ہیجانی کیفیت کا کافی حد تک ذہول
ہو چکا۔’’ماریں گے مر جائیں گے‘‘ کے نعرے سرد پڑچکے۔فوری نوعیت کے جذباتی
بیانات بھی تمام ہوئے۔غلط فہمیوں کا غبار چھٹنے کے بعد لگتا ہے ڈاکٹر
طاہرالقادری نے حالات کے تیور بھانپ لیے ہیں۔وہ پاکستان کی روایتی
سیاست(دوسرے لفظوں میں’’ دستیاب سیاست‘‘) سے تصادم کا ارادہ ملتوی کر چکے
ہیں۔ڈی چوک اسلام آباد میں اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ طویل دورانیے کے دہرنے
کے بعد اپنے ملک کینیڈا روانگی اور پھر وہاں سے واپسی کے زمانی وقفے نے
انھیں کافی حد تک ٹھنڈا کر دیا ہے۔مختلف نجی ابلاغی اداروں کو دیے گئے اُن
کے تازہ انٹرویوزسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب ڈو اور ڈائی کے فلسفے کی بجائے
موجودہ بودے اور بد بو دار نظام کے خلاف مستقل بنیادوں پر ایک طویل المدت
جد وجہد کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اب ان کی گفتگو میں ڈی چوک کے قصیر الوقتی الٹی میٹمزکی بجائے پختگی اور
دانش مندی کے اشارے ملتے ہیں۔افراد کی تعداد کے بارے میں ابلاغی اداروں ،(سابق)
حکومت اور ڈاکٹر قادری کے دعوؤں سے قطعِ نظر یہ ایک تاریخی دہرنا تھا۔حکومت
نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک معائدے کے ذریعے یہ دہرنا ختم کروا
دیا۔اس میں حکومت کی چالاکی سے زیادہ ڈاکٹر قادری کی اکتاہٹ کار فرما
تھی۔معائدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سب جانتے ہیں کہ پی پی پی کی قیادت
کے نزدیک معائدے کوئیــــــ’’قرآن و حدیثـ‘‘ تو ہیں نہیں کہ ان پر عمل کیا
جائے۔اس لئے کینٹینر میٹنگ کے بعد سامنے آنے والی متفقہ چیز کو نازک لمحے
میں دیا گیا ایک لالی پاپ کہا اور سمجھا جائے تو بجا ہو گا۔یہ الگ بات ہے
سابق حکومت اور اس کے حواری اسے اپنی ـــ جمہوریت کی فتح قرار دیتے رہے۔جی
وہ یقیناًفتح تھی اس بدترین جمہوریت کی جسے پی پی پی کی قیادت نے قاتلانِ
بے نظیر(چاہیں تو ترکیبِ توصیفی ملحوظ رکھ کر پڑھیۓ)کی گرفتاری سے متعلق
پوچھے گئے سوال کے جواب میں ’’بہترین انتقام کہا تھا‘‘۔
ڈاکٹر قادری پاکستانی سیاست کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔ایک سے زائد بار الیکشن
میں قسمت آزمائی بھی کر چکے ہیں۔مشرف کے عہدمیں ایوان کا حصہ رہ چکے ہیں۔اس
تجربہ کاری اور یہاں کے حقائق سے آگاہی کے باوجود ڈاکٹر قادری کا اچانک
کینیڈا سے سے یہاں وُرود (بلکہ نزول کہیے)اور سب کچھ یک دم تلپٹ کر دینے کا
ارادہ پاکستانی سیاست بالخصوص مقتدر جماعتوں کے لیے ایک بھونچال سے کم نہ
تھا۔پھر حکومت کے پاس ایک تسلیم شدہ دلیل یہ تھی کہ پاکستان میں پہلی
بارمنتخب حکومت اپنا عرصۂ اقتدار پورا کرنے جا رہی ہے لہٰذا ان حالات میں
ڈاکٹر قادری کی گرج چمک کے ساتھ آمد ہماری لونڈی ’’جمہوریت‘‘ کے خلاف ایک
گہری سازش ہے۔دوسری جانب یہ حقیقت اپنی جگہ طے ہے کہ ڈاکٹر قادری سے اب کی
بار پاکستان کی عدلیہ اور عسکری قیادت کے بارے میں اندازہ لگانے میں غلطی
ہوئی ۔یہی وجہ ہے کی ڈی چوک میں گاڑے گئے آہنی خیمے سے ان اداروں سے مدد کے
لیے بلند ہونے والی ’’انقلابی پکار‘‘ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔
مینارِ پاکستان کے جلسے اور ڈی چوک کے دھرنے کی افادیت کیا تھی ؟یہ ڈاکٹر
