سپریم کورٹ میں جعلی ڈگریوں سے
متعلق سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیتے ہوئے
کہا کہ الیکشن کمیشن جعلی ڈگری والوں کو نو ٹیفکیشن کے ذریعے نااہل قرار دے
سکتا تھا۔جان بوجھ پر غلط بیانی کرنے پر فوجداری کی کارروائی بنتی ہے۔عدالت
میں چیئرمین ایچ ای سی اور سیکریٹری الیکشن کمیشن بھی موجود تھے۔چیف جسٹس
نے الیکشن کمیشن سے مخاطب ہو کر کہا 54 ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی ہیں
اور 189 ارکان میٹرک اورانٹر کی اسناد پیش کرنے میں ناکام رہے ان کا کہنا
تھا کہ جان بوجھ کر غلط بیانی کرنے پر فوجداری کی کارروائی بنتی ہے۔ جعلی
ڈگری والے پہلے دن سے ہی الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہیں۔ سیکرٹری الیکشن
کمیشن اشتیاق احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ ایچ ای سی نے 69 جعلی ڈگریوں
سے متعلق تحریری طور پرآگاہ کیاجبکہ 54 سابق ارکان اسمبلی کی تعلیمی اسناد
سے متعلق ایچ ای سی نے آگاہ کیا۔چیف جسٹس نے سیکریٹری الیکشن کمیشن سے
مخاطب ہو کر کہا آپ نے کہا تھا ارکان نے اسنادجمع نہ کرائیں توان کی ڈگریاں
جعلی قراردیں گے۔ آپ نے ان ارکان کے خلاف فوجداری مقدمات چلانے کا بھی کہا
تھا۔
اسناد کا جعلی ہونا پاکستانی سیاستدانوں پر ایک بہت بڑا دھبہ ہے۔علاوہ
ازیںآئین 62یا63پر پورا نہ اترنے والے بہت ہی سیاستدان ہیں جن کے فارغ ہونے
کا عندیہ بھی ہے اور فیک ڈگری ہولڈرز کو فارغ کر دیا جائے تو یہ سپریم کورٹ
اور الیکشن کمیشن کا قوم پر ایک احسان عظیم ہوگا۔انصاف تویہی ہے کہ ٹیکس
چور،جعلی ڈگری ہولڈرز،بے ایمان،کرپٹ،جھوٹے،بینک ڈیفالٹر،سوئس اکاﺅنٹ ہولڈرز
اور دغا باز نمائندوں کو الیکشن میں شامل ہونے سے روکا جائے جلعساز چاہے جس
پارٹی کا ہو وہ ملک دشمن اور عوام دشمن ہے۔جن نمائندوں نے عوام سے محض پانچ
سال وعدے کئے مگر ان میں سے پورا کوئی بھی نہیں کیا انہیں دوبارہ الیکشن
میں جانے سے نہ روکنا عوام کی امنگوں کے استحصال کے برابرہے۔ابھی تمام
امیدواروں اور نمائندوں کی سکروٹنی بہت ہی ضروری ہے۔
ملک کی سڑکوں پہ نکلیں آپ کو ٹوٹی پھوٹی اور لوگوں میں کیچڑ میں تھوپتے ہی
نظر آئیں گی۔ان کی حالت پانچ سال پہلے بھی ایسی ہی تھی اور اب بھی ایسی ہی
ہے۔لوگوں کے گھروں تک گیس اور بجلی کے کنکشن لگوانے کے لئے راشی اور بے
ایمان اہلکار پہلے بھی رشوت لیکر کنکشن لگاتے تھے اور حکومت کے پانچ سال
پورے ہونے پر بھی ایساہی ہو رہاہے۔کچھ نام نہاد پٹواری اور پراپرٹی ڈیلر
پہلے بھی لوگوں کو مہنگے نرخوں اور جعلی کاغذات پر زمین فروخت کرتے تھے اور
حکومت کے پانچ سال ہونے پر بھی ان کی حرکات اسی طرح بہیمانہ ہیں۔دکاندار
پانچ سال پہلے بھی اپنی مرضی سے اشیاءمہنگی فروخت کرتے تھے اور پانچ سال
بعد بھی ان کی من مانی قیمتی عوام کو ادا کرنی پڑتی ہیں۔کراچی سمیت کئی
شہروں میں جو حالات پانچ سال پہلے تھے اس ابتر حالات آج بھی ہیں،وہاں لوگوں
کا قتل عام کل بھی تھا آج بھی ہے۔جعلی شناختی کارڈ کی بوریاں بھی کراچی سے
ہی برآمد ہوتی ہیں اور وہاں کے نام نہاد نمائندے ہر بار الیکٹ ہو کر عوام
کو ہی قربانی کا بکرا بناتے ہیں۔
سابقہ صدر مشر ف کے ساتھ گٹھ جوڑکرنے والے اب میاں نواز شریف سے معافیاں
مانگ رہے ہیں۔پرویز مشرف صاحب جوتا کھانے کے بعد بھی ملک پر راج کرنے کی
