آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب
سے بڑے صوبے پنجاب کا نگران وزیر اعلی سینئر صحافی نجم سیٹھی کو بنایا گیا
ہے۔پیپلز پارٹی کی طرف سے تجویز کردہ نجم سیٹھی کے نام پر مسلم لیگ(ن)کے
اتفاق پر انہیں نگران وزیر اعلی بنایا گیا۔وزیر اعلی بننے سے ایک دن پہلے
ہی ”جیو ٹی وی“ پر اپنے پروگرام میں ساتھی کمپیئر کی طرف سے وزیر اعلی بننے
کے سوال پر نجم سیٹھی کے خلاف معمول نہایت سنجیدہ انداز اپناتے ہوئے دعائیہ
انداز میں جواب دینے سے ہی میں سمجھ گیا کہ پنجاب کا وزیر اعلی بننے کے لئے
وہ ” بوجہ” پر اعتماد ہیںاور جواب دیتے ہوئے سیٹھی صاحب کی زیر لب مسکراہٹ
بھی غائب تھی۔گزشتہ چند ہفتوں بلکہ ماہ سے نجم سیٹھی صاحب کا ملکی سیاسی
جماعتوں کے بارے میں متوازن انداز واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔نجم سیٹھی
صاحب اپنے ٹی وی پروگرام میں مستقبل سے متعلق سیاسی پیش گوئیاں نہایت پر
اعتماد انداز میں کرتے رہے اور وہ اس متعلق مزاق میں کہتے تھے کہ ان کو ایک
چڑیا یہ اطلاعات دیتی ہے۔سیٹھی صاحب کے امریکہ سے قربت کے اشارے اس بات کی
نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ ان کے مصدقہ اور مستقبل قریب میں پوری ہو جانے
والی اطلاعات کا مآخذ کیا ہے ۔
نجم سیٹھی کے وزیر اعلی کا اعلان ہونے کے اگلے ہی روزدو کالم نگاروں حسن
نثار اور جاوید چودھری نے اپنے کالموں میں نجم سیٹھی کی مخالفت میں شدید
الفاظ استعمال کئے۔حسن نثار نے اپنے کالم میں نجم سیٹھی کی بھرپور مخالفت
کو تحریک انصاف کی حمایت کرتے ہوئے واضح جواز فراہم کر دیا۔تاہم حسن نثار
نے اپنے معمول سے بھی بڑھ کر ایسے سخت الفاظ استعمال کئے جو ان کے اندر
مچلنے والے طوفان کا پتہ دیتے ہیں۔جاوید چودھری نے بھی اپنے کالم میں نجم
سیٹھی صاحب کے خلاف دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے ایسے مخالفانہ جواز پیش کئے
جنہیں کم سطح کی عوامی زبان ہی کہا جا سکتا ہے۔نجم سیٹھی کی مخالفت میں
لکھے اس کالم کو پڑہتے ہوئے ایک آدھ بار یہ شک بھی گزرتا ہے کہ کیا یہ
جاوید چودھری کا ہی لکھا کالم ہے؟پھر خیال آیا کہ شاید نجم سیٹھی کے وزیر
اعلی بننے کی ”جلن“ میںفوری ردعمل میں یہ کالم تحریر کرتے ہوئے جاوید
چودھری معمول کی طرح اپنے کالم کو ایک لبادہ پہنانا شایدبھول گئے ۔
پاکستان کی ایک اور سینئر خاتون صحافی ماریانہ بابر نے ایک نجی ٹی وی چینل
پہ کہاکہ حکومتی عہدہ قبول کرنا صحافتی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور
ایسا کرنا نجم سیٹھی کو زیب نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ حکومتی معاملات میں
عملی طور پر شریک ہونے سے صحافتی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور سینئر جرنلسٹ کو
قطعی ایسا نہیں کرنا چاہئے۔سینئر صحافی و تجزیہ نگار عارف نظامی نے کہا کہ
