کارکردگی

کسی بھی حکومت کا بنیادی مقصد عوام کی فلا ح و بہبو د کا خیال رکھنا ،امن و امان کو یقینی بنا نا اور عدل و انصاف کو قائم کرنا ہو تا ہے ۔اگر ہم مذکورہ فارمولے پر اپنے ہاں جمہوری حکومتوں کو پرکھنے کی کوشش کر یں تو تاسف کے سوا ہمارے حصے میں کچھ نہیں آتا۔یہ سچ ہے کہ آمریت کے ورثے سے خو شخا لی کے ثمرات پیدا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو تا ہے لیکن بڑے قائدین ایسا کر کے دکھاتے ہیں۔دسمبر 1971 کو سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کیا ذولفقار علی بھٹو نے ایک نیا پا کستان تشکیل نہیں دیا تھا؟ ایک منتشر، نڈھال اور شکستہ خور دہ قوم کو اسلام کا قلعہ نہیں بنا دیا تھا؟پی پی پی کا بنیادی فلسفہ روٹی کپڑا اور مکان ہے لیکن اس فلسفے کے ساتھ پی پی پی نے اپنے دورِ حکومت میں انصاف نہیں کیا ۔ مہنگائی نے جس طرح عوام کا جینا محال کر دیا تھا وہ بیان سے باہر ہے۔ بجلی کے بحران نے صنعتی ترقی کو شدید نقصان پہنچایا جس سے بے روزگاری میں اضا فہ ہوا اور جرائم کی شرح بہت اوپر چلی گئی ۔گیس اور لوڈ شیڈنگ نے گھریلو صارفین کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی جس سے پی پی پی کے عوامی خدمت کے فلسفے کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا ۔میں اس فلسفے اور سوچ سے بالکل متفق نہیں ہوں کہ بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ بد ترین کبھی بھی پہترین سے اعلی قرار نہیں پا سکتا۔اسلام کی تو ساری تاریخ ہی بدترین میں چلی جائے گی کیونکہ ان چودہ سو سالوں میں (خلافتِ راشدہ کے سوا) جمہوریت کا کہیں پر بھی کوئی شائبہ نہیں تھابلکہ بادشاہی جلال کی شکل میں آمریت مسلط تھی۔چین کی مثال ہمارے سامنے ہے کیا چین میں جمہوریت ہے ؟ کیا چین میں عوامی نمائندگی کا کوئی طریقہ کار رو بعمل ہے ؟ کیا چین میں انتخابات ہوتے ہیں؟ کیا چین میں قیادت کو عوام منتخب کرتے ہیں؟ اور کیا چین میں مغربی جمہوریت کا دور دورہ ہے ؟ان تمام سوالات کے جوابات نفی میں ہیں کیونکہ چین میں یک جماعتی نظام ہے اور اس جماعت کی مرکزی کونسل ملک کے سارے فیصلے کرتی ہے۔ کیا یہ حیرانگی کی بات نہیں کہ چین میں جمہوری نظام نہیں ہے بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو جمہوری قدروں کی نفی کرتا ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ ترقی کےلئے جمہورہیت کی نہیں بلکہ کسی اور چیز کی ضرورت ہے ۔چند سال پہلے کچھ من چلے طلباءنے چین میں جمہوری قدروں کے احیاءکےلئے ایک جلوس نکالا تھا لیکن چینی حکومت نے ان سب کا جو حشر کیا تھا وہ سب کے علم میں ہے جسے یہا ں پر دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔سوال جمہوریت یا آمریت کا نہیں ہے سوال اس نظام کا ہے جسے کوئی بھی ملک اختیار کرتا ہے ۔اگر نظام میں جواب دہی ،ایمانداری اور انصاف کا عنصر غالب ہو گا تو اس قوم کو ترقی سے کوئی روک نہیں سکے گا لیکن اگر یہ سارے عوامل کسی قوم کے نظامِ زندگی سے غائب ہوں گئے تو وہ قوم کبھی ترقی نہیںکر سکے گی۔ خلیجی ریاستوں میں جمہوری کلچر کا کہیں نام و نشان نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ علاقے دنیا میں بہترین نظامِ حکومت کی علامت بنے ہوئے ہیں اور ر شاہراہِ حیات پر اپنی خیرہ کن ترقی کی بدولت سب کو دعوتِ فکر دے رہے ہیں۔جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور امن و امان کا معیار مثالی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک مخصوص ٹولے نے اپنی حکمرانی قائم کر رکھی ہے جسے وہ جمہوریت کا نام دے دیتا ہے ہر انتخاب میں یہی ٹو لہ جماعتیں بدل بدل کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتا ہے اور پھر عوام کا جینا ھرام کر دیتا ہے۔اس ٹولے کو نظام سے زیادہ اپنے مفادات ز یا دہ عزیز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت کے ثمرات سے قوم محروم رہ جاتی ہے لہذا جب تک یہ ٹولہ بر سرِ اقتدار رہے گا پاکستان میں کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ٹولہ کسی کے سا منے جواب دہی کا تصور نہیں رکھتا۔