قادری ہی جانتے ہوں گے تاہم اس شور شرابے اور ہنگامے سے ڈاکٹر قادری کی
شخصیت کے بعض اُن پہلوؤں کو پھر سے بے نقاب کرنے کے عمل کو جواز ملا جنہیں
عام لوگ بھلا چکے تھے۔ماضی میں ان کی شخصیت میں موجود تضادات کے مظاہر اور
فائرنگ کے ایک واقعے(جو بعد میں بے بنیاد ثابت ہوا)کے بعد لاہور ہائی کورٹ
کی ڈاکٹر قادری بارے مشہورِ زمانہ رائے اخبارات کے رنگین صفحات کی ایک بار
پھرزینت بنی۔اس کے علاوہ ڈاکٹر قادری کے ملہمانہ قسم کے خواب بھی زیرِبحث
آئے۔پھر کچھ اس قسم کی ویڈیوز اور کلپس بھی ٹی وی کے پردے پر چلے جن سے
ملنے والا پیغام اور تأثر اُن کے مرتبۂ مشیخیت کے سراسر منافی تھا۔اس طرح
لوگوں کو وہی ’’پُرانے‘‘ ڈاکٹر قادری ایک بار پھر یاد آگئے۔
کچھ زیادہ دُور کی بات نہیں کہ ڈاکٹر قادری عملی سیاست سے اعلانیہ کنارہ
کشی کے بعد کینیڈا مقیم ہوگئے تھے۔وہ اب امّتِ مسلمہ کی راہ نمائی کے لیے
پُر عزم تھے۔اپنے نئے دیس میں قیام کے دوران قرآن،حدیث،فقہ اور عہدِ موجود
کے مسائل سے متعلق بے شمار تحقیقی کتب ان کے زیرِ نگرانی شائع ہوئیں۔نائن
الیون کے بعد عالمی سیاست میں اچانک تبدیلی ا ور اس کے فوری اثرات کے بعد
لکھی گئی ان کی بعض کتابوں(خود کش حملوں وغیرہ سے متعلق) کومغربی دنیا
بالخصوص امریکہ میں بے حد پذیرائی ملی۔کینیڈا میں قیام کے دوران ان کے علمی
کام کی بدولت ڈاکٹر قادری کے پُرانے وطن پاکستان میں ان کی شخصیت کے بارے
میں احترام کے جذبات کو کافی فروغ ملا۔پہلے پہل انھیں’’شیخ الاسلام‘‘صرف ان
کے مریدین اور عقیدت مند کہا کرتے تھے۔لیکن کچھ عرصے سے دانش ور قسم کے لوگ
بھی اپنی نگارشات میں ان کا تذکرہ ــ’’شیخ الاسلام‘‘ کے سابقے کے ساتھ کرنے
لگے تھے۔ان کی تحریک منہاج القران کو بھی متعدد حلقوں کی جانب سے سراہے
جانے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔لیکن نہ جانے ڈاکٹر قادری کواچانک کیا خواب نظر
آیا کہ سب ’’کئے کرائے‘‘ پر خاک ڈالنے پاکستان آدھمکے۔اب حالات یہ ہیں کہ
وہی ’’شیخ الاسلام‘‘ لکھنے والے دانش ور اسی’’ مقدّس ترکیب ‘‘کو ان کی
’’چھیڑ‘‘ــ کے طور پراستعمال کر رہے ہیں۔مختصر یوں کے ایک عام آدمی کے ذہن
پر ڈاکٹر قادری کی حالیہ آمد سے اچھے اثرات نہیں پڑے۔
ڈاکٹر قادری اب ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔وجہ صاف ہے کہ ان کی توقع کے خلاف ریاست
کے کسی بھی ستون نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔عسکری قیادت کی جانب سے ’’نو
کمنٹســ‘‘ نما ردِّ عمل کے ساتھ ساتھ ابلاغی اداروں نے بھی پُرانے گڑے مردے
اکھاڑنا شروع کر دیے۔اپنا ماننا یہ ہے کہ ڈاکٹر قادری کو اپنا سافٹ امیج
دوبارہ بحال کرنے کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی۔
بات اگر ڈاکٹر قادری کے مطالبات کی ہوتو ان میں سے بیش تر نہ صرف یہ کہ
درست ہیں بلکہ ان کا پورا کیا جانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ایک مکمل آزاد اور
غیر جانب دار الیکشن کمیشن کا قیام،انتخابی امید واروں کی آئین کے مطابق
سکروٹنی،اور بوسیدہ انتخابی نظام جس سے صرف چندمخصوص لوگ مستفید ہو سکتے
ہیں میں اصلاحات۔یہ وہ مطالبات ہیں جن کو کوئی بھی شریف اور معقول آدمی غلط
نہیں کہے گا۔یہ الگ بات ہے کہ ا ن مطالبات سے حکم ران اتحاد اور حزبِ
