ہر کام کو کرنے کا ایک وقت ہوتا
ہے، اور اگر کسی بھی کام کو بروقت اقدام کے ذریعے نہ روکا جائے تو وہ ناسور
بن جاتا ہے۔ اور ہمارے یہاں تو ایسا ہی وطیرہ بنا لیا گیا ہے کہ بروقت
اقدام نہ کرکے بعد از مرگ واویلا کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ اس بات
کو ہم اس تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں جیسے ہم عملی اقدامات کی جگہ زبانی
جمع خرچ کے عادی ہو چکے ہیں۔ اور یہی وہ خاص وجہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک
میں کوئی کسی کی نہیں سُن رہا ہے۔ ماتحت اپنے افسران کی نہیں سنتا، مختلف
جماعتیں ایسی ہیں (سوائے چند ایک کہ جو قائدین اور کارکنوں سمیت بہت منظم
ہیں) کہ ان کے کارکنان اپنے سربراہوں کی نہیں سنتے، اسی طرح اور مختلف
النوع مسائل ارد گرد موجود ہیں جس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے آج پورا
ملک قدرے غیر مستحکم ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ خواہش ایک ایسی چیز ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی ، ایک
خواہش پوری ہوتی نہیں کہ دوسری اور پھر تیسری خواہشوں کی زد میں سب آنے
لگتے ہیں یوں خواہشوں کا ایک پہاڑ ہمارے سامنے کھڑا ہماری ہنسی اڑانے لگتا
ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ ایک خواہش پوری ہوئی تو دوسری کے تگ و دو میں لگ
جایا جاتا ہے۔ اگر اربابِ اختیار بھی اسی طرح ایک ایک کرکے عوامی خواہشوں
کا سدّباب کرتے تو آج مسائل کی لامحدود سَر اٹھائے نہ کھڑی ہوتیں۔ حکومتی
کمزوریوں کا سلسلہ یہاں سے شروع نہیں ہوا بلکہ مختلف ادوار میں آنے والی
حکومتوں نے بھی اسی طرح کا برتاﺅ کیا کیونکہ عوام نے انہیں اکثریتی ووٹوں
سے منتخب توکیا مگر انہوں نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے لئے اپنے
کمسن اور ناتجربہ کار لوگوں کو وزراءاور مشیر لگا کر ان کے ہاتھوں میں
حکومت کی باگ ڈور تھما دی۔ اسی سیاسی شعور پر کاربند رہتے ہوئے موجودہ
حکومت نے بھی وہی کیا جس کی وجہ سے ملک کے مختلف شہروں میں فرقہ وارانہ
فسادات ہوتے رہے اور حکومت کی جانب سے محض معاوضہ پاس کیا جاتا رہا اور
مذمتی بیان داغا جاتا رہایوں عوام کی قائم کی طرف سے قائم ہوئی تمام امیدوں
پر پانی پھیر دیا گیا۔ اگر بات کی جائے امن و امان کی تو ایسی طاقتیں جو ہر
دور میں فتنہ و فساد برپا کرنا چاہتی ہیں مگر حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ ان
کے خلاف ذمہ دارانہ اور دو ٹوک فیصلہ لیں مگر ایسا بھی نہیں ہوسکا۔ پانچ
سالوں میں ایسے کئی حادثے رونما ہوئے جن میں عباس ٹاﺅن کا واقعہ، بادامی
باغ لاہور کا واقعہ اسی طرح اور کئی بڑے واقعات بھی ہیں ۔معمولی نوعیت کے
حادثات تو ہر روز کا معمول ہیں۔ مگر پھر بھی سخت ایکشن کہیں بھی دیکھنے میں
نہیں آیا۔اب اسے کیا کہا جائے کہ ایک طرف تو پالیسی ساز قانونی بل پاس
کراتے ہیں مگر پھر بھی ان پر عمل در آمد نہیں کراتے۔
اس بات کا بڑا چرچا سننے میں آ رہا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری
حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کر لئے مگر ان پانچ سالوں میں جمہور کے لئے
کیا ، کیا گیا اس کی شور نہیں سنائی دیتی ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا
جا سکتا ہے کہ سولہ مارچ کو لوگوں نے یومِ نجات کے طور پر منایا۔میڈیا پر
لوگوں کا کہنا تھا کہ آج انہیں ایسی حکومت سے چھٹکارا ملا جس نے اپنے وطن
کے جمہور کے لئے کچھ بھی کارہائے نمایاں انجام نہیں دیا، اور اگر دیا تو
صرف افرا تفری، دہشت گردی، نشانہ وار قتل، مہنگائی، بیروزگاری، کیا جمہوری
حکومت کے کارنامے ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ جاتے جاتے بھی الوداع کے طور پر اس
حکومت نے بجلی کے نرخ میں اضافہ کرکے عوام کو الوداعی تحفہ سے نوازا۔ کیا
جمہوری حکومت میں جمہور کے ساتھ ایسا ہی برتاﺅ کیا جاتا ہے یہ سوال ہے
جمہوری قوتوں سے ، ہے کوئی جواب ان کے پاس!
