پرویز مشرف کی واپسی

صدر پرویز مشرف 24 مارچ کو پاکستان آئے اور سیکیورٹی خدشات کی بناء پر جلسہ نہ کرسکے مگر ان کے آنے کے اعلان اور ان کی آمد کے بعد نجانے کیوں پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھونچال آگیا اور سب لوگ ان کے خلاف زیادہ سے زیادہ مخالفانہ مضامین تحریر کرنے اور مخالفانہ بیان دینے کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ ان میں پاکستان کے اخبارات میں لکھنے والے کالم نگار، اینکر پرسن ،تجزیہ نگار سبھی شامل ہیں سیاستدانوں کو تو چھوڑ ہی دیں کیونکہ مشرف نے دو بڑے سیاسی قبضہ گروپوں کو تو سیاست سے آؤٹ ہی کردیا تھا جو اصل میں اس ملک کی تباہی کے ذمہ دار ہیں اور مزے کی بات یہ کہ دونوں ہی نورا کشتی کرکے عوام کو 1985 ء سے بے وقوف بنا رہے ہیں مگر اندر سے ایک دوسرے کے بیلی ہیں۔ ایک عام پاکستانی کے لئے پرویز مشرف کا دور ایک سہانے خواب کی حیثیت رکھتاہے اور وہ خواب جب ٹوٹا تو عوام الناس کے سامنے ایک بھیانک حقیقت یہ تھی کہ اب زرداری ان کا صدر اور گیلانی اور اس کے بعد راجہ راجہ پرویز اشرف ان کا وزیر اعظم ہے ۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں خود ساختہ خادم اعلیٰ ان کا مقدر بنا جو کہ بھٹو کی پیروڈی کرکے خود کو بھٹو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا، دوسرے صوبے سندھ میں ایک مخمور شخص کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بٹھا دیا گیا بلکہ قید کردیا گیا اور صوبے کے نظام کو چلانے کے لئے ٹپی ٹپی کے نعرے لگتے رہے، سب سے حساس صوبے بلوچستان میں ایک نیم پاگل مسخرے کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کوئٹہ سونپ دیا گیا ،عوام اس شخص کی بے تکی اور احمقانہ باتیں سنتے رہے اور اپنے مقدر کو کوستے رہے کہ ہم سے ایسا کون سا گناہ ہوا ہے جس کے پاداش میں یہ شخص جو 50 بکریوں کا ریوڑ چرانے کی بھی اہلیت نہیں رکھتا اسے 44% پاکستان چلانے کو دے دیا گیا ہے،وہ سب کچھ لگتا تھا پاگل ، جاہل ، جوکر مگر وزیر اعلیٰ کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا شاید پچھلے حکمرانوں کا Criteria ہی یہ تھا کہ ہر اعلیٰ عہدے کے لئے ادنیٰ ترین ذہنی صلاحیت والے شخص کا انتخاب کیا جائے، سرحدی صوبہ میں بر سراقتدار سیاسی گروہ کے سرغنہ کے ایک رشتہ دار کو وزارت اعلیٰ بخش دی گئی اور پھراس حکمران ٹولے نے اس ملک اور اس کے اداروں کی جو ایسی تیسی کی وہ سب کے سامنے ہے ان کا اپنا چیئر مین احتساب بیور ر فصیح بخاری یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ پاکستان میں سالانہ 4500 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے ۔

اور ایک عام پاکستانی جب میڈیا کے سرخیلوں کا یہ مشرف پر تنقید کرنا دیکھتا ہے تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ مشرف ہی کا دور حکومت تھا جب میڈیا کو آزادی نصیب ہوئی اور درجنوں نیوز چینل قائم ہوئے یہ مشرف ہی کی آزاد میڈیا پالیسی ہی تھی جس نے میڈیا کو ایک بڑی صنعت اور ان اینکروں کو کروڑ پتی اور بعض کو ارب پتی بنا دیا ۔مگر انسان کی ابن الوقتی اور پست ذہنیت دیکھئے کہ اپنے ہی محسن کے خلاف زبان کھولتے ہوئی ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے ۔

لوگوں کو وہ وقت بھی اچھی طرح یاد ہوگا جب The News کا نیا نیا اجراء ہوا تھا پاکستان کے سب سے بڑے اور مشہورمیڈیا ہاؤس کا یہ انگریزی اخبار فوراً ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا اس کی وجہ اس کا معیار یا اعلیٰ طباعت نہیں بلکہ اس میں لکھا گیا ایک مضمون تھا جس نے اخبار کو شہر ت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور وہ اس وقت کی حکومت کے خلاف صرف یک مضمون پر اس وقت کی ’’جمہوری حکومت ‘‘ نے غداری کا مقدمہ چلایا اور مذکورہ اخبار کی نیوز پرنٹ کی سپلائی کراچی پورٹ پر ہی روک دی گئی، اخبار کو سرکاری اشتہارات ،مراعات سب سے محروم کردیا گیا ۔مگر اﷲ کی شان آج وہی صاحب اور ان کی پارٹی جمہوریت کے چیمپئین ہونے کی دعوے دار ہیں اور خیر سے اپنی باری کے بے چینی سے منتظر ہیں۔

