دینی جماعتوں کی انتخابی حکمت عملی

ملک میں عام انتخابات کے لیے میدان سج چکا ہے، مختلف حلقوں سے امیدوار سامنے آنا شرو ع ہوگئے ہیں، مقامی اور قومی سطح پر جوڑتوڑ کا سلسلہ بھی زوروں پر ہے، دینی جماعتیں بھی ایک بار پھر پورے جوش وخروش کے ساتھ مقابلے میں شریک ہیں۔ موجودہ طریقہ انتخاب سے ملک میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے یا نہیں؟ انقلابی سیاست سے دل چسپی رکھنے والوں میں یہ سوال اکثر وبیشتر زیربحث رہتا ہے، دینی رجحان رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد انتخابی دوڑ میں شامل ہونے کو انقلاب کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے، جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فعال مذہبی لوگوں کی بہت بڑی تعداد انتخابی نظام کا حصہ ہے۔ ماضی میں بھی انتخابات اہمیت کے حامل رہے ہیں، لیکن وہ زیادہ تر محض حکومت کی تبدیلی کے لیے ہوتے تھے، اس بار کے انتخابات ملک کے نظریاتی تشخص اور حقِ قیادت کا فیصلہ کریںگے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں یا تو بڑے بڑے سیاسی بت گر جائیںگے یا پھر قوم ایک طویل عرصہ کے لیے چند خاندانوں کی غلامی میں چلی جائے گی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار نسل درنسل حکمرانی کرنے والے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے خلاف بڑے پیمانے پر آواز بلند ہوئی ہے، نوجوانوں میں ایک نیا ولولہ ہے، اگر اب کی بار یہ آواز دب گئی تو پھر شاید اس کوچے سے برسوں کوئی اور دیوانہ نہ نکلے۔ جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے خلاف یہ ذہن بنیادی طو رپر مذہبی جماعتوں نے ہی بنایا ہے۔ نوجوانوں میں جو امید کی کرن نظر آرہی ہے اس کے پیچھے بھی دینی کارکنوں کی محنت ہے۔ مذہبی جماعتوں کے پاس اس وقت قوم بالخصوص نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملانے کا گولڈن چانس ہے، کیونکہ نوجوان تبدیلی چاہتے ہیں اور مذہبی جماعتیں اس تبدیلی کی داعی ہیں۔ نوجوان کرپٹ سیاست دانوں سے نجات کے خواہش مند ہیں، اس حوالے سے بھی مذہبی جماعتوں کا ریکارڈ بہت اچھا ہے۔ عوام آج بھی دیانت وامانت کے حوالے سے مذہبی رہنماؤں پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ قدرتی آفات کے دوران ہم نے دیکھا، حکومتی اور سیاسی جماعتوں کے کیمپوں میں سناٹا ہوتا تھا جبکہ دینی جماعتوں اور اداروں کے کیمپوں میں لوگ پیسوں کا ڈھیر لگادیتے تھے۔

جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، متحدہ دینی محاذ، جے یو پی اور چند دیگر مذہبی جماعتیں عوام کے پاس جارہی ہیں، اگر یہ جماعتیں کم ازکم تین نکات پر بہتر حکمت عملی اختیار کرلیں تو زیادہ نہیں تو کم ازکم مجلس عمل جیسی کامیابی تو انہیں حاصل ہونے کا پورا پورا امکان ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دینی ووٹوں کی تقسیم روکنے کے لیے مذہبی جماعتیں آپس میں مقابلہ بازی سے گرےز کریں۔ اب مجلس عمل جیسا اتحاد بننا تو ممکن نہیں رہا لیکن سیٹ ایڈجسٹمنٹ تو کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ہم دیکھتے رہے ہیں کہ مذہبی جماعتیں کئی حلقوں سے محض ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے ہی کامیاب نہیں ہوسکی تھیں۔ بدقسمتی سے جے یو آئی اور جماعت اسلامی ایک دوسرے سے کٹی کٹی نظر آرہی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں دوسروں سے تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کررہی ہےں لیکن آپس میں کسی مفاہمت پر تیار نہیں، اگر یہ روش رہی تو اس کا خمیازہ کسی ایک نہیں دونوں جماعتوں کو ناکامی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ یہی معاملہ دیگر مذہبی جماعتوں کا ہے۔ مذہبی حلقے اس صورت حال سے سخت رنجیدہ اور پریشان ہیں۔ محترم مولانا زاہدالراشدی نے اپنے حالیہ کالم میں ےہ خوشخبری سنائی تھی کہ پاکستان شریعت کونسل نے دینی ووٹوں کی تقسیم روکنے کے لیے کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کونسل کو اپنی کوششیں فوری طور پر شروع کردینا چاہےے اور اس کارِخیر میں دیگر بزرگ علمائے کرام سے بھی اپنے ساتھ چلنے کی درخواست کرنا چاہیے، یہ سب مل کر مذہبی جماعتوں کی قیادت سے گزارش بھی کریں اور ان پر دباو ¿ بھی ڈالیں تاکہ آپس کی مقابلہ بازی ختم ہوسکے۔

