انتخابات کی تاریخ قریب ہے ۔
حلقہ بندیوں سے متعلق شکوے شکایتوں اور انتخابات کے انعقاد سے متعلق خدشات
کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کی
تیاریاں زور شور سے کررہی ہیں۔ پانچ سال تک مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت
کرنے والی پیپلز پارٹی الیکشن کے انعقاد کے ابتدائی دنوں میں ہی چیئرمین
بلاول بھٹو زرداری کی ناراضگی کے باعث مشکلات کا شکار نظر آرہی ہے۔تاہم یہ
مشکلات اور پریشانی اس سے بہت کم ہے جو اس حکومت کے پانچ سالہ اقتدارکے
باعث ملک اور قوم نے اٹھائی اور اٹھارہے ہیں۔بہرحال پیپلز پارٹی کے اندر
ونی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پارٹی کے لیڈرز خصوصاََ آصف
زرداری ، ان کے قریبی ساتھیوں اور ان کے رشتے داروں نے قوم کے ساتھ جو سلوک
روا رکھا تقریباََ ایسا ہی رویہ پارٹی کی بعض شخصیات اور پارٹی پالیسی کے
ساتھ رکھا تھا۔ان رہنماﺅں نے آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کی ” چادر“اوڑھنے
کے باوجود بلاول زرداری کے حقیقی رشتے داروں اور پیپلز پارٹی کی پالیسیوں
کو نظر انداز کرتے رہے۔باالکل اسی طرح جیسے بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں
آصف زرداری اور ان کے قریبی دوستوں اور رشتے داروں کو نظرانداز کیا
تھا۔”جمہوریت بہترین انتقام“Democracy is Best Revenge ) ( کے نعرے کے
دوران جس طرح انتقام کاجذبہ ہر کسی کے لیے غالب رہا۔یہ انتقام عوام سے اس
طرح لیا گیا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں اس جماعت کو گلے لگایا گیا
جوسیاسی کم مجرمانہ سرگرمیوں میںزیادہ ملوث رہی۔یہ اس نعرے کا سبب تھا کہ
ایک ایسے شخص کو وفاقی وزیر بنایا گیا جو کرپشن کے کیس میں ملوث ہونے کے
باعث ملک سے فرار ہوا اور پھر برطانیہ کی شہرت حاصل کی۔ دوہری شہریت میں
نااہل اور جھوٹا و بددیانت قرار دیئے جانے کے باوجود آخری وقت تک اہم وزارت
سے چمٹا رہا۔پارٹی کی اپنی حکومت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے اپنے
دیرینہ کارکنوںاور رہنماﺅں کے ساتھ ایسا برتاﺅ کیا گیا کہ کراچی کا لیاری
جو پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا۔ اب گڑھا بن گیا۔جہاں پیپلز پارٹی کو اس سے
منحرف ہونے والے اب دفن کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔لیاری سے پیپلز
پارٹی کے ٹکٹ پر ایک سے زائد مرتبہ منتخب ہونے والے نبیل گبول اپنے پرانے
نظریے کو اسی علاقے میں مدفون کرکے متحدہ کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔متحدہ
قومی موومنٹ کا سہارہ لینا ان کی مجبوری سے زیادہ سیاسی ضرورت تھی۔ان کی
ضرورت سیاست کرنا ہے ۔ اکثر سیاست دان انسانیت کی خدمت کے جذبے سے زیادہ ”
تجارت“ کے طور پر سیاست کرتے ہیں۔نبیل گبول کو اپنے بزنس کا مستقبل لیاری
کے لوگوں کی ناراضگی کے بعد تاریک نظر آرہا تھا اس لیے انہوں نے متحدہ میں
شامل ہونے کوہی عافیت جانی۔
پیپلز پارٹی کا کنٹرول آصف زرداری کے پاس جانے کے بعد سے ہی لوگ اس کے
مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہوگئے تھے۔تاہم خوش قسمتی سے اقتدار ملنے کے
بعد پیپلز پارٹی کے ٹوٹنے کا عمل اس تیزی سے نہیں ہوا جیسی توقعات تھی۔یہ
اور بات ہے کہ بے نظیر کے قتل کے بعد ہی ناہید خان اور ان کے شوہر
صفدرعباسی نے علم بغاوت بلند کردیا تھا۔یہ بغاوت پیپلزپارٹی کے خلاف نہیں
بلکہ آصف زرداری کی جانب سے پارٹی کو ” ہائی جیک“ کے باعث تھی۔ان دونوں کی
کھلم کھلا مخالفت نے آصف زرداری کے خلاف جیالوں کی بھی حوصلہ افزائی کی
تاہم انہوں نے حکومت کے دوران بہتی گنگا سے کچھ حاصل کرلینے کے مفاد کے
باعث خاموش رہنے کو ترجیح دی۔آصف زرداری کی قیادت سے ناراض افراد کو دیگر
بہت سی شکایات کے ساتھ یہ شکایت بھی رہی کہ ان کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو
کے قاتلوں کود گرفتار نہیں کیا گیا۔ کئی لوگ تو اس قتل کے حوالے سے اپنے ہی
