دو ہزار پانچ سے پہلے تک صوبہ
بہار میں صحت کی سہولیات کا فقدان تھا‘ سرکاری اسپتالوں میں ہونے والا علاج
غیر تسلی بخش تھا‘ لوگ سرکاری اسپتالوں میں جانے سے گریز کرتے تھے‘ جب نتیش
کمار کی حکومت بنی تو محکمہ صحت کی کارکردگی پر عوام کے اعتماد کے حوالے سے
سروے کروایا گیا‘ اس سروے کے انتہائی شرمناک نتائج سامنے آئے‘ سروے کے
مطابق ہر ماہ صرف انتالیس مریض علاج کی غرج سے ایک بنیادی مرکزِ صحت میں
جاتے تھے‘ نتیش کمار اس رپورٹ کو دیکھ کر تلملا اٹھا‘ اس نے کہا کہ جس مفت
علاج معالجے کی ذمہ داری ریاست کی ہے اس کی نااہلی کی وجہ سے عوام سرکاری
کے بجائے نجی اسپتالوں میں جانے پر مجبور ہیں‘ اس کے بعدوزیر اعلی اور اس
کی ٹیم نے اپنا کام شروع کر دیا‘ سب سے پہلے حکومت نے یہ قابل تحسین نعرہ
لگایا ( The First Wealth is Health) یعنی صحت مند قوم ہی اصل سرمایہ ہے‘
اس کے بعدحکومتی انقلاب کا گھوڑا شب وروزاپنی منزل کی جانب دوڑنے لگا‘
حکومت نے سب سے پہلے اسپتالوں میں پیرامیڈیکل اسٹاف سمیت ڈاکٹرز اور دیگر
ضروری عملے کی حاضری کو یقینی بنایا‘ ادویات مفت فراہم کیں‘ اسپتالوں کی
مرمت اور انہیں خوبصورت بنانے پر کام کیا گیا‘ان اقدامات سے پہلے لوگ
سرکاری اسپتالوں کے بجائے نجی اسپتالوں سے علاج کرواتے تھے لیکن حکومت کی
جانب سے صحت کے شعبے میں ہنگامی اقدامات کرنے سے عوام کا سرکاری اسپتالوں
پر اعتماد بحال ہونے لگا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف ایک سال کے اندر
سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی تعدادانتالیس سے بڑھ کر اڑھائی سو گئی اور
آج فی بنیادی مرکز میں مریضوں کی ماہانہ اوسطا تعداد ساڑھے آٹھ ہزار تک
پہنچ چکی ہے۔
اب ذرا شہباز شریف اور پنجاب کی سابقہ حکومت کا حال دیکھئے ‘ جہاں نومولود
بچوں کو اسپتالوں میں بلیاں اور چوہے نوچتے رہے ‘ جہاں لاہور ، راولپنڈی،
ملتان اور فیصل آباد کے علاوہ پورے پنجاب میں کہیں بھی علاج معالجے کی جدید
اور تسلی بخش سہولیات میسر نہ ہوں‘ جہاں ڈاکٹر بیوروکریسی کی ہٹ دھرمی کی
بھینٹ چڑھ جائیں ‘ جہاں سرکاری اسپتالوں میں ریڈیالوجی اور میڈیکل
لیبارٹریز سے ہونے والے ٹیسٹس کے نتائج کوئی بھی پرائیویٹ ڈاکٹر قبول کرنے
کو تیار نہ ہو‘ جہاں لیپ ٹاپس، اجالا سکیم ، میٹرو بس اور پانچ سالوں میں
پنجاب حکومت کی اخبارات ، ٹی وی چینلز پر کی جانے والی تشہیر پر صحت کے
مجموعی بجٹ سے زائد خرچ کر دیئے جائیں تو وہاں یہ احساس کیسے دلوایا جائے
کہ اصل سرمایہ تو صحت مند عوام ہے۔
اب ذرا بہار میں Rule of Law کی عملداری ملاحظہ کریں ‘ نتیش کمار نے ایک
دفعہ تقریر کرتے ہوئے کہا، ”بہار میں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے‘ لوگ اپنے
جان و مال، چادر و چار دیواری اور عزت و آبرو کو لاحق خطرات سے پریشان
ہیں‘کاروباری لوگ جرائم پیشہ افراد سے خوفزدہ ہیں‘ چوری ، ڈکیتی، رہزنی،
اغوا برائے تاوان، منشیات کے کاروبار اور قبضہ مافیا سمیت دیگر جرائم سر
عام ہو رہے ہیں ‘قانون کی حکمرانی نہ ہونے سے جرائم پیشہ افراد کے دل سے
قانون کا خوف اٹھ چکا ہے‘ نتیش کمار نے بہار کو ایک ایسا پر امن خطہ بنانے
کی ٹھان لی ‘ جہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے لگیں ‘ جہاں بہار
کی عورت رات تنہا بھی سفر کرے تو محفوظ رہے‘ جہاں کسی باپ کو اپنی بیٹی کا
جہیز لٹ جانے کا خوف نہ ہو‘ اس مقصد کیلئے اس نے پولیس، وکلا اور عدالتوں
کے ججز کے ساتھ ملاقاتیں کیں‘ ان سے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ میں نے آپ
سب کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا ہے‘ میں آپ کے سامنے حاضر ہوں‘ جو کچھ آپ کو