امن و امان کی صورتِ حال انتہائی مخدوش ہے جس کی وجہ سے کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ہیں ۔ہر سو لاشیں بکھری ہوئی ہیں اور سارا ملک لہو میں ڈوبا ہوا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور خود کش حملوں نے پورے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔حکومت کا کام لوگوں کو امن کی ضمانت دینا ہوتی ہے لیکن یہ ضمانت کہیں پر نظر نہیں آرہی ۔ریاست بڑی طاقت ور ہوتی ہے اور کوئی گروہ چاہے جتنا مضبوط ہو ریاست کی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن ایسے محسوس ہو تا ہے کہ ریاست کی رٹ دن بدن کمزور ہو تی جا رہی ہے او ر دھشت گرد عناصر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو تے جا رہے ہیں کیونکہ قانون اپنی پوری قوت سے حرکت میں نہیں آرہا۔بلوچستان،سندھ اور خیبر پختونخواہ اس معاملے میںبہت دور نکل گئے ہیں۔بلوچستان اور کراچی میں ہزارہ آبادی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیاا نسانیت اس پر ماتم کناں ہے۔پنجاب میں کسی تک حالات بہتر نظر آتے تھے لیکن وہاں پر بھی پولیس اور تھانے کے کلچر نے لوگوں کا جینا اجیرن بنا رکھا ہے۔ پنجاب کے اہم ترین شہر لاہور میں با دامی باغ کے علاقے میں مسیحی برادری کے ساتھ جس طرح کا سلوک رو ارکھا گیا اس نے اسلام کے اجلے دامن کو داغدار کر کے رکھ دیا ہے۔اسلام جو کہ امن ،محبت،رواداری اور برداشت کا مذ ہب ہے اسے درندگی اور سفاکیت کا مذہب بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ بادامی باغ لاہور میں مذہب کے نام پر پوری بستی کو جلا دینا ایک ایسا شرمناک فعل ہے جس کو کسی بھی طرح سے حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان میں رہنے والا ہر شہری قابلِ احترام ہے اور اس کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت کو اپنی یہ ذمہ داری ہر حال میں پوری کرنی چائیے تھی لیکن پنجاب حکومت اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں بالکل ناکام ہو گئی ہے۔رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر خون بہانا انسانیت کی تذلیل ہے لیکن ہمارے ہاں یہ تذلیل عام ہے کیونکہ ایسا کرنے والوں کو علم ہے کہ کو ئی ان سے باز پرس نہیں کر سکتا کیونکہ انھیں معاشرے کے ان با اثر افراد کی پشت پناہی حاصل ہے جن کے ہاتھوں میں امورِ سلطنت ہیں اور جو انھیں تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔۔

جمہوری دور میں وعدہ خلافی کا جو نیا کلچر متعارف ہو اہے اس نے اخلاقی قدروں کا جنازہ نکال دیا ہے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ2008 کے نتخابات کے بعد بھوربن میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں ایک مہینے کے اندر اندر ججز کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا تھا جسے بڑ ی معصومیت سے پسِ پشت ڈال دیا گیا تھا اور جب کئی ماہ گزرنے کو بعد بھی اس معاہدے پر عمل در آمد نہ ہو سکا تو عوام نے مارچ 2010 میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا جس کے نتیجے میں موجودہ عدلیہ بحال ہوئی لیکن وہ معاہدہ جس کے مطابق ججز بحال ہونے تھے اس پر عمل در آمد کی نوبت نہ آسکی ۔ ادارہ منہاج القرآن کے چیرمین علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری سیاست بچاﺅ یا ر یا ست بچاﺅ کے نعرے کے ساتھ کینیڈا سے پاکستان لوٹے اور 23 دسمبر کو لاہو ر میں ا یک تاریخی جلسہ عام کے بعد 31 جنوری کو لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تو اس وقت علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری اور پی پی پی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پا یا تھا جس میں آرٹیکل 62 اور 63 پر عمل در آمد کی یقین دہانی کروائی گئی تھی اور امیدواروں کی اہلیت کو جانچنے کےلئے 30 دن کا وقت متعین کیا گیا تھا ۔