کون ہے جس نے مے نہیں چکھی
کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے
مے کدے سے جو بچ نکلتا ہے
تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے
جی ہاں جب ڈوبنا ہی مقدر ٹھہرا تو کوئی بھی کسی صورت نہیں بچ سکتا ۔ بس یہی
صورت ہمارے پرانے اور روایتی سیاستدانوں کی ہے۔ دفعہ 62اور دفعہ 63کے حوالے
سے کوئی نیکو کار نظر نہیں آتا۔ سارے کا سارے آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہر شخص
کرپٹ ہے ۔ سیاسی ماحول اور سیاسی صورتحا ہی ایسی رہی ہے کہ جو کرپٹ نہیں۔
جس میں کچھ عیب نہ ہوں وہ سیاسی ماحول میں ٹھیک ایڈجسٹ ہی نہیں ہوتا تھا۔
بلکہ وہ سیاست دان ہی نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن اگر دباﺅ میں نہ آیا۔ اس
کے امکان نے ہمت نہ ہاری تو ایک ایک حلقے سے پانچ پانچ درخواستیں وصول کرنے
والی مسلم لیگ (ن) اور اس قوم کو پانچ سال تک عذاب میں مبتلا رکھنے والی
پاکستان پیپلز پارٹی کو امیدوار پورے کرنے مشکل ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف
کو بھی افسوس ہو گا کہ اس نے پرانے سیاستدانوں کو کیوں اپنی صفوں میں جگہ
دی۔ سیکروٹنی اپریل کے پہلے ہفتے میں ہو گی۔ اور دفعہ 62اور 63کا استعمال
اگر ہو گیا تو سیاسی جماعتوں کو اپنی حیثیت اور امیدواروں کی اہلیت کا
اندازہ ہو جاے گا۔ جو الیکشن کمیشن سے بچ جائیں گے۔ وہ سپریم کورٹ کی گرفت
سے اگر بچ پائیں تو یقینا یہ ایک بڑا کام ہو گا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔
اُمیدواروں کی پوری طرح چھان بین ہو گی۔ جعلی ڈگری والوں کے خلاف دو دن میں
کاروائی کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ماتحت عدلیہ سے ان کے خلاف مقدمات کی تفصیل
بھی طلب کر لی گئی ہے۔ تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرار حضرات سے رپورٹ طلب کر
لی گئی ہے۔ کہ اب تک کاروائی مکمل کیوں نہیں ہوئی کیونکہ اس سے بڑھ کر اہم
عوامی نوعیت کا کوئی اور معاملہ نہیں ہو سکتا جعلی ڈگری والوں نے قوم کے
ساتھ نہ صرف دھوکہ کیا ہے بلکہ ان کے مینڈیٹ کا مذاق اڑایا ہے۔ اسلیے ایسے
لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ میرے یہ الفاظ جب تک آپ تک پہنچیں گے کاروائی
کافی آگے بڑھ چکی ہو گی۔
سپریم کورٹ کے اس حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19کے
تحت تمام معلومات تک رسائی تمام ووٹرز اور شہریوں کا حق ہے۔ کاغذات نامزدگی
ویب سائٹ پر ڈالے جائیں۔ ویب سائٹ کا انداز بہت سادہ ہ تا کہ لوگ الیکشن
کمیشن کو جسے امیدوار کی سکروٹنی کا مکمل احتیار ہے امیدوار کے کردار کے
بارے میں اگر کوئی شکایت ہوتو رجوع کر سکیں۔ گو اس سلسلے میں دفعہ 19کی
معلومات نہ تو عام آدمی کو ہیں اور نہ ہی ماتحت عدلیہ اس دفعہ کو سنجیدگی
سے لیتی ہے۔ سپریم کورٹ کو اس سلسلے میں اس دفعہ پر عملدرآمد کے لیے زیادہ
سختی سے ہدایات دینی ہوں گی تا کہ متعلقہ ریٹرننگ آفیسر عوام سے تعاون کریں
اور بد کردار اور کرپٹ لوگوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے قومی فریضہ ادا کرنے
میں عوام کی مدد کریں۔
تحریک انصاف نے ماردھاڑ سے بھر پورپارٹی الیکشن کروا کر اس ملک میں ایک نئی
