23 مارچ کے حوالے سے خصوصی تحریر
غزالہ یاسمین
ہر شے کا ایک مُکھ ہوتا ہے، ایک چہرہ مہرہ ہوتا ہے ، اسی طرح ماہ و ایام
بھی اپناایک خاص چہرہ رکھتے ہیں۔جیسے ہر انسان الگ خصوصیات کے ساتھ پیدا
ہوتا ہے ۔اسی طرح سال کے بارہ مہینے بھی اپنی اپنی صفتیں رکھتے ہیںجیسے ہی
مارچ کا مہینہ آتا ہے ایسا لگتا ہے نئی شروعات ہونے والی ہے ایک نیا آغاز
جیسے کاپی کا نیا نکورصفحہ۔ 23 مارچ 1940ءکواقبال پارک لاہورکو
قراردادپاکستان پیش کی گئی جو ہماری پہچان بن گئی ۔ جس نے ہمارے لیے آزاد
ریاست کی بنیاد رکھی اور ہم نے ایک آزاد ملک حاصل کیا ۔23 مارچ ہمارے اسی
اتحاد، ایمان اور تنظیم اور عزم کی یاد دلاتا ہے جو آج ہم میں نہیں رہا۔
خدا جانے یہ تینوں اصول جس کو ساتھ لے کر قائد اعظم نے قیام پاکستان کے لیے
جدوجہد کی اور ہمارے لیے ایسا ملک بنایا جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ تمام
اقلیتوں کو بھی آزادی سے اپنے فرائض ادا کرتی نظر آئے ۔ مگر آج اسی ریاست
میں عیسائی ،ہندﺅ ، سکھ ، شیعہ سنی کا قتل ِعام ہو رہا ہے ۔ہر طرف ایک بے
سکونی سی ہے کوئی بھی پاکستانی اپنی ریاست کی اس حالت سے خوش نہیں ۔کوئی
ایسا میر ِ کارواں نظر نہیں آتا جو عوام کو ان کے بنیادی حقوق دے ۔ کیونکہ
اصل میرِکارواں تو اس خطے کے حصول کے ایک سال بعد ہی اس لٹے پٹے کارواں کو
لٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر رخصت فرما گئے ۔
بعد میں آنے والے ہمارے حکمرانوں نے 67 سالوں میں کارواں کی آنکھوں میں صرف
اور صرف دھول ہی جھونکی ۔لوٹ مار کی نوعیت اور کردار بدلتے رہے۔لیکن کہانی
اور پلاٹ ایک ہی رہا۔ کسی نے عوام پر روزگار تنگ کیا تو کسی نے
اشیاءخوردونوش کو ان کی پہنچ سے باہر کر دیا۔کسی نے حسب استطاعت بجلی بند
کر دی ۔ تو کسی نے پانی کی قلت پیدا کر دی۔کسی نے معیشت کو نقصان پہنچایا
تو کسی نے انڈسٹری کوگھن لگا دیا۔ جوبھی اس نے ایک دوسرے سے بڑھ کر عوام کو
دکھ دیئے ۔
ہر حکمران اپنے اپنے دور میں خود پسندی کا شکار رہا۔ کسی کو بھی اس ریاست
کی فکر اور خیال نہیں آیا۔ حالات بہتر کرنے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔
ہر کوئی وطن پاک کو اپنے اپنے انداز سے سنوارنے کے دعوے کرتا رہا ۔نئے
پاکستان کی باتیں ہورہی ہیں ۔کوئی پرانے پاکستان کی طرف دھیان نہیں دے رہا
۔ ہر کوئی نئے پاکستان بنانے میںمصروف ہے ۔ اس پاکستان کا کسی کو خیال نہیں
جو 23 مارچ کی ایک قرارداد کے ذریعے معرض وجود میں آیا تھا ۔ جسے اتحاد،
تنظیم اور نظم و نسق سے حاصل کیا تھا ۔کاش کوئی مجھے وہ پرانا پاکستان لوٹا
دے جہاں نفرتوں اورتفرقوں نے کبھی جنم نہیں لیا تھا۔
ہمارے ملک میں آج جو قیادت مسلط ہے اس کی لگامیں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔
یہاں ہونے والا ہر کام ان بیرونی آقاﺅں کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے جبکہ
عوام صرف اور صرف ان کے لئے ووٹ حاصل کرنے یا پھر ٹیکس وصول کرنے کا ذریعہ
ہیں۔ جب جس کا جی چاہتا ہے دنداتے ہوئے آتا ہے اور ہمیں احکامات دے کر چلا
جاتا ہے ۔یہ سلسلہ آج سے نہیں قیام پاکستان سے چل رہے ہیں ۔ اس کی بنیاد
پہلے عوامی وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور میں رکھ دی گئی تھی ۔ اس کے بعد
ملکی مقتدرہ نے عالمی مقتدرہ کے ساتھ مل کر جس طرح اپنے ملک کے وقار اور