اس معاہدے میں اس بات کا بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ نگران وزیرِ اعظم کے تقرر پر علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری سے مشاورت کی جائےگی لیکن کہاں گیا وہ معاہدہ اور کہاں گئے وہ معاہدہ کرنے والے۔ جو قومیں اپنے وعدوں سے پھر جاتی ہیں وہ اخلاقی بنیادوں سے محروم ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگ اسے، چالاکی اور ، زیرکی کا نام بھی دے ڈالیں گئے لیکن میرے نزدیک کسی قوم کی اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس قوم میں وعدہ شکنی ایک قدر بن جائے اور ایسا کرنے والا عز ت و احترام کا حق دار ٹھہرے۔میں تو اسے اخلاقی انحطاط سے تعبیر کروں گا کیونکہ ایک قائد پوری قوم کا نمائندہ ہوا ہے اور اس کے کردار کی پوری قوم پیروی کرتی ہے لہذا اگر قائد اپنے وعدے سے پھر جائے یا اپنے وعدے کو در خو رِ اعتنا نہ سمجھے تو سمجھ لو اس قوم میں زندہ رہنے کی بنیاد کمزور ہو گئی ہے۔

پی پی پی نے 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں اپنی حکومت قائم کی اور اپنے اتھادیوں کے ساتھ پورے پانچ سالوں تک حکمرانی کے مزے لوٹے۔ان انتخابات کے انعقاد سے قبل 27 دسمبر 2007 کو پاکستان کا سب سے بڑا المیہ محترمہ بے نظیر کی شہادت تھی لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ پی پی پی کی اپنی حکومت اپنی قائد کے قاتلوں کا سراغ نہ لگا سکی اور انھیں عدالتی کٹہرے میں کھڑا نہ کر سکی ۔حکومت کی کارکردگی پر سب سے بڑا سو الیہ نشان یہ ہے کہ اسے محترمہ بے نظیر بھٹو کے لہو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ ا سے اپنے اقتدار کے قیام اور دوام سے زیادہ دلچسپی تھی حا لانکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے لہو کا حسا ب لینا ہر پاکستانی کی دلی خواہش تھی۔ کسی نے جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ لگا یا اور کسی نے مفاہمتی سیاست کے بحرِ بے کراں میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے لہو کو بے دردی دے بہا دیا۔پی پی پی کے جیالوں کےلئے اس سے بڑا صدمہ اور کوئی نہیں ہے کہ ان کی قائد کے لہو کو فرا موش کر دیا گیا اور یہ سب کچھ اس حکومت کے دور میں ہوا ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے لہو پر قائم ہو ئی تھی۔ ظالموں کو قانون و انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا انتقام نہیں ہوا کرتا بلکہ انصاف ہوا کرتا ہے اور اسی پر انسانی معاشرے قائم ہو تے ہیں۔جہاں پر انصاف سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے وہاں پر پورے کا پورا معاشرہ جنگل کا نقشہ پیش کرتا ہے ۔بد امنی ،فساد اور قتل و غارت گری اس معاشرے کی پہچان بن جاتی ہے کیونکہ وہاں پر قانون کی حکمرانی مفقود ہو گئی ہوتی ہے۔ہر کوئی بندوق کے زور پر اپنا نکتہ نظر منواتا ہے کیونکہ یہی سکہ رائج ا لوقت ہو تا ہے اور بندوق کی طاقت ہی حتمی فیصلہ کرتی ہے۔ پاکستان آج لہو لہو ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ قاتل قانون کے شکنجے سے بچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور کوئی ان سے باز پرس نہیں کر رہا۔اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے لہو سے آنکھیں بند کی جا سکتی ہیں تو پھر انصاف کی قوت کے رو بعمل ہونے کے با رے میں بڑی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل قانون سے بالا تر ہیں تو پھر دوسروں کے لہو کی کیا اہمیت ہے؟
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.