سِسکتی زندگی

وطنِ عزیز میں مہنگائی، گرانی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں روز افزوں اضافے نے عام آدمی کا جینا نہ صرف مشکل کر دیا ہے بلکہ ان کی زندگی بھی اجیرن کر دی ہے۔ لوگوں کی ہر سطح پر قوتِ خرید مسلسل کم ہو رہی ہے۔ ضروری اشیاءخورد و نوش اور اہم ضروریات کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں تیل کمپنیوں نے پیٹرول کی قیمت ایک سو تین روپئے اور کچھ پیسے تک پہنچا دیا ہے ۔ پیٹرول مہنگا کرنے سے دیگر ضروریاتِ زندگی کے اشیاءکی قیمتیں بدستور بدستور بڑھ رہی ہیں۔ اگر گیس کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اور بجلی کی کمپنیاں چلانے والوں کا تو کیا ہی کہنا ابھی گرمیوں کا موسم ٹھیک طرح سے نمودار بھی نہیں ہوا ہے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کراچی میں لگ بھگ ساڑھے سات گھنٹے کی ہوگئی ہے ۔مگر اس کے برعکس اگر بلوں پر صَرفِ نظر کیا جائے تو اس کے اعداد چار ہندسوں کو بھی پار چکا ہے۔ بس، ریل گاڑی اور فضائی اُڑن کھٹولے کے کرایے بھی لوگوں کے بس سے باہر ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی زندگی کی دوسری لازمی اشیاءکی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ سیاست دان اس وقت اپنی اپنی دُکان چمکانے میں الجھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف عوام مہنگائی کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ کی زندگی کے شب و روز ایک عذاب کی طرح گزر رہے ہیں۔ روز مرہ کی چیزوں کی ہوش رُبا قیمتوں نے عام آدمی کو وقت سے پہلے ہی مار دیا ہے گویا عام آدمی کی زندگی سے رمق ہی ختم ہوتی چکی ہے۔

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے ملک میں جو مسائل چند سالوں سے سرائیت کر چکی ہے جس میں بد امنی، بھوک و افلاس، مہنگائی ، بیروزگاری ، ان سب کا ذمہ دار کون ہے۔ کہیں آپ بھی وہی تو نہیں سوچ رہے جو میرے دماغ میں چل رہا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں کا کیا دھرا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے ہی اس ملک کے باسیوں کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے حکمران ملک اور عوام سے مخلص نہیں ہیں۔ ویسے بھی اب تک جن جن حکمرانوں نے ہم پر حکمرانی کی ہے ان کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بلکہ جنہیں کچھ بھی نہیں معلوم تھا ان کو بھی ہمارے ملک کے آزاد میڈیا نے ساری آگاہی فراہم کر دی ہے اور فراہم کر رہی ہے ۔ کل تک حکمرانوں کے کم از کم پچاس فیصد وزیر و مشیر تو ایسے رہے ہیں جن کا ماضی بے داغ نہیں رہا ہے۔ وہ ہر روز عدالت میں کسی نہ کسی کیس میں سماعت بھگت رہے ہوتے تھے۔ اب اس میں تمام قصور حکمرانوں کا بھی نہیں ہے کیونکہ یہ حکمرانی کا حق انہیں کس نے دیا تھا ، ظاہر ہے کہ عوام نے ۔ آپ کی دی ہوئی پاور کی وجہ سے انہوں نے ملک کو لوٹ کر کھوکھلا کر دیا ہے۔ اب جو کچھ بچا ہے وہ بھی آپ (عوام) پر منحصر ہے کہ اسے بچائیں۔ اور بچائیں گے کس طرح ظاہر ہے کہ اپنے مقدس ووٹوں کے ذریعے۔ بیلٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کیجئے تاکہ آئندہ آنے والی حکومت آپ کی داد رسی کر سکے۔