خود مختاری کو گروی رکھا ۔اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔ البتہ اللہ جانے وہ
وقت کب آئے گا جب اس ملک کے اندر سے کوئی کھلاڑی اس ملک کو تماش گاہ بنانے
والوں کے خلاف اعلان جنگ کرے گا۔
آج تک کسی میرِ کارواں نے قائداعظم کی طرح ریاست اور سیاست کو عوام کے لئے
استعمال نہیں کیا۔ ہر کوئی ریاست کی وجہ سے سیاست میں لگا ہوا ہے۔ اسے صرف
اپنی سیاست کی فکر ہے۔مگر ریاست کی نہیں ۔ان کا نہ کوئی عمل ہے اور نہ کوئی
نظریہ ہے ۔سب اپنی اپنی حکایتں سناتے ہیں اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی بے
وقوف سمجھتے ہیں ۔انہیں تو شاید اس بات کا بھی احساس نہیں ہے کہ اس مملکت
کا وجود ایک نظریے سے منسلک ہے ۔انسانی زندگی کے انجام تک پہنچنے کا تصور
رکھنے والی یہ ریاست پاکستان برصغیر میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر استوار
ہوئی اور 23 مارچ 1940 ءکی قرارداد اس کی سیاسی نودیدہ کونپل ہے جواس جڑ سے
پھوٹی جس کی آبیاری برصغیر پاک وہند کے لاکھوں مسلمان عوام نے اپنے مقدس
لہو سے کی ۔اور عزت و آبرو ، مال و اسباب کی گراں قدر قربانیاں دیں ۔
وہ قرارداد جس کو بنیاد بنا کر اس وقت کے سچے اور کھرے میرِ کارواں نے ایک
ریاست کی ابتداءکی تھی جب یہ دن آتا ہے تو ہمارے لیڈر بڑے بڑے وعدے، اچھے
اچھے پیغامات اور بڑے بڑے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں ۔مگر عمل ان کا زیروہے ۔کاش
ریاست پاکستان کی قرارداد کو پاس کرنے والا کچھ عرصہ زندہ رہتا تاکہ یہ
ریاست ایک ڈگر پر رواں دواں ہو جاتی اور آنے والے حکمران اس ڈگر پر رہتے
ہوئے اس ملک کی بہتری کے لیے کچھ کر گزرتے اس لیے آج کا دن ہم سے تقاضا
کرتا ہے کہ ہم اپنے ملک کی بقا ،سلامتی ، ترقی ، خود مختاری اور خوشحالی کے
لیے نئے سرے سے جدوجہد کریں اور اپنے حصے کا کردار ادا کرنے میں کسی طرح
غفلت نہ برتیں ۔
اگر ہم اس ریاست کے سچے وفادار ہیں تو ہمیں اس کی ترقی کے لیے اپنے ذاتی
مفادات کو پس پشت ڈال کرازسرنوپلاننگ کرنی ہو گی اور اجتماعی اور قومی مفاد
کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ ہمیں اس دن کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔ بحث کے ساتھ
نہیں سچی حقیقتوں کے ساتھ ۔ ہمار ا فرض ہے کہ ہم پاکستان کی تاریخ اور اس
کے تاریخی حقائق کو سمجھیں ۔ اس کا بغور مطالعہ کریں کہ آخر وہ کون سے
اسباب تھے جن کی بنیاد پر ”قرارداد پاکستان“ پیش کرنے کی نوبت آئی۔ آخر
برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنے گھر بار کو کیوں چھوڑا؟ اپنے بزرگوں کی
سرزمین کو خیر باد کیوں کہا؟ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر یہ کڑا فیصلہ کیوں
کیا؟ اس مملکت کے قیام کی خاطر جان و مال کی قربانی کیوں دی ؟ اگر ہم ان
سوالوں کے جواب تلاش کر لیں تو ہمیں انداز ہ ہو گا کہ یہ ریاست پاکستان
ہمیں بغیر کسی جدوجہد کے پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی تھی ۔اس کے پیچھے بہت
خون بہا تھا ۔ہر پاکستانی کو چاہیے کہ وہ اپنی تاریخ اور تہذیب پر گہری نظر
رکھے ۔ یوم پاکستان اس طرح نہیں منایا جانا چاہیے کہ ایک دو تقریبات ہوئیں
اور بس چھٹی ! یوم پاکستان کا تقاضا ہے کہ ہم اس دن کی حقیقی روح اور جذبے
کو سمجھتے ہوئے سچے دل سے یہ عہد کریں کہ پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر
گامزن کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔ |