر قابض
اشرافیہ کے عیش و عشرت پر خرچ ہورہے ہیں۔ آج وطن عزیز پاکستان توازن
ادائیگی کے ایک بحران کی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے
کم ہونے کے باعث روپے کی قدر ہر گزرتے دن کے ساتھ گھٹ رہی ہے اور مہنگائی
میں اضافہ ہورہا ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے جانے اور بھوکے سونے والوں کی
تعداد ہماری معیشت کی سنگین کیفیت کی نشاندہی کررہی ہے۔ رواں مالی سال کے
دوران آئی ایم ایف سمیت کئی عالمی اداروں کو 4 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے
ہیں جبکہ ملک کو اوسطا 14 سے 15 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا
ہے۔معیشت کی یہی صورتحال رہی تو پاکستان کا شمار انتہائی غریب ملکوں میں
ہونے کا خدشہ ہے۔ ملک کی مجموعی حالت زار ، دہشت گردی ، بےروزگاری ،
مہنگائی ، تعلیم و صحت ، لینڈ مافیا کے بے رحم پنجے ، توانائی کا بحران ،
گیس بجلی کی عدم دستیابی ، اقتصادی نظم و ضبط میں ناکامی ، موثر منصوبہ
بندی کا فقدان ، کرپشن کا زہر، ٹیکس چوری ، رشوت ، ملکی سرمائے کا فرار،
بیرونی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی ، صنعتوں کی بیرون ملک منتقلی ، قرضوں
کا بڑھتا ہوا بوجھ اس امر کے عکاس ہیں کہ ہمارے حکمران قطعی ناکام ہوچکے
ہیں ، حکومت اپنا اخلاقی جواز اور حکمران حق حکمرانی کھو بیٹھے ہیں۔ 3 ماہ
میں شفاف انتخابات کرانے کے دعوے کرنے والے ہمارے حکمران 3 ماہ سے اپنی
تنخواہوں اور پنشن کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے والے54 ہزار بلدیاتی
ملازمین کو تو انصاف فراہم کر نہ سکی ، 18کروڑ عوام کو صاف و شفاف انتخابات
کیا خاک دیگی۔ پانچ سالہ تاریخی حکومتی مدت پوری کرنے والی حکومت کرپشن
اورملکی مسائل کے حل میں ناکامی کی تاریخ بھی رقم کررہی ہے۔ قومی وسائل اس
تاریخی دور میں جس بے دردی سے لوٹے گئے ہیں اس پر ملک کی اعلیٰ عدالتیں تک
ماتم کناں ہیں ۔ ملک میں ہر روز تقریبا 8 ارب روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں۔
سی این جی کے فقدان کے پیچھے بااختیار حلقوں کی 80 ارب روپے کی کرپشن بتائی
جارہی ہے مگر حکمرانوں کی زبان سب اچھا ہے کی گردان کررہی ہے۔کے ایم سی
کے54 ہزار حاضر سروس و ریٹائرڈ ملازمین آنے والے انتخابات میں یقیناً کسی
نہ کسی انتخابی حلقے سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے جائیں گے تو سوچیں
کہ کئی مہینوں تک اپنی تنخواہوں اور پنشن سے محروم یہ بلدیاتی ملازمین کس
کو ووٹ دینا پسند کریںگے جبکہ معاشی پریشانی کے دنوں میں کسی جانب سے بھی
انکی دادرسی نہیں کی گئی ۔ماہرین نفسیات کے مطابق مالی پریشانیوں میں اضافے
کے باعث تقریبا 35 فیصد افراد سالانہ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے سے
بھی گریز نہیں کرتے۔اگر حکومت کی جانب سے روزگار کی بروقت فراہمی جاری رہے
تو افراد مالی پریشانیوں میں مبتلا نہ ہوں اور نہ ہی وہ خودکشی جیسے قبیح
فعل کی انجام دہی میں اپنی نجات محسوس کریں۔ملک کو قومی امنگوں سے ہم آہنگ
فیصلوں کی ضرورت ہے جس سے عام انسان کو معاشی سکون حاصل ہوسکے۔ ارباب
اقتدار کو ملک بھر میں ہونے والے عوامی احتجاجوں سے سبق سیکھنا چاہئے ورنہ
اقتدار تو جس جس کو بھی ملا اسے بلا ٓخر رخصت ہونا پڑا ہے۔ عوام کے مسائل
کے حل کے لئے کوشاں رہنے والی حکومتیں عوام کے دلوں پر راج کرتی ہیں اور
عوام خود سے مخلص حکمرانوں کو ہمیشہ یاد بھی رکھا کرتی ہیں۔ |