میں حسب عادت اپنے شاگرد کالم
نگار امتیازعلی شاکر سے ملنے اس کے پاس گیا،توموجودہ سیاسی سیٹ اپ سمیت
مختلف ایشوزپر سیرحاصل گفتگوہوئی،مختلف سیاسی جماعتوں کے پارٹی الیکشن کے
حوالے سے بھی تفصیلی بات ہوئی،مجھے امتیازعلی شاکر نے کہا کہ سر بلاشبہ
عمران خان نے وہ کردکھایا جس کا شائد پاکستان کی باقی تمام جماعتیں صرف
خواب ہی دیکھ سکتی ہیں کہ ایک کٹھن اور ناممکن کام کردیا کہ اپنی جمارت کے
پارٹی الیکشن کروا کر پارٹی کو سیاسی ورکرزکے ہاتھوں میں دیدیا،یہ کام آج
تک کسی دوسری سیاسی جماعت کیوں نا کرسکی ،ابھی ہماری گفتگوجاری ہی تھی کہ
پاکستان مسلم لیگ ن کے مقامی بزرگ رہنماء راؤناصرعلی خان میؤ بھی تشریف
فرما ہوئے،میں بتاتا چلوں کہ راؤناصرعلی خان میؤ مسلم لیگ ن کے ان رہنماؤں
میں سے ایک رہنماء ہیں جنہوں نے مشکل ترین وقت میں اپنی جماعت کا ساتھ دیا
،جب پارٹی قائدین پاکستان سے جلاوطن ہوکر جدہ میں عیش وآرام کی زندگی جی
رہے تھے اس وقت راؤناصرعلی خان میؤ سمیت بہت سے ورکرز جن میں
جاویدہاشمی،ناصراقبال خان ودیگر سڑکوں پر ڈکٹیٹرمشرف کی آمریت کیخلاف سینہ
سپرتھے،سلام دعا کے بعد راؤناصرعلی خان میؤبھی شریک گفتگوہوئے اور کہا کہ
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان نے اپنی جماعت میں الیکشن کروا کر ورکروں
کو ان کا حق دیا ہے،جس کے لئے میں خاص طورپر عمران خان کو سلام پیش کرتا
ہوں کہ جس کی جمہوری سوچ نے اپنے ورکروں کواہم عہدے تفویض کرکے ہمیشہ کے
لئے ان کے دلوں میں گھرکرلیا،انہوں نے کہا کہ تبسم صاحب برسوں سے کوئی بھی
سیاسی ورکرکبھی بھی کسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکا، ورکرکو کبھی بھی وہ
مقام حاصل نہیں ہوسکا جو مقام عمران خان نے اپنے ورکرزکو دیا ہے،انہوں نے
کہا کہ ورکرز تو صرف پارٹی جلسوں میں بسیں بھرکرلیجانے اور سچ پوچھیں تو
تالیاں بجانے کے کام ہی آتے ہیں اور جب ٹکٹ دینے کی باری آتی ہے تو ہم جیسے
ورکرزکونظر انداز کر کے ان لوگوں کو ٹکٹیں گفٹ کردی جاتی ہیں جنہوں نے مشکل
وقت میں میاں نواز شریف کا ساتھ چھوڑ کر مشرف پارٹی کا ساتھ دیا اور جب
میاں برادران ملک واپس آئے تو حقیقی ورکر پس پشت چلے گئے اور وہی لوٹے
پارٹی ٹکٹ کے حق دار ٹھہرے جنہوں نے پارٹی میں دراڑیں ڈالیں ،وہ یہ باتیں
کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور اپنے آنسونہ روک سکے ،اور کہا کہ کچھ بھی
ہوجائے ہمارا تو اب جینا مرنا پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ ہی ہے،ہماری طرف
سے پارٹی ان سب لوٹوں کو ساتھ ملا لے جنہوں نے سوائے بدنامی کے پارٹی کو
کچھ نہیں دیا ،جب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ پارٹی
الیکشن میں حاصل نہیں لے سکے گی جوپارٹی الیکشن نہیں کروائے گی ،توگزشتہ