وزیر اعلی کا عہدہ ایسے ہی نہیں مل گیا اس کے لئے جیو نیوز کے پروگرام’ آپس
کی بات ‘ میں لابنگ بھی کی۔نجم سیٹھی نے ان باتوں کے جواب میں کہا کہ یہ
کوئی سیاسی عہدہ نہیں اور نہ میں کسی سیاسی جماعت کے لئے کام کر رہا
ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہم صحافی لوگ باہربیٹھ کر حکومت پر تنقید کرتے ہیں اگر
سسٹم کو بہتر بنانے کا موقع ملا ہے تو اسے استعمال کرنا چاہئے۔نجم سیٹھی نے
اپنے ہم پیشہ افراد سے درخواست کی کہ انہیں بتا یا جائے کہ وہ بطور نگران
وزیر اعلی سسٹم کی بہتری کے لئے کیا اقدامات کر سکتے ہیں۔ماریانہ بابر نے
کہا کہ اگر صحافی کو یہ کام کرنا چاہئے تو تمام صحافیوں کو حکومتی عہدے دلا
دیں۔نجم سیٹھی کے ایک اور مخالف سینئر صحافی طلعت حسین نے ٹوئٹر پہ ایک
جملے میں اس پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے
چیف جان برینن بھی آئندہ ن لیگ کی طرف سے گورنر پنجاب ہوں گے۔
میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ اس طرح کا کوئی عہدہ قبول کرنا صحافتی
اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔یہ درست ہے کہ پاکستان میں کئی صحافتی تنظیموں کی
جانب سے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کوئی صحافی سرکاری ملازمت نہیں کر سکتا
اور نہ ہی کوئی حکومتی عہدہ قبول کر سکتا ہے اور ایسا کرنے کی صورت وہ
صحافی شمار نہیں ہو گا۔صحافی کا شمار بھی ’ٹیکنو کریٹ‘ میں ہو تا ہے اور وہ
اپنی ساکھ یا خدمات کی بنیاد پر ہی نگران وزیر اعلی کے طور پر نامزد ہو
سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں غیر آئینی و غیر قانونی ملٹری ڈکٹیٹر
شپ کی وجہ سے حکومتوں کے منفی چلن سے حکومت اورسرکاری ادارے بدنام ہوئے ہیں
لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کوئی تنظیم ایسے اصول وضع کرے کہ جس میں
حکومت یا کوئی سیاسی عبوری عہدہ قبول کرنے کو کسی ناجائز کاروبار کی طرح
ممنوع قرار دے دیا جائے۔اس حوالے سے یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا
صرف نجی ملازمت اختیار کرنے والا ہی صحافی قرار پا سکتا ہے؟
اگر امریکی قربت ہی بڑا وجہ اعتراض ہے تو معترض یہ بتائیں کہ کیا پاکستان
میں اہم عہدوں پر امریکی مرضی کے بغیر کوئی تعنیات ہو سکتا ہے؟اب اگر اسی”
چینل“ سے ایک صحافی ایک عبوری عہدہ حاصل کر لیتا ہے تو ہم پیشہ افراد کو
پیشہ وارانہ رقابت،بغض و عناد کو ذرا متواز ن رکھنا چاہئے۔ایک صحافی کا کیا
قصور کہ اس پہ حکومت و سرکارکے دروازے بند رکھے جائیں۔جب تک وہ حکومت یا
سرکار میں ہو گا توفطری طور پہ اس کا صحافت سے کوئی تعلق نہ ہو گا لیکن اس
نے ہمیشہ ہی تو حکومت یا سرکار میں نہیں رہنا۔صحافی بھائیوں کو اس طرح کے
امور میںکھلے دل اور کھلے دماغ سے کام لینا چاہئے۔
پاکستان کی کل تقریبا ساڑھے آٹھ کروڑ میں سے تقریبا چار کروڑ نوے لاکھ ووٹ