2013ءکے عام انتخابات جوں جوں قریب آ رہے ہیں ، ووٹروں کی بساط پر اقتدار
اعلیٰ کی کرسی پر قابض رہنے کی متمنی نام نہاد جماعتوں کی ووٹر وں اور
ووٹوں کی حصولیابی کی چھٹپٹاہٹ شروع ہو چکی ہے اور جوں جوں یہ الیکشن قریب
آتے جائیں گے ان کی اس بے چینی میں عروج آتی جائے گی۔ لیکن ابھی اس میں
چونکہ وقت ہے اور عوام ان جماعتوں کا محاصرہ اور محاسبہ کر سکتے ہیں تاکہ
آنے والا وقت اُن کا ہو سکے۔ آج ہمارے ملک میں اقتصادی، معاشرتی اور تعلیمی
صورتحال بد سے بدتر ہے۔ عوام کے ووٹوں کو حاصل کرنے کا شوق رکھنے والے
ارباب اپنی خواہش ضرور رکھیں مگر اس کے لئے اپنی نیت بھی صاف رکھیں تاکہ
عوام کی بھلائی کے لئے کم از کم امن و امان ، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے
بنیادی مسائل کا حل ضرور نکلے۔لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی واضح پالیسی لائی جائے
، اسی طرح اور بھی دیگر مسائل ہیں جو فوری حل طلب ہیں، جرائم کے واقعات میں
تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ملک بھر کے سبھی خواص و عام عوام جرائم پیشہ
سرگرمیوں سے سخت خوفزدہ رہتے ہیں کیونکہ جرائم پیشہ افرد کے نشانے پر کمزور
و غریب طبقات ہی تو رہتے ہیں لیکن امیر اور اہم عہدوں پر فائز شخصیات بھی
جرائم پیشہ عناصر کی زد سے باہر نہیں ہیں ۔ مجرمانہ وارداتیں انجام دینے
والوں کو جہاں موقع ملتا ہے وہاں وہ گھناﺅنی واردات کر ڈالنے میں ذرا بھی
تامل سے کام نہیں لیتے، ملک کے گوشے گوشے میں لوٹ مار، قتل و غارت کے
واقعات تواتر سے ہوتے رہتے ہیں اس سے یہ ثبوت تو ملتے ہیں کہ مجرمین کا
خونی پنجہ ملک کے ہر طبقے تک پہنچ چکا ہے مگر حکومت کے سر پر جوں تک نہیں
رینگتی، ایسے حالات میں جرائم و بدعنوانی کے سدّباب کے لئے قانون کے ساتھ
اخلاقیات کی سخت ضرورت ہے۔ بچوں کو ایسی تعلیم پر معمور کیا جائے کہ جس سے
وہ جرائم و بدعنوانی سے متنفر ہو جائیں۔ دولت و اقتدار کی ہوس بھی موجودہ
دور کے انسان کو بدعنوانی کی طرف دھکیل رہی ہے چنانچہ کتنے ہی لوگ ایسے مل
سکتے ہیں جو زیادہ کمانے کے لئے جائز اور ناجائز ، درست اور غلط کے مابین
کوئی امتیاز نہیں کرتے ایسے لوگوں کو صرف دولت سے سروکار ہوتا ہے انہیں
عوام کی داد رسی کا کوئی شوق نہیں ہوتا۔ حکومت کو چاہیئے کہ ہر طرح سے عمل
خدمت کرکے دکھائے تاکہ ہماری جمہور کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف
نظر آئے۔
ظلم ہے مگر ایسے ظلم کی سزا کیا ہے؟
کھیل کھیل میں بچے تتلیاں مسلتے ہیں
التجا عوام ہے کہ سب سے پہلے حکومت بنیادی عوامی مسائل پر توجہ دے ، سارے
مسائل ایک ساتھ لے کر چلنا اور ایک ساتھ ہی سب کا حل تلاش کرنا زیادہ
پیچیدہ امر ہوگا، لاتعداد مسائل کی بھیڑ میں سے چند بنیادی مسائل کو منتخب
کرکے ان پر پوری توجہ کے ساتھ عملدرآمد کرایا جائے ۔ ایسے بنیادی مسائل کے
حامل مسئلہ کو چُنا جائے جن کے ساتھ دیگر ضروری مسائل بھی جڑے ہوں گویا کہ
پہلی فرصت میں ایسے مسائل کا انتخاب کیا جانا چاہیئے جن کے حل ہو جانے کے
بعد دیگر مسائل کی گتھیاں خود ہی سلجھنا شروع ہو جائیں۔ قوم اس وقت دہشت و
خوف کے عالم میں زندگی گزار رہی ہے ، ان کی زندگی میں یکسوئی نظرنہیں آتی
ہے۔ انہیں یکسوئی کی جانب رواں دواں کرنے میں حکومت ہی ان کی مدد کر سکتی
ہے ورنہ وہ کیسے ترقی کر سکیں گے۔ عدم تحفظ کے احساس کو پُر سکون و خوشحال
زندگی کا خواب شرمندہ تعبیر کرانے میں حکومت ہی جمہور کے شانہ بشانہ رہ کر
یہ کام انجام دے سکتی ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ وقت کب آئے گا مگر اللہ کی
ذات سے امید ضرور ہے اس جمہور کو کہ وہ دن ضرور اور جلد آئے گا۔ |