دنوں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے پارٹی
انتخابات میں ایک حیرت انگیزکارنامہ کارہائے انجام دیا،کہ ایک پارٹی اجلاس
بلایا تو مخدوم امین فہیم کوپارٹی کا صدر اور برسوں سے پیپلزپارٹی کے جنرل
سیکرٹری کے عہدے پر براجمان رہنے والے جہانگیربدرکو جنرل سیکرٹری شپ سے ہٹا
کر سابق گورنرپنجاب لطیف کھوسہ کوپارٹی کا جنرل سیکرٹری بنادیا گیا،اور
ساتھ ہی ساتھ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوکو بھی چیئرمین شپ سے ہاتھ دھونا
پڑا حالانکہ پارٹی ورکرزنے تویہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہمارے اگلے وزیراعظم
بلاول بھٹوہی ہونگے ،لیکن پارٹی ہائی کمان کو یہ بات نہیں بھا سکی،پاکستان
میں برسوں سے چندخاندان ہی حکمرانی کا تاج پہنتے ہیں اور ان کی جانشینی
انہی کی اولادوں کے حصے میں آتی ہیں،جیسے کہ پاکستان پیپلزپارٹی ذوالفقار
علی بھٹو سے نصرت بھٹو،بے نظیرسے بلاول بھٹوتک اور اس کے بعد آصفہ بھی
جانشینی کی امیدوار ہیں،پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ
نواز جس نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت تلے آنکھ کھولی اور اسی کی جانشینی
کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا اور بعد ازاں یہ جماعت بھی پیپلزپارٹی کی
طرح گھر کی جماعت ہی بن سکی ،جس کی قیادت میاں نواز شریف،شہبازشریف ،حمزہ
شریف ،مریم نواز انہی کی فیملی کے گرد ہی گھومتی ہے ،اور کبھی بھی کسی غریب
ورکر کو قیادت کا مزہ نہیں چکھایا گیا۔اور ورکر صرف ان قائدین کے جلسے
جلوسوں میں تالیاں ہی مارنے کی حد تک رہ گئے،پاکستان کے صوبے خیبرپی کے میں
بھی کچھ ایسا ہی ہے ،کہ عوامی نیشنل پارٹی کو باچا خان سے ،ولی خان ،پھر
اسفند ولی خان یعنی کے خاندان میں ہی رکھا گیا ،پاکستان کی سیاسی تاریخ میں
پہلی بار دیکھنے کوملا کہ 16سال سے سیاسی کی وادی پرخار میں رہنے والے
عمران خان کو جب عوام نے تیسری سیاسی قوت بنایا تو عمران خان نے بھی عوام
پر اپنا حق ادا کیا اور پارٹی میں الیکشن کروا دئیے حالانکہ اس فیصلے سے
پارٹی کی پاپولیرٹی پر بھی کچھ اثرپڑا لیکن عمران خان نے وہ کردکھایا جوآج
تک باقی سیاسی پارٹیوں نے ورکرزکے ڈرسے نہ کیا کہ کہیں کوئی ورکر ہی پارٹی
کا سربراہ نہ بن جائے لیکن کپتان نے ایسا کیا اور پارٹی کو ورکرز کے ہاتھوں
میں دے دیا،پاکستان میں موروثی جانشینی کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر پیڑھی میں
تعداد بڑھتی جاتی ہے لیکن دستیاب عہدوں کی تعداد وہی برقرار رہتی ہے۔ جس کی
وجہ سے پوتے پڑپوتوں میں اقتدار کی جنگ بڑھتی جاتی ہے اور چونکہ خاندان کی
شاخیں دور دور تک مختلف سمتوں میں پھیلی ہوتی ہیں اس لیے جانشینی کی قطار
بھی لمبی ہوتی جاتی ہے۔ جیسے جیسے کنبہ وسیع ہوتا جاتا ہے پیدائش کی ترتیب
کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور سیاسی طاقت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔جس سے
جھگڑا اور رسہ کشی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔پاکستان اکیلا ہی موروثی
سیاست کا ڈسہ ہوا نہیں پاکستان کیساتھ ساتھ پڑوسی ملک بھارت اور سعودی عرب
کی مثالیں سامنے ہیں جوقیادت کی نئی پیڑھی میں منتقلی کی صورت حال سے دوچار
ہیں جہاں اس قسم کے منتقلی اقتدار کو درپیش چیلنج سامنے آرہے ہیں۔مملکت
سعودی عر بیہ میں ا گلے دس بارہ سال کے دوران لیڈروں کی تیسری یا چوتھی نسل
کے لیڈروں کو اقتدار منتقل ہو جائے گا۔ کیونکہ سعودی عرب میں فرمانروائے
وقت کی زندگی میں نہیں بلکہ اس کی موت کے بعد ہی اقتدار منتقل ہوتا ہے۔
مملکت کے بانی کے بیٹے 1953سے اب تک بر سر اقتدار ہیں۔ سعودی عرب میں شاہی
خاندان ہی مملکت ہے۔ کسی پارٹی کے ذریعہ اسے حکومت سے الگ نہیں کیا جاتا
لیکن پھر بھی وہاں الگ الگ دھڑے اور گروہ بندی ہے۔ شاہی خاندان کے افراد
چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بٹے ہیں۔جس سے سعودی عرب میں نئی نسل کو اقتدار کی
منتقلی کا عمل انتہائی دھندلا اور مبہم ہو جاتا ہے۔ لازمی طور پریہ ایک
خاندانی معاملہ ہے، جس میں شاہی خاندان کے اراکین کسی بادشاہ یا و لی عہد
شہزادے کی موت کے بعد جانشین کے نام پر اتفاق رائے ہونے تک باہم تبادلہ
خیال کرتے رہتے ہیں۔اگرچہ جانشینی کی ایک رسمی پالیسی موجود ہے لیکن اس پر
کبھی عمل ہی نہیں کیا گیا۔سعودی عرب داخلی استحکام کے چیلنجوں سے نمٹنے کے
لیے عام طور پر اپنی تیل کی دولت کا استعمال کرتا ہے لیکن یہ پالیسی آئندہ
آنے والی دہائیوں میں اپنی حدیں چھو سکتی ہے کیونکہ تیسری اور چوتھی پشتیں
قیادت سنبھال رہی ہیں۔تیل کی دولت سعودی عرب کی نمایاں پہچان رہی ہے اور اس
پر نئی نسل یقیناً انحصار کر سکتی ہے لیکن اس امر کی کوئی توقع نہیں ہے کہ
وہ اس تیل طاقت کو اپنے پیشرؤوں کی طرح موثر ہتھیار بنا سکیں گے۔ دنیا بھر
میں تیل کی پیداوار میں کافی اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے عالمی تیل ذخیرے
میں سعودی عرب کے حصہ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اب تیل کی دولت اس کے
اقتدار کا ذریعہ بھی نہیں رہ گئی۔اختیارات اورطاقت حاصل کرنے والے تیل جیسے
کھلے آلہ کی کمزوری تیسری اور چوتھی نسل کے لیے سعودی عرب کے شاہی خاندان
کی داخلی سیاست کو اور بھی پیچیدہ کر دے گی۔کسی بھی سیاسی نظام میں دوسری
پیڑھی کو منتقلی یا ادلا بدلی ایک انتہائی حساس عمل ہو سکتا ہے۔ آخرمیں
اپنے قارئین سے ایک بات کہنا چاہوں گا کہ ووٹ قومی فریضہ ہے اسے ضرورکاسٹ
کیں اور جسے آپ ووٹ کا حقدار سمجھتے ہیں اسے ضروردیں۔ |