دوسری بات کالعدم تنظیموں کا معاملہ ہے، حکومتی پروپےگنڈے کے زیراثر اسے بلاوجہ ہوا بنادیا گیا ہے، اس بار اہل سنت والجماعت بھی بڑی انتخابی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے، بلاشبہ پورے ملک میں اس کے حامی موجود ہےں، جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اہل سنت والجماعت متحدہ دینی محاذ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ محاذ نے قومی اسمبلی کی 85 اور صوبائی اسمبلیوں کی تقریباً 150 نشستوں پر امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے تو اہل سنت والجماعت سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جے ےو آئی اور جماعت اسلامی اس حوالے سے اسے نظرانداز کرنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں، شاید انہیں کالعدم تنظیم کی ساتھی ہونے کی چھاپ لگنے کا خوف ہے، حالانکہ یہ دونوں جماعتیں متحدہ مجلس عمل میں کالعدم تحریک جعفریہ کے ساتھ تھیں۔ اہل سنت والجماعت جھنگ سے تو الیکشن لڑتی رہی ہے لیکن پورے ملک سے پہلی بار انتخابی میدان میں اتری ہے، اس لیے اس کی طاقت کے بارے میں شاید درست اندازے نہیں لگائے جارہے۔ یوتھ پاور کی حامل یہ جماعت انتخابات میں بڑا سرپرائز دے سکتی ہے، لہٰذا ”نظرانداز پالیسی“ ترک کرکے سیکولر جماعتوں سے مقابلے کے لیے اس جماعت کو اپنے ساتھ رکھنا بہت ضروری ہے۔

تیسرا نکتہ عمران خان سے متعلق ہے، کپتان سے لاکھ اختلاف سہی لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ایک سیاسی حقیقت بن چکے ہیں۔ عمران خان نظریاتی طور پر سیکولر جماعتوں کی بہ نسبت مذہبی جماعتوں کے زیادہ قریب ہیں۔ تحریک انصاف اور مذہبی جماعتوں کے منشور میں انیس بیس کا ہی فرق ہے۔ وہ بھی نظام خلافت راشدہ کی بات کرتی ہے۔ عمران خان پر سب سے بڑا عتراض یہ ہے کہ وہ مغربی کلچر اور مخلوط معاشرت کو فروغ دے رہے ہیں، بلاشبہ یہ اعتراض سو فیصد درست ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی اور ن لیگ یہ کام نہیں کرتیں؟ ان دونوں جماعتوں نے حکومت کے زور پر ملک کے نظریاتی تشخص کو جس طرح نقصان پہنچایا، ان کے دور میں فحاشی اور بے حیائی کو جو فروغ حاصل ہوا، کیا وہ ہمیں یاد نہیں؟ پچھلے دنوں شہبازشریف کی حکومت نے کئی دنوں پر مشتمل جو یوتھ فیسٹیول منایا تھا، اس میں لڑکے لڑکیاں مل کر اچھل کود کرتے رہے، کیا وہ مغربی کلچر نہیں تھا؟ پھر ان دونوں جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیوں کی جارہی ہے؟ بات یہ ہے سیٹ اےڈجسٹمنٹ کا مطلب کسی شخص یا جماعت کو کلین چٹ دینا نہیں ہوتا، بلکہ کچھ لو، کچھ دو کے سیاسی اصول کے تحت معاملات طے کیے جاتے ہیں، کہنے کامقصد یہ ہے یہی اصول عمران خان پر بھی لاگو کرنا چاہیے۔ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ تحریک انصاف ن لیگ کے ووٹ خراب کرے گی۔ یہ تو ہوگا مگر تحریک انصاف مذہبی ووٹوں پر بھی ہاتھ صاف کرے گی، خاص طو رپر خیبرپختونخوا کا نوجوان مذہبی ووٹ عمران خان کا ہدف ہے، خیبرپختونخوا شروع سے مذہبی جماعتوں کا گڑھ رہا ہے لیکن عمران خان کی انٹری کے بعد مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوان اس نئی آواز کی طرف بھی متوجہ ہورہے ہےں، جماعت اسلامی کی تحریک انصاف سے انتخابی مفاہمت اسی نئی صورت حال کی طرف اشارہ ہے، کیا دیگر دینی جماعتوں کو بھی اس کا ادراک ہے؟
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102499 views i am a working journalist ,.. View More