غور و فکر کا مقام ہے کہ جس ترقی کی باتیں حکمران کرتے ہیں اس سے عام آدمی کو بھلا کیا فائدہ، عام آدمی کو تو خوراک چاہیئے جس کے بغیر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔ آج ملک کا ہر چوتھا فرد روٹی کے لیے ترس رہا ہے اس کی اصل وجہ بیروزگاری ہی ہے ۔ اِن چند سالوں کے دوران کھانے پینے اور عام استعمال کی چیزوں کی قیمت میں دو سو فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ مہنگائی صرف باورچی خانہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ گھر سے آفس تک پہنچنے کے لئے آمد و رفت کا خرچ سے لے کر مکان کا کرایہ تک بڑھ چکا ہے۔ یعنی زندگی کے ہر قدم پر ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اگر بارورچی خانے کی بجٹ میں تخفیف کریں بھی تو دیگر اخراجات میں کس طرح کنٹرول کیا جائے۔ جبکہ آمدنی جوں کی توں ہے ایسے میں عام آدمی اپنے اخراجات کیسے پورا کرے۔ کسی زمانے میں خرچ و آمدنی کا تخمینہ لگانا آسان ہوتا تھا کیونکہ مہینے کے شروع میں جو قیمتیں ہوتی تھیں کم و بیش وہی مہینے کے آخر تک رہتی تھیں اس لئے کم از کم سال بھر کا بجٹ آسانی سے بن جایا کرتا تھا مگر آج روزآنہ کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ آج جس تیزی سے مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا گیا ہے اس سے روزآنہ کے حساب سے قیمتوں میں اتار چڑھاﺅ نے حکومت اور انفرادی بجٹ کو برباد کر دیا ہے۔ مزدور اور تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کی اس چکی میں بُری طرح پِس چکا ہے نتیجہ کے طور پر خود کشی میں اضافہ، چوری، ڈکیتی کا فروغ کے علاوہ والدین اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی دینے کے لئے فروخت کر رہے ہیں۔اس روٹی کے حصول کے لئے اپنے جسمانی اعضاءکو بھی فروخت کرنے سے کوتاہی نہیں کر رہے۔ یہ کیسی حکومتیں ہیں جسے عوام کے درد کا درماں نہیں آتا۔ موجودہ صورتحال میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی کو روٹی دستیاب ہے تو تَن ڈھانپنے کے لئے مکمل لباس نہیں ملتا، اس لئے آج ضروری ہے کہ حکومت مہنگائی کو لگام دے قیمتوں پر کنٹرول کرے تاکہ عام آدمی دو وقت کی روٹی حاصل کر سکے ورنہ یہ مہنگائی پیاز کی طرح حکمرانوں کو بھی آٹھ آٹھ آنسو رُلا سکتی ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کو قابو میں لانے کے لئے حکومت کو ملک سے فی الفور رشوت ستانی، بدعنوانی، اقربا پروری اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی لانی ہوگی دوسری صورت میں یہی ہو سکتا ہے کہ عوام بالخصوص متوسط طبقہ غیر ضروری اشیاءکی خریداری ترک کردے اور اپنی طلب میں کمی لائے غیر ضروری اشیاءکے استعمال کو صرفِ ضرورت کی حد تک محدود رکھا جائے ۔

ملک میں مختلف قسم کی رپورٹنگ ہوتی رہتی ہے انہی میں سے ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے پانچ سال کے دوران مہنگائی کی شرح میں دو سو بیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ نئے نوٹ چھاپنے کی مشین تو جیسے ان حکمرانوں نے خود ہی لگارکھا تھا یوں نئے نوٹ چھاپنے کی وجہ سے بیروزگاری میں بھی بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کی صورتحال تحریر کی جائے تو کئی صفحات پر محیط ہو جائے گا مگر یہاں پر چند چیدہ چیدہ اور ضروری اشیاءکے ریٹس لکھے دیتا ہوں جو ان پانچ سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچا دیا گیا ہے ۔ آٹا 13روپئے سے بڑھ کر آج 42روپئے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ چاول کی قیمت 45روپئے سے بڑھ کر 100روپئے کلو مل رہا ہے۔ چینی 70اور 75روپئے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ دودھ جو 2008ءمیں 25روپئے لیٹر تھا آج 75روپئے لیٹر تک جا پہنچا ہے۔ڈالر 60روپئے سے بڑھ کر آج لگ بھگ 100روپئے کا ہوچکا ہے ۔ موبائل بیلنس پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے، اسی طرح اور چیزوں کے نرخ بھی کہیں سے کہیں جا پہنچا ہے۔ کس کو رویا جائے اور کس کس چیز کا ماتم کیا جائے ۔ حکومت اپنی مدت گزار کر چلی تو گئی مگر اپنی پالیسیوں کو درست سمت میں چلانے کے لئے تیار نظر نہیں آئی۔ جس کا واضح ثبوت بجلی اور گیس کی بد ترین لوڈ شیڈنگ سے لگایا جا سکتا ہے۔ آج بھی گھریلوں اور صنعتی شعبوں کو بجلی اور گیس کی بد ترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔عوام کی آگاہی کے لئے صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اگر اوپر درج کیا گیا کوئی بھی لفظ غلط تصورہو یا آپ کو یقین نہیں آئے کہ یہ سب کچھ ہو چکا ہے تو آپ بصدِ شوق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سہ ماہی اور جائزہ رپورٹس کابغور مطالعہ کر سکتے ہیں حقیقت خود بخود آپ پر عیاں ہو جائے گا ۔ویسے بھی عوام بہت باشعور ہو چکے ہیں سلیقہ شعاری کا مشورہ تو حکومت کو دے ہی سکتے ہیںاب چاہے کوئی بھی حکومت بنے اسے عوام کی داد رسی کرنی ہی ہوگی، وگرنہ عوام تو کب سے سِسک اور بِلک رہی ہے ۔ دوسری مدت میں عوام زندہ درگور ہو جائے گی اور یوں اس سِسکتی زندگی کو لوگ قبرستانوں کی زینت میں اضافہ کرتے نظر آئیں گے۔

امیدِ قوی ہے کہ نئی آنے والی حکومت فوری طور پر مہنگائی،بے روزگاری اور امن و امان جیسی بنیادی ضرورتوں کو اپنی پہلی ترجیح کے طور پر حل کرے گی۔ اپنے ملک کے نوجوانوں کو بلا تفریق سیاسی پہلوﺅں کے نوکری دینے میں پہل کرے گی۔ خدا آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 340088 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.