لیڈروں کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔
بلاول بھٹو کی ناراضگی کو قدرت کی جانب سے مکافات کہا جاسکتا ہے۔ممکن ہے کہ
اس بارے میں جواطلاعات سامنے آئیں ہیں ان میں کوئی صداقت ہو۔اطلاعات کے
مطابق بلاول کو ان کی سیکیورٹی اور ان کے بحیثیت چیئرمین اختیارات نا ملنے
کے حوالے سے اعتراض تھا ۔وہ اپنے والد سے اس لیے بھی ناراض تھے کہ آصف
زرداری نے ان کی والدہ کے قریبی لوگوں اور ان کے ننیال کے رشتے داروں کو
پورے پانچ سال وہ عزت اور اہمیت نہیں دی جس کے وہ حق دار تھے۔ذرائع کا کہنا
ہے کہ آصف علی زرداری نے بلاول کو منانے کے لیے بلاول کی خالہ صنم کی خدمات
حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔تاہم اس میں آصف زرداری کو کامیابی حاصل ہونا
مشکل ہے۔خیال ہے کہ بلاول نے ناراض ہوکر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کسی کے مشورے
کے بعد ہی کیا ہے ممکن ہے ان کے مشیر ان کے ننیال والے ہوں۔
اگر حقیقت بھی کچھ اس طرح ہو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھٹو کے نام پر چلنے
والی پارٹی آئندہ چند روز میں ایک نئے باب کو رقم کرنے کی طرف گامزن
ہوگی۔انتخابات ہی وہ موڑ ہوتا ہے جس میں پارٹیاں ٹوٹتی ۔ بنتی یا سنبھلتی
ہیں۔
پیپلز پارٹی نے حکومت میں رہتے ہوئے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا اس کے نتیجے
میں ویسے بھی پیپلز پارٹی کا مستقبل خطرے میں ہے ایسی صورت میں آصف علی
زرداری کو ناصرف پارٹی کو بلکہ اپنے خاندان کو بکھرنے سے بچانے کی ذمہ داری
بھی ادا کرنا ہے۔ آصف زرداری کی یہ بد قسمتی ہے کہ ان کا کوئی سگا بھائی
نہیں ہے ان کے خاندان کا تسلسل رکھنے کے لیے صرف اکلوتا بلاول موجود
ہے۔جبکہ دوسری طرف بھٹو کے نام کو زندہ رکھنے والوں کی تعداد اکلوتے بلاول
کے مقابلے میں زیادہ ہے۔وہاں صرف ذوالفیقار جونیئر ہی نہیں بلکہ فاطمہ بھی
موجود ہے جو سیاست کا شوق نہ ہونے کے باوجود سیاست میں آسکتیں ہیں۔یقینا
بھٹو کی پارٹی کو زندہ رکھنے کے لیے بھی زرداری کے حامیوں سے کہیں زیادہ
ہیں۔
سوال یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کا مستقبل کیا ہے ؟ اوراب تازہ صورتحال میں کیا
ہوگا؟پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رکن نے اپنا نام نہ لکھنے کے وعدے پر جواب
دیا کہ لوگ اب بہت سمجھدا ر ہوگئے ہیں ،میڈیا نے لوگوں کی سوچوں کو بدل دیا
ہے انتخابات کے نتائج سے واضع ہوجائے گا کہ پیپلز پارٹی کا مستقبل کیا ہے ۔
ان سے پوچھا گیا ابھی آپ کیا جواب دیں گے اس سوال کا ،تو وہ ہنس پڑے اور
کہنے لگے ابھی تو میں صرف ہنس سکتا ہوں آپ کے سوال پر۔۔۔۔
یہ ہی سوال جب میں نے پیپلز پارٹی کے مرکزی اورسینئر رہنما تاج حیدر سے کیا
تو انہوں نے جواب دیا کہ موجودہ دور میں ہماری ترجیحات یہ تھیں کہ کسی بھی
طرح جمہوریت ڈی ریل نہ ہو ،انہوں نے کہا کہ اگر لوگوں کو ہم سے مایوسی ہوئی
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کو توقعات بھی تھیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ
بلاول بھٹو 2 اپریل کو واپس کراچی آرہے ہیں وہ نوڈیرو میں ہونے والے جلسے
سے خطاب کریں گے اس لیے ان کی ناراضگی کے حوالے سے خبریں درست نہیں ہے ۔
تاج حیدر نے یہ بھی واضع کیا کہ اگر وہ اپنے والد آصف زرداری سے ناراض ہیں
تو یہ ان کے گھر کا معاملہ ہے ۔ میں کسی کے ذاتی معاملات کی خبر نہیں
رکھتا۔تاج حیدر کراچی کی ان شخصیات میں شامل ہیں جن کی ہر کوئی عزت کرتا ہے
۔ تاج حیدر کی بات پر مجھے بحث نہیں کرنی تھی سو میں نہیں کی ۔لیکن پیپلز
پارٹی کے ایک اور دیرینہ لیڈر اقبال مرزا جو ان دنوں لندن مین مقیم ہیں اور
بھٹو کے ساتھیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے اس سوال پر واضع کیا کہ موجودہ
پیپلز پارٹی بھٹو کی پارٹی نہیں ہے ۔ اس سے زیادہ کہنے کے لیے توبہت کچھ ہے
مگر اس کا فائدہ کچھ نہیں ہوگا ۔ |