اور خوبصورت روایت ڈالی ہے۔ مگر الیکشن میں ہر وہ شخص حصہ لینے میں آزاد
تھا جس کی آمد کو ابھی پارٹی میں جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے۔ پارٹی کے وہ
پرانے کارکن جنہوں نے اپنی عمریں پارٹی میں خرچ کر دیں۔ حیران نظروں سے
صورتحال دیکھ رہے تھے۔ جیتنے والوں میں سوائے پنجاب کی قیادت یا ایک آدھ
ضلع کے پارٹی کے پرانے کارکن کہیں نظر نہیں آئے۔ نئے آنے والے سرمائے اور
داﺅ پیچ دونوں چیزوں سے مسلح تھے اور انہوں نے پرانے کارکنوں کو ہر محاذ پر
پیچھے چھوڑ دیا۔ مجھے کم از کم اس بات پر افسوس ہے کہ عین الیکشن کے موقع
پر ”منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے“ ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی انہیں
لوگوں کا اثر زیادہ ہوگا اور نئے لوگ زیادہ فعال ہوں گے۔ جو کسی حد تک
پرانے کارکنوں کی حق تلفی ہے۔ تبدیلی تو آئے گی مگر لگتا ہے اس کی شدت میں
کچھ کمی آگئی ہے۔
تحریک انصاف کے قائد جناب عمران خان کہتے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں پتہ چل
جائے گا کہ جذبہ جیتے گا یا حرام کی کمائی ہوئی دولت۔ آئندہ الیکشن تو کچھ
دنوں کی بات ہے۔ تحریک انصاف کے پارٹ الیکشن ہی میں صورت حال کچھ خوش کن
نہیں رہی۔ ہر ضلع میں دولت جذبوں پر بھاری رہی ہے۔ میں نے لاہور ہی
میںجذبوں کو دولت کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھا ہے۔ لاہور کے لینڈ مافیا اور
قبضہ مافیا نے جذبوں کو جس طرح پامال کیا وہ خان صاحب کو بھی نظر آیا ہو گا۔
لاہور کے نو منتخب صدر کا تعلق لینڈ مافیہ سے ہے۔ بڑے سرمایہ دار ہیں۔ اور
سرمایے کے بل پر ہر پارٹی میں جگہ بنانے کا فن جانتے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں
قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ پندرہ کروڑ سے زیادہ خرچ کرنے کے باوجود بمشکل
چار یا پانچ ہزار ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ خواص میں جگہ بنانے کے فن سے واقف
ہیں۔ اسلیے جیت گئے عوام میں ووٹ ان کے پاس نہیں ۔ خالصتاََ تحریک انصاف کے
زور پر اپنی دولت کی مدد سے الیکشن لڑیں گے۔ جنرل سیکرٹری کے لیے نیو منتخب
عہدیدار ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ ان کا تعلق رائے ونڈ کے علاقے سے ہے۔
رائے ونڈ یا رائے ونڈ روڈ سے تعلق رکھنے والے پر پرانے قومی اور صوبائی
اسمبلی کے منتخب نمائندے میں اگر ناجائز قبضہ کرنے کی صفت نہ ہو تو اس
علاقے میں منتخب ہی نہیں ہو سکتا۔ رائے ونڈ روڈ اور اس سے ملحقہ علاقے کی
تمام زمینیں اور تمام سکیمیں ان لوگوں سے مستفید ہوتی رہی ہیں اور مستفید
ہو رہی ہیں۔ شاید ایسے لوگوں کو ساتھ رکھنا بھی سیاسی جماعتوں کی مجبوری ہے۔
بر حال یہاں جذبوں کا اندازہ مختلف لگتا ہے ۔ اگر خان صاحب عہدیداروں کی حد
تک یہ پابندی لگا دیتے کہ پارٹی الیکشن وہی لڑ سکتا ہے جسے پارٹ میں آئے
ایک خاص مدت ہو چکی ہو تو شاید پارٹی کارکن اس قدر پریشان نہ ہوتے جتنے ہر
ضلع میں می نے دیکھے ہیں۔ باقی علاقے تو چھوڑیں ۔ خان صاحب کے اپنے علاقے ،
اپنے خاندان اور اپنے گھر میں جذبوں کو جس انداز میں آہ و بکا کرتے میں نے
دیکھا ہے۔ اس پر خان صاحب کو ضرور سوچنا ہو گا۔ سچ اور مخلص جذبوں کا
احترام بہت ضروری ہے۔ |