ووٹ آپ کا حق اور قوم کی امانت
ہے،ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کرآپ کے ووٹ کی طاقت سے منتخب ہونے والے
نمائندے آئندہ پانچ سال ملک پر حکومت کریں گے جو ملک وقوم کی نمائندگی
دنیابھر میں کریں گے اور ملک کے لیے قوانین بنائیں گے ۔ووٹ کا استعمال اس
قدر سوچ سمجھ کرکریں کہ کل آپ کا ضمیر آپ کو ملامت نہ کرے ۔لیکن کچھ بھی
سوچنے اور فیصلہ کرنے سے پہلے چیرمین نیب ایڈمرل(ر)سید فصیح بخاری کی بات
ضرور سن لیں ہوسکتا ہے ووٹ کا فیصلہ کرنے میں کوئی مدد مل جاے”چیرمین نیب
کہتے ہیں کہ مال بنانے کے لیے سیاست دانوں،بیوروکریسی اور بزنس کمیونٹی نے
گٹھ جوڑ بنا رکھا ہے،(یعنی کُتی چوراں نال رلی پئیی اے،چوکیدار ہی چور ہے )یہ
گرو اتنا چاقتور ہوچکا ہے کہ ملک میں کرپشن پالیسی رائج ہوچکی ،چیرمین نیب
نے کہا ہے کہ بیوروکریسی سیاست زدہ ہوگئی ،حکومت کی (سرکاری)زمین پٹورای
کھاگئے،آبپاشی کا نظام چوروںکے ہتھے چڑھ گیا،سرکاری اثاثے لوٹ کھسوٹ
کاشکارہوگئے ۔گھوسٹ اسکولوںاور ڈسپنسریوں کوملاکرملک کوہرروز 7سے12ارب روپے
کانقصان ہورہاہے۔محترم ووٹرووٹ ڈالنے سے پہلے اس سوال کاجواب تلاش کرنا بہت
ضروری ہے کہ ملک کو نقصان پہنچانے والے کون لوگ ہیں ؟کیونکہ اگر ہم نے
انجانے میں اس بار بھی انہیں لوگوں کو ووٹ دے دیا جو ملک میں لوٹ مار کرتے
ہیں تو ملک کوپہنچے والے نقصان کے ذمہ دار ہم یعنی ووٹر ہوں گے۔ہرروز جولوگ
7سے12ارب روپے کی کرپشن کرتے ہیں میں اُن کوچور ، ڈاکو سمجھتا ہوں۔چوروں ،ڈاکوﺅں
کوووٹ دینے کا مطلب کہ اپنے گھر کو لٹوانے کا انتظام ہم خود ہی کرتے ہیں ۔
ووٹ دینے سے پہلے اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ بھی پڑھ
لیں ’عوام کی زندگی بہتر بنانے والے 186ممالک کی فہرست میں پاکستان 146ویں
نمبر پر ہے ،تعلیم اورصحت پر کانگوسے بھی کم خرچ ہوتا ہے ۔بھارت ،بنگلہ دیش
،سرلنکا بھی آگے ،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے امیر اور غریب
کافرق تیزی سے بڑھ رہا ہے نوجوان نسل کے لیے کوئی طویل المدانی پروگرام
نہیں“سیاست یعنی حکمرانی صرف 100خاندانوں کی میراث ہے“جب جاہل،اِن پڑھ،اَن
پھاڑ قسم کے لوگ ملک پر حکومت کریں گے تو تعلیم وصحت پر خرچ کون کرے
گا؟لواور سن لو جمہوریت کے علم بردار سابق وزراءاور مشر جاتے جاتے ہاتھ کی
صفائی دکھا گئے ۔اسلام آباد کی منسٹر کالونی سے مہنگے جنریٹر ایل سی ڈیزاور
قیمتی اشیاءغائب ۔سابق خاتون وزیر ڈونگے ،دیگچے اور ٹشو بھی ساتھ لے
گئیں۔کیا آپ جانتے ہیں کہ خاتون وزیر ٹشو ساتھ کیوں لے گئیں ؟اس لیے کہ اس
بار الیکشن کمپین کے دوران ووٹر کی طرف سے مشکل ترین سوالات آنے کا اندیشہ
ہے ،ایسے سوالات جو اُمیدوار کے پسینے چھوڑوا سکتے ہیں ۔ایسے میں ٹشو پیپر
کی ضرورت تو پڑے گی نا۔وزیر اپنی جیب سے خریدے ہوئے ٹشو عوامی سوالات کے
نتیجہ میں آئے پسینے پر ضائع نہیں کررسکتے اس لیے وہ سرکاری ٹشو اُٹھا لے
گئیں۔خیر یہ کوئی نئی بات نہیں ایسا سدا سے ہوتا آرہا ہے ۔اصل مسئلہ ہے کے
ووٹ کس کو دیں ؟ووٹر یہ بات سوچ سوچ کر پریشان ہے کہ آخر ووٹ کس کو دیا
جائے؟سب کی سب سیاسی پارٹیوں کے پاس اُمیدوار انہیں 100خاندانوں میں سے ہیں
جو گزشتہ66.65سالوں سے اقتدار پر قابض ہیں ۔ووٹ قومی امانت ہے ،امانت غلط
اُمیدوار کے ہاتھ دے دینا بھی بے ایمانی ہوگی اور ووٹ کا حق استعمال نہ
کرنے کا مطلب کہ چوروں کو کھلا چھوڑ دیا جائے ؟یاپھرہمیشہ کی طرح
جواُمیدوار اچھا کھانا کھلائے ،چائے ،شربت یاپھر دودھ جلیبی کا اہتمام کرے
یا کچھ نقد دے ووٹ اُسی کا حق ہے ؟کتنی حیران کن بات ہے الیکشن کی تاریخ کا
اعلان ہوچکا ،کاغذات نامزدگی حاصل کئے جا رہے ہیں ،اُمیدوار اپنے اپنے
حلقوں میں ہونے کی بجائے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے پارٹی قیادت کی منت سماجت کر
رہے ہیں ۔لیڈروں کی جان بھی شکنجے اندر پھنس چکی ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ کسی
پارٹی کے پاس اہل اُمیدوار موجود ہی نہیں یا یوں کہہ لیں کہ جن لوگو ں
کوپارٹی قیادت ٹکٹ جار ی کرنا چاہتی ہے وہ الیکشن کمیشن کی نظرمیں نااہل
ہیں اور جو ورکرالیکشن کمیشن کی نظرمیں اہل ہیں وہ پارٹی قیادت کی نظر میں
نااہل ہیں ۔اگر الیکشن کمیشن نے نااہل لوگوں کو الیکشن لڑنے سے روک لیا تو
یقینااس بار الیکشن مختلف ہوں گے اور قوی امکان ہے کہ اہل نمائندے منتخب
ہوکراسمبلیوں میں پہنچ جائیں ۔آج کا سوال یہ تھاکہ ووٹ کس کو دیں ؟ذات ،برادری
اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ووٹ ہرگز نہ دیں ۔ووٹ صرف اہل اُمیدوار کو دیں
،جوپڑھا لکھاہو،جس کاتعلق قبضہ مافیا سے نہ ہو،سب سے اہم بات کہ شریف آدمی
ہو،آپ سمجھ تو گئے ہوں؟ |