مگر آج مشرف دور کے قائم کردہ میڈیا کو دیکھ لیجئے پانچ سال تک حکومت کے خلاف بھرپور مخالفانہ مہم چلائی مگر حکومت نہ چاہتے ہوئی بھی اس کو برداشت کرتی رہی اور کچھ اینکرحضرات نے تو حکومت کے قیام سے لے کر اس کی رخصتی تک اتنی ڈیڈ لائن دیں کہ حکومت کل گئی ، پرسوں ، اگلے ہفتے گئی ، اگلے ماہ گئی مگر ایسا نہ ہوا مگر اس کے ردعمل میں حکومت نے بجائے اس چینل یا اس کے اینکر کے خلاف کوئی کاروائی کرتی لوٹ مار میں مزید انہماک پیدا کیا اور گذشتہ حکومت نے پورے پانچ سال جی لگا کر کرپشن کی ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ، ہر سرکاری کارپوریشن کو تباہ و برباد کیا سرکاری خزانے کو کنگال کیا اور جانے سے چند دن پہلے صوبائی حکومت سندھ نے 2011 ء سے اپنی تنخواہوں میں 60 فیصد کا ازخود اضافہ کرلیا اور وفاق میں بھی آخری دنوں میں جتنے ’’اہم کام‘‘ باقی تھے وہ پورے کئے اسپیکر صاحبہ نے اپنا پچاس کروڑ کا قرضہ معاف کرایا۔ تاحیات تمام سابقہ اراکین صوبائی و قومی اسمبلی ، وزراء مشیران ، سرکاری خزانے سے اپنا وظیفہ باندھ لیا اور اسے قانونی شکل بھی دے ڈالی ۔

یہ سب کچھ کیوں ہوا آپ نے کبھی غور کیا اس لئے کہ اس قوم کو مخلص قیادت کی ضرورت ہی نہیں ہے ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک بات بھی ایسی نہیں تھی جو کہ عوام الناس سے تعلق نہ رکھتی ہو اس قابل اور درمند انسان نے اس قوم کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی بہت کوشش کی۔۔۔مگر ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا اس نے مینار پاکستان پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جتماع کرکے دکھا دیا ،پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا لانگ مارچ اور دھرنا اسلام بعد میں کرکے دکھا دیا ۔لوگوں کو Mobilize کیا اور ان دنوں پاکستان کے بڑے بڑے ’’سیاسی رہنماؤں‘‘ نے جو کہ طاقت کے پجاری اور کرسی کے بھوکے ہیں طاہر القادری کے ان فقید المثال اجتماعات سے مرعوب ہو کر بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح اس کے پیچھے چلنا شروع کردیا، بڑھکیں ماری کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں مگر ہمیشہ کی طرح مفاد پرست لوگوں نے بھانپ لیا کہ جس نظام کی یہ علامہ بات کررہاہے اس میں ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں ہے لہٰذا بڑی بلند آواز سے تکبیر پڑھ کر علامہ قادری کے پیچھے نیت باندھ کر کھڑے ہوئے اور جب علامہ قادری نے سلام پھیرا تو پیچھے کوئی بھی نہیں تھا ، طاہر القادری کے ساتھ وہی کیا گیا جس سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے جیسا مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفہ کے باسیوں نے کیا تھا مگر وہ مرد درویش اپنے کام سے لگارہا اور آخری دم تک کوشش کرتا رہا اور تنہا ہی لانگ مارچ اور دھرنا بھی دے ڈالا مگر اس ملک کی ایلیٹ کلاس چاہے وہ سول ہو یا فوجی کسی نے بھی اس نعرے کو جو طاہر القادری نے لگایا تھا ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ نہ سمجھا اورعلامہ قادری کے ساتھ بھی سیاست ،سیاست کھیلتے رہے کیونکہ ریاست سے ان کی وفاداری مشکوک ہے( جب کہ الٹا عدالت عظمی نے یہ بہتان علامہ قادری پر لگا دیا ۔۔۔۔سبحا ن اﷲ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے )۔

بالآخر علامہ صاحب نے حجت تمام کرنے کے لئے پاکستان کی ’’آزاد عدلیہ ‘‘ کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر تما م بالا دست طبقات کی ملی بھگت کھل کر سامنے آگئی جب وہاں بھی علامہ قادری کی بات سننے کے بجائے گو ل گول گھمانے کے بعد تیسرے دن ایک ایسا فیصلہ کردیا گیا جو بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے بعد تاریخ میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ کا سب سے غلط فیصلہ لکھا جائے گا،غیر متعلق بحث ،سوالات ،موضوع کی طرف بات نہ لانے کی کوشش اور سب سے بڑھ کر پاکستان کو پالنے والے پردیسیوں Duel National Pakistanies کو دوسرے یا تیسرے درجے کا پاکستانی ثابت کرنے کی ہماری ’’ آزاد عدلیہ ‘‘ نے کوشش کی جب کہ وہ ہر حساب سے پاکستان میں رہنے والوں سے زیادہ وفادار اور پاکستان کے خیر خواہ ہیں اور عملی طور پر پاکستان کے بھوکے عوام کو اپنی امداد ،خیرات ، سے پال رہے ہیں مگر بھلا ہوہماری افسر شاہی ، سیاستدانوں ،اور نام نہاد NGOsکا جو اس بھیک میں سے بھی چوری کر لیتے ہیں اور پوری بھیک بھکاری تک نہیں پہنچنے دیتے ۔جیسا کہ ہماری پولیس عورتوں کے دلالوں سے بھی ان کی دلالی میں سے حصہ لیتی ہے یعنی پولیس بھی ان کے کاروبار میں حصے دار ہے اور پھر اسی رقم سے وہ اپنے بچوں کوپالتے ہیں اب یہ خود فیصلہ کیجئے کہ بڑا دلال کون ہے ؟
Kaleem Ahmed
About the Author: Kaleem Ahmed Read More Articles by Kaleem Ahmed: 11 Articles with 8148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.