مجھ سے چاہیے لے لیں لیکن میرے لوگوں کو امن اور انصاف لوٹا دیں‘ وزیر اعلی
کا یہ انداز اور جذبہ قابل دید تھا‘ جب متعلقہ اداروں کے سربراہان نے دیکھا
کہ ان کا وزیر اعلی کس دردِدل کے ساتھ ان سے تعاون کی اپیل کر رہا ہے تو
انہوں نے بھی کمر کس لی‘ اس کے بعد عدالتوں کی حالت کو بہتر اور
پراسیکیوشن(استغاثہ) کی کارکردگی بڑھانے کیلئے تعاون کیا گیا‘ گواہان کو
عدالتوں میں وقت پر پیش کیا جانے لگا‘ پہلے ملزمان سزاوں سے بچ جاتے تھے
کیوں کہ کیسز کے ٹرائل ہی وقت پر مکمل نہیں ہوتے تھے‘ کیس میں موجود خامیوں
کو دور ہی نہیں کیا جاتا تھا لیکن موثر اقدامات کے بعداب ملزمان کو سزائیں
ملنے لگیں ہیں ‘ اب تک تقریبا اسی ہزار ملزمان کو سزائیں دی جا چکی ہیں‘ جس
کے باعث خوف عوام کے دلوں سے نکل کر جرائم پیشہ افراد کے دلوں میں بیٹھ گیا
ہے۔
نتیش کمار سے ایک پاکستانی وکیل نے سوال کیا کہ آپ کی اپنی پارٹی کے لوگ
بھی تو تھانہ کچہری کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ ہوں گے ‘ اشرافیہ اور عام
آدمی کیلئے یکساں قانون کی خلاف ہوں گے ‘ آپ نے اس سوچ کا مقابلہ کیسے کیا
؟ ‘ نتیش کمار نے جواب دیا، ”اگر ایک دفعہ قانون کی حکمرانی کا تہیہ کر ہی
لیا ہے تو پھر قانون سب کیلئے برابر ہو کر ہی رہے گا۔“ اب ذرا شہباز شریف
اور سابقہ پنجاب حکومت کی مثال لیجیے ‘ جہاں پراسیکیوشن کی شرح صرف آٹھ
فیصد ہے‘ ڈکیتی ، راہزنی، اغوا برائے تاوان، گینگ ریپ اور دیگر خطرناک
جرائم کے مرتکب افراد عدالتوں سے بری ہو رہے ہیں ‘ میں خود خطرناک جرائم کے
ایسے مقدمات اور انکی عدالتی کارروائی سے برا ہ راست منسلک رہا ہوں جہاں
عادی اور خطرناک ملزمان پنجاب کی عدالتوں سے پہلے جعلی ضمانتوں پررہا ہوتے
ہیں اور پھر مفرور ہو جاتے ہیں ‘ میں ذاتی حیثیت میں ماتحت عدلیہ کے ایسے
ججز سے واقف ہوں جو لاکھوں روپے رشوت لے رہے ہیں اور بعض ججزنے تو میرے
روبرو رشوت وصول کی‘ پنجاب ایک پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے‘ گذشتہ پانچ سالوں
میں پورے ملک پنجاب میں جرائم میں سب سے آگے تھا‘ پنجاب حکومت نے 2008-13کے
پانچ سالوں میں پنجاب کے ایک شہری کی جان و مال کی حفاظت کیلئے صرف بائیس
سو روپے خرچ کئے ‘ اب آپ ہی بتائیے کہ بائیس سو روپے سے پانچ سال تک آپ
کیسے کسی شخص کی جان و مال کو محفوظ بنا سکتے ہیں ؟ ‘ وزیر اعلی اگرڈی پی
او کی تقرری خود انٹرویو لے کر کرے گا تو وہ ڈی پی او وزیر اعلی کے احکامات
کی اطاعت کے وقت قانون و انصاف کے تقاضوں کوخاطر میں کیسے لائے گا‘ جہاں
وزیر اعلی کے داماد کو سی سی ٹی وی فوٹیج میں تشدد کرتے دکھایا گیا ہو لیکن
وہ باعزت بری ہو جائے‘ جہاں پولیس سپنا خان کیس میں دوست محمد کھوسہ سے اور
عائشہ احد کیس میں حمزہ شہباز شریف سے تفتیش کرنے سے ہچکچاتی ہو تو وہاں
بہار جیسا انصاف کیسے مل سکتا ہے۔
میں نتیش کمار کے بارے میں پڑھنے کے بعد اس کی قائدانہ صلاحیتوں کا معترف
ہو گیا‘ نتیش کمار نے مجھے لیڈر اور سیاستدان کے فرق کو سمجھنے میں بہت
مددکی‘ میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سیاستدان کی نظر اگلے انتخابات پر ہوتی
ہے جبکہ لیڈر کی نظر قوم کے مستقبل پر ہوتی ہے‘ میں نتیش کمار کو کوئی اور
تمغہ دینے کی اہلیت تو نہیں رکھتا لیکن میں آئندہ سے نتیش کمار کو نتیش
کمار نہیں بلکہ بہار کی عوام کا راج کمار کہا کروں گا‘ میں اس نتیجے پر
پہنچا ہوں کہ تمام تر خوبیوں کے باوجود شہباز شریف صاحب صرف ایک اچھے
سیاستدان رہے لیکن نتیش کمار تمام تر خامیوں کے باوجود ایک اچھا قائد ہے۔
سلام راج کمار! |