اختلاف کی بڑی جماعتوں کے مفادات کو براہِ راست نقصان پہنچنے کا اندیشہ
تھا۔ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حزبِ اقتدار و اختلاف دونوں اپنے چمچوں کانٹوں
سمیت ڈاکٹر قادری کے خلاف یک آواز تھے۔ڈاکٹر قادری کے مطالبات کے درست ہونے
پر اس سے بڑی کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ان کے خلاف اس کرپٹ سسٹم کے تمام
محافظ اور مستفیدین اکٹھے ہو گئے۔حالاں کہ حالت یہ ہے کہ ان پارٹیوں کو ملک
بھر میں نگراں وزیرِ اعظم کے لیے کوئی ایسا ’’شریف‘‘آدمی نہیں مل رہا تھا
جس پر ان کا اتفاق ہو سکے۔
ڈاکٹر قادری کو یہ مشورہ دیا گیا کہ آپ ہنگامہ کھڑا کرنے کی بجائے انتخابات
میں شامل ہو کر اقتدار میں آ ئیں اور ملک میں اصلاحات کریں۔مشورہ بجا مگر
ڈاکٹر قادری کی جوابی دلیل بھی دیکھیے۔جب موجودہ نطام اور سسٹم ہی کرپٹ
ہے۔اس سے چند مال دار خاندان ہی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔کیچڑ کے جوہڑ میں اُتر
کر اس کی اصلاح کیونکر ہو سکتی ہے۔جب آدمی کسی سسٹم کا حصہ بن جاتا ہے تو
وہ نظام اپنی بہت سی خرابیوں کے ساتھ اس کی مجبوری بن جاتا ہے۔لہٰذا ڈاکٹر
قادری نے اس نظام سے باہر رہ کر اس کے خلاف جد وجہد کا عزم کیا ہے۔اب تک کی
معلومات کے مطابق وہ الیکشن کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
جہاں تک ڈاکٹر قادری کے ناقدین کا تعلق ہے۔ان کی درجہ بندی بھی کی جانی
چاہیے۔ان پر تنقید کرنے والوں میں ملک و ملّت کے مخلصین بھی ہیں اور اسلام
کے لفظ اور دینی تعلیمات کی ترویج وتنفیذ سے خائف معاندین بھی۔یہ وہ طبقہ
ہے جو اسلامی نظام کو صرف سنگسار کرنے،کوڑے مارنے اورہاتھ کاٹنے کے عنوانات
سے جانتا ہے۔ان کی معلومات اسلام کے بارے میں انہی دو چار باتوں تک محدود
ہیں۔ان کی مخالفت کی وجہ ڈاکٹر قادری کی شخصیت نہیں بلکہ ان کی جگہ کوئی
بھی ڈاڑھی،ٹوپی،کُرتے والا ’’فرسودہ خیال‘‘ ہوتا جب بھی یہ اس کی مخالفت
اِسی نداز میں کرتے۔اس بیمار فکر ،احساسِ کم تری کے شکار جتھے کی تعداد بھی
کافی ہے۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جن کے مفادات ’’د ست یاب مقدّس جمہوریت‘‘
کے ساتھ براہ ِ راست یا بالواسطہ وابستہ ہیں۔مسلکی اختلاف رکھنے والے بھی
کم نہیں۔خیر ڈاکٹر قادری کے مخالفین کا تجزیہ کسی اگلے کالم پر اُٹھا رکھتے
ہیں۔
سرِ دست ہمارا مفت مشورہ یہ ہے کہ ڈاکٹر قادری کو چاہیے وہ اپنی علمی تحریک
کے ذریعے کچھ ایسا کریں جس کے ذریعے پاکستان کے عام آدمی کو اپنے ووٹ کی
حقیقی حیثیت کا اندازہ ہو۔وہ علاقائیت،برادری ازم کے خول سے باہر آنے پر
تیار ہو سکے۔وہ ووٹ کو صرف مبلغ پانچ صد روپے کی پرچی سمجھنے کی بجائے
تبدیلی کا نشان سمجھے۔اگر عام آدمی اپنی حقیقی قوت جان گیا تو سمجھ لیجئے
کہ ایک تہائی کام ہو گیا۔آپ کچھ ایسا کریں جس سے عام آدمی کو بھی وہ
خرابیاں نظر آسکیں جو آپ موجودہ سسٹم میں دیکھتے ہیں ۔اس کے لیے کسی ڈی چوک
میں دھرنے کی ضرورت ہے نہ ہی کوئی پانچ دس منٹ کا الٹی میٹم دینے کی
حاجت۔آپ صرف اتنا کیجئے۔اپنی پر امن جد وجہد کے ذریعے یہاں کے عام شہری کو
اپنے ہم دَردوں اور خون چوسنے والوں میں فرق سمجھا دیجیے۔انھیں ان کے حقوق
جو ریاست انھیں دینے کی پابند ہے ،سے آگاہ کیجیے۔یہ آپ کا اس قوم پر احسان
ہوگا۔ |