رکھنے والے صوبہ پنجاب کی وزارت اعلی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ملک و قوم کے
حق میں مخلص وزیر اعلی الیکشن تک کے عبوری عرصہ میں اس طرح کے عوامی
پسندیدہ کردار کا مظاہرہ کر سکتا ہے جو آئندہ حکومت کے لئے پابندی کی ایک
حد بن جائے۔عبوری حکومتی عہدیدار کا مقصد یہ عرصہ آئندہ حکومت کے قیام تک
کا عرصہ ’خوابیدہ ‘ انداز میں گزارنا نہیں بلکہ وہ ملک و قوم کے حسب ضرورت
و حسب تقاضہ بہتری کا راستہ اختیار کر سکتا ہے اور اسی صورت وہ سیاسی
جماعتوں کے مفادات کے بجائے اپنی ’نیوٹرل‘ حیثیت ایسے فوری اقدامات اٹھا
سکتا ہے جو الیکشن کے بعد قائم ہونے والی حکومت کے لئے ایک ناگزیر ” رول
ماڈل“ بن سکے۔وزیر اعلی پنجاب کے طور پرنجم سیٹھی صاحب اگر پولیس کے
گھناﺅنے کردار کو راہ راست لانے کے اقدامات کی بنیاد ڈال سکیں تو یہ پنجاب
کے عوام پہ بڑا احسان ہو گا۔پنجاب میں باالخصوص پولیس کا سیاسی ،حکومتی آلہ
کار کے طور پہ استعمال ہونا معمول ہے ۔گزشتہ پانچ سال کی پریکٹس تو یہی رہی
ہے کہ کوئی سنگین واردات ہونے پر بھی ایس ایچ او فور ایف آئی آر درج نہیں
کرتا اور اندراج و کاروائی بھی سفارش کے بغیر نہیں ہوتی۔پنجاب میں سیاسی و
انتظامیہ کی پشت پناہی میں لینڈ مافیا عوام کے لئے دشمن ملک کی طرح کا عذاب
بن چکا ہے ۔لینڈ مافیا کی طرف سے سرکاری و نجی زمینوں پر قبضے میں بھی اکثر
اوقات پولیس ہی لینڈ مافیا کی پشت بان نظر آتی ہے۔سرکاری و حکومتی افسران و
عہدیداران کے لئے تو پولیس تیار و متحرک ہے لیکن عوامی مفاد میں کام کرنے
میں پولیس کو مشکلات ہی مشکلات درپیش ہیں اور پولیس کی کرپشن و بدمعاشی
شوگر کے مرض کی طرح کی ایسی بیماری بن چکی ہے جو عوام کو نت نئے انداز میں
ذلیل و خوار کر رہی ہے۔
وزیر اعلی پنجاب نجم سیٹھی صاحب کو اپنے پیشے کے حوالے سے پریس سے متعلق
صورتحال بہتر بنانے خصوصا علاقائی اخبارات کی ترقی پر بھی توجہ دینی
چاہئے۔پاکستان کے سب سے طاقتور صوبے کے وزیر اعلی کے طور پر نجم سیٹھی صاحب
پہ آزاد کشمیر اور کشمیر کاز کے حوالے سے بھی کئی ذمہ داریاں عائید ہوتی
ہیں۔ہم توقع کرتے ہیں کہ وزیر اعلی نجم سیٹھی اپنی ترجیحات میں کشمیر کاز
کو نمایاں مقام دیں گے اور امریکہ کے ساتھ اپنی قربت کو حقیقتا ملک و عوام
کے بہترین مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ایک صحافی کے طور پر ہم
وزیر اعلی پنجاب مقرر ہونے پر نجم سیٹھی صاحب کو مبارکباد دیتے ہیں ۔ انہیں
زیادہ ضرورت اپنی ترجیحات متعین کرنے کی ہے۔نیک خواہشات کے اظہار کے باوجود
ہم وزیر اعلی نجم سیٹھی صاحب کی کارکردگی کی گارنٹی نہیں دے سکتے کیونکہ اس
کے ذمہ دار وہ خود ہیںاور یہ امتحان انہیں ہی درپیش ہے۔دوسرا ہمیں یہ بھی
معلوم نہیں کہ ہمارے مستقبل کے حوالے سے ہمارے ”کرتا دھرتا“ کیا منصوبے
سجائے بیٹھے ہیں۔ |