غلط فہمی میں ہیں۔چوہدری برادارن ایک ڈکٹیٹر کی چھتری میں پانچ سال گزارنے
کے بعد پی پی پی کے غلط فیصلوں میں شامل ہوئے اور اب حالات اس نہج پر ہیں
کہ پرویز الٰہی کا مقابلہ پی پی پی کے ناموراحمد مختار سے ہوگا۔ پاکستان
پیپلز پارٹی اور میاں برادران سے ناراض ارکان عمران خان کی گود میں جا
بیٹھے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی نے ایسا ماحول پیدا کیا ہے کہ ن لیگ اور
تحریک انصاف کا ووٹ تقسیم ہو جس کا فائدہ ان کی پارٹی کو ہو اور دوبارہ وہ
عوام کی قسمت پر بیٹھ کر ان کا بیٹرہ غرق کریں۔طاہر القادری گروپ نہ جانے
کس کے اشارے پر نہ تو ممکنہ الیکشن میں حصہ لے رہا ہے اور نہ ہی الیکشنوں
میں امن سے بیٹھنے کو ارادہ رکھتا ہے۔طاہر القادری کا خفیہ ایجنڈا ہر کسی
کی سمجھ سے باہر ہے۔
الیکشن سے پہلے جو ماحول بن رہا ہے لگتا یہی ہے کہ ٹیکس چور اور پاکستانی
بینکز کے نا دہندے بھی اپنے آپکو کلئیر کرائے بغیر الیکشن میں سامنے نہیں
آسکتے۔کئی پارٹیوں میں ٹکٹ نہ ملنے یا ٹکٹو ں کی غیر منصفانہ تقسیم پر
جھگڑے تاحال جاری ہیں۔کئی نمائندے اپنی پارٹیوں سے نالاں ہو کر سراپا
احتجاج ہیں اور کئی الیکشن کمیشن و سپریم کورٹ کے ڈگری سے اپنے فیک
ہونے،ڈیفالٹر ہونے یا کرپٹ ہونے کے ڈر سے الیکشن نہ لڑنے کا عزم ظاہر کر
رہے ہیں۔
عوام کے پا س ابھی بھی فیصلے کا وقت باقی ہے۔جب ووٹ کی بات ہوتی ہے تو ووٹ
ضمیر کی آواز ہے اور ہم سب پر فرض ہے کہ ہم ایماندار، بے داغ،قابل اور
عوامی وملکی درد رکھنے والے پریکٹیکل انسان کو ووٹ دیں۔ہمارا سلیکٹڈ
نمائندہ ایسا ہونا ضروری ہے جو عوام کے دکھ ،درد اور مسائل کو بہت قریب سے
سمجھتا ہو اور ان مسائل کے حل میں معاون ہو۔پارٹیوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ
وہ عوام کی قسمت پر ایسا نمائندہ سوار کریں جو ہر لحاظ سے ملک و قوم کا
وفادار ہو۔اس عمل میں نوجوان ،مرد،عورتیں اور بزرگ ووٹر ہی بہترین فیصلہ کر
سکتے ہیں۔بلحاظ قوم ہم سب کو ملک کر نااہل،نالائق اور بے ایمان نمائندوں کی
کانٹ چھانٹ کرکے انہیں ہر گز ہرگز ووٹ پول نہیں کرنا چاہیئے۔ملک و قوم کی
ترقی کے لئے ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی عقل مندی کا صحیح وقت الیکشن ہی
ہوتا ہے اگر ہم نے یہ موقع ضائع کر دیا تو پھر شاید پانچ یا دس سال بعد پھر
ہمیں یہ سنہری موقع میسر آئے اور خدانخواستہ ہمارے غلط فیصلے سے ملک و قوم
کو ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچ جائے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جتنا انصاف کر رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہماری اپنی
ذمہ داریاں بھی ہم پر لاگوں ہیں جن سے ہمیں ہرگز مبرا نہیں ہونا
چاہیئے۔جعلسازوں کو پکڑنا اور ان کی نا اہلی پر انہیں الیکشن سے باز رکھنے
میں معاونت یا تو الیکشن کمیشن کر سکتا ہے یا پھر نگران حکومتی سٹ اپ۔ابھی
ہم سب کو ملکر دیکھنا یہ ہے کہ عوام کے ساتھ انصاف ہوتا ہے یا جعلسازوں کو
سپورٹ ملتی ہے۔سپریم کورٹ،الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی سکروٹنی کے بعد
ہم سب کا انفرادی اور اجتماعی درست نمائندے کو ووٹ اصل فیصلہ ہے۔اسی سے پتہ
چلے گا کہ کون ملک و قوم کے لئے اہل ہے اور